بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سیاسی مصنف محمد العیلہ نے کہا: "غزہ کے لوگ بہت سے معاملات پر اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن وہ اس بات پر متفق ہیں کہ ابو شباب اور اس جیسے لوگ غدار ہیں؛ اور غدار کا انجام ناگزیر ہے: "دنیا اور آخرت میں رسوائی"۔ غزہ خیانت کو برداشت نہیں کر سکتا، وہ اسے مسترد کرتا ہے، جیسا کہ ہمیشہ ایسا ہی کرتا رہا ہے۔"
اسی تناظر میں، سیاسی مصنف 'ایاد القرا' نے کہا کہ یاسر ابو شباب کا سقوط و زوال، غاصب ریاست کے منصوبے کی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے، جس نے غزہ کے اندر ایک متبادل اتھارٹی مسلط کرنے اور معاشرے کو تقسیم کرنے کے لئے مقامی ایجنٹ بنانے کی کوشش کی تھی۔ اس منصوبے کو کوئی قومی قبولیت یا سماجی حمایت نہیں ملی، بڑے پیمانے پر قبائلی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اور مقاومت نے اسے جلد ہی ختم کر دیا۔
القرا نے مزید کہا، "نتیجہ واضح ہے: جو بھی غاصبوں کا ساتھ دے گا وہ اسی انجام سے دوچار ہوگا اور غزہ تقسیم کو قبول نہیں کرتا، اور غداری پر مبنی کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہونے دیتا۔"
ادھر سیاسی مصنف حسن القطراوی نے کہا، "اگر آپ خود یاسر ابو شباب سے پوچھیں کہ اس کے پراجیکٹ نے کس حد تک کامیابی حاصل کی ہے، تو وہ تسلیم کرے گا کہ اس کے منصوبے کی کامیابی 10٪ سے زیادہ نہیں تھی، وہ کسی بھی اور کے مقابلے میں، زیادہ بہتر طریقے سے سمجھتا ہوگا کہ اس طرح کے منصوبے کو سب سے پہلے عوامی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔" [گوکہ اب اس کی رائے پوچھنا ممکن نہیں رہا!]
القطراوی نے مزید کہا، "جس چیز نے یاسر ابو شباب کو اس ناکام منصوبے کے نفاذ کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا وہ غزہ کی پٹی میں حماس کی حکمرانی کا تیزی سے خاتمہ دیکھنے کی خواہش تھی، خاص طور پر جب سے نسل کشی کی اس جنگ نے اسے اپنی خواہش کو پورا ہوتے ہوئے دکھایا تھا اور اس کو امید ہو چلی تھی کہ اسرائیل کامیاب ہوگا اور فلسطینی مقاومت شکست کھائے گی!"
انھوں نے مزید کہا کہ "غزہ میں بہت سے لوگ حماس سے متفق نہیں ہیں، لیکن وہ ابو شباب کے منصوبے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں، کیونکہ ـ خواہ قومی اور سیاسی اور قومی اختلاف کتنا ہی کیوں نہ ہو ـ یہ انتہائی زیادہ رسوائی کا انتہائی شرمناک راستہ ہے۔
القطراوی نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ "یاسر ابو شباب کی ہلاکت ایک شخص سے زیادہ، ایک سوچ اور ایک خیال کی ہلاکت ہے۔ جو بھی تاریخ کو پڑھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس طرح کے خیالات جنم لیتے وقت ہی مُردہ ہوتے ہیں، کیونکہ زیر قبضا قومیں ہر چیز پر اختلاف کر سکتے ہیں لیکن وہ قبضے اور قابض سے نفرت پر ہرگز آپس میں اختلاف نہیں کرتے اور اس پر متفق ہوتے ہیں"۔
ابو شباب پروجیکٹ کا خاتمہ
سیاسی مصنف احمد الحیلہ نے کہا: "اس سے قطع نظر کہ [اسرائیلی] گماشتے 'یاسر ابو شباب' کو کس نے قتل کیا، سبق یہ ہے کہ قابض ناکام ہو چکے ہیں اور وہ ایک متبادل اتھارٹی تلاش کرنے میں ناکام رہیں گے کیونکہ اسے فلسطینی عوام نہیں چاہتے، اور مذکورہ شخص کے قتل پر فلسطینیوں کا جشن و سرور، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ابو شباب اور اس جیسے دوسروں کا رجحان ایک ایک غیر معمولی اور گھناؤنا رجحان ہے، اور یہ کہ فلسطینی قوم اپنے قومی مراکز سے منسلک ہے، اپنے قومی اصولوں پر کاربند ہے، اور کسی بھی ایسی قوت کی سرپرستی یا اطاعت کو مسترد کرتی ہے جو غاصبوں کے ٹینکوں پر سوار ہو کر آئے اور غاصبوں کے مفادات کو پورا کرے۔"
اسی ضمن میں، سیاسی مصنف رامی ابو زبیدہ نے کہا: "عسکری-سیکیورٹی نقطہ نظر سے، 'عبرانی' ذرائع ابلاغ غزہ کے اندرونی واقعات کے دھارے پر کنٹرول حاصل کرنے میں اسرائیلی ناکامیوں کو نہیں چھپاتے۔ ابو شباب کا قتل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ: غزہ پر مقاومت کی جگہ کوئی دوسری مقامی قوت مسلط کرنے کا کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا اور ایسا کوئی بھی منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوگا۔"
ابو زبیدہ نے مزید کہا: "غاصبوں کی "انتشار اور افراتفری بنانے کی منصوبہ سازی" یا پراکسی قوتوں کا استعمال، غزہ میں استحکام قائم نہیں کرتا اور غاصب ریاست کے اثر و رسوخ کا سبب نہیں بنتا۔"
انھوں نے نتیجہ اخذ کیا، "غزہ میں مقاومت کی قیادت میں حفاظتی ماحول، ان منصوبوں کو ناکام بنانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، جس کی وجہ سے مقامی پراکسیوں پر اسرائیلی انحصار شروع ہی میں، ناکامی سے دوچار ہو جاتا ہے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ