اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، جنوبی افریقا کے صدر سیریل رامافوسا نے امریکہ کی اس دھمکی کو سختی سے رد کر دیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ آئندہ سال ہونے والے جی 20 اجلاس میں پریٹوریا کو شرکت کی دعوت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ جنوبی افریقا جی 20 کے بانی اراکین میں شامل ہے اور وہ اس بین الحکومتی فورم میں اپنی فعال اور تعمیری شمولیت جاری رکھے گا۔
صدر رامافوسا نے اتوار کی شب قوم سے خطاب میں کہا کہ “ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جنوبی افریقا جی 20 کا بانی رکن ہے اور بطور مکمل اور فعال رکن اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا رہے گا۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ جنوبی افریقا کو آئندہ سال کے اجلاس میں مدعو نہیں کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے جی 20 کا اجلاس جوہانسبرگ میں منعقد ہوا تھا جس میں امریکہ نے شرکت نہیں کی۔
رامافوسا نے کہا کہ امریکہ کی عدم شرکت غلط اطلاعات پر مبنی تھی جو کہ “قابل افسوس” ہے۔ ٹرمپ نے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کو جنوبی افریقا میں مبینہ “گوروں کے قتلِ عام” اور سفید فام کسانوں کی زمینوں کی مبینہ ضبطی سے جوڑا تھا۔
صدر رامافوسا نے ان دعوؤں کو “کھلی غلط معلومات” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں اور جنوبی افریقا کے بارے میں حقائق کو مسخ کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جنوبی افریقا نے گزشتہ ہفتے جی 20 کی صدارت امریکہ کو منتقل کی ہے اور وہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے۔ امریکہ نے یکم دسمبر سے باضابطہ طور پر جی 20 کی صدارت سنبھال لی ہے۔
دوسری جانب، امریکہ اور جنوبی افریقا کے درمیان جاری تناؤ نے جی 20 کے مستقبل پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے اجلاس کے افتتاح میں خبردار کیا کہ جی 20 اپنی عالمی اثر انگیزی کھو رہا ہے، جس سے اس کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔
1999 میں قائم ہونے والا جی 20 فورم دنیا کی 19 بڑی معیشتوں، افریقی یونین اور یورپی یونین پر مشتمل ہے۔ یہ رکن ممالک مجموعی طور پر دنیا کی 85 فیصد معیشت، 75 فیصد عالمی تجارت اور نصف سے زیادہ عالمی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تاہم بریکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے نئے عالمی اتحادوں کے ابھرنے سے جی 20 کی اثر پذیری میں کمی آئی ہے۔
آپ کا تبصرہ