26 اکتوبر 2025 - 12:04
شام کی مقاومت کا حزب اللہ لبنان سے موازنہ؛ بشار الاسد تذبذب کا شکار تھے / میجرجنرل جعفری کا انٹرویو-1

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے حضرت بقیۃ اللہ(ع) ثقافتی ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر نے کہا: ہمارے پاس میزائلوں کی تعداد لا محدود ہے، اور یہ صلاحیت مختلف رینجز کے میزائلوں پر مشتمل ہے۔ اس شعبے میں ملک کی صلاحیت واقعی وسیع اور لامحدود ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || میجر جنرل محمد علی جعفری نے کل (مورخہ 25 اکتوبر کی شام کو ٹی وی پروگرام "ماجرائے جنگ" میں محور مقاومت اور حزب اللہ لبنان کی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: جیسا کہ رہبر معظم نے فرمایا ہے، مقاومت و مزاحمت کوئی ہارڈ ویئر چیز نہیں ہمارے ہے جسے شکست دی جا سکے۔ اگر مزاحمت کوئی ہارڈ ویئر شیئے ہوتی، تو آج حزب اللہ موجود نہ ہوتی۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سابق کمانڈر انچیف اور حضرت بقیۃ اللہ(ع) ثقافتی ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر میجر جنرل محمد علی جعفری نے اس پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:

• اگرچہ حزب اللہ کو بھاری نقصان پہنچا لیکن اس کی 70 فیصد صلاحیت محفوظ رہی، اور یہ خود مزاحمت کی گہرائی اور حیات و تحرک کی علامت ہے۔

• لبنانی مقاومت نے اچانک حملے کے باوجود ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اسرائیل کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔ اس نے ڈٹ کر دشمن کو پیچھے دھکیل دیا اور آخر کار جنگ فریق مقابل کی درخواست پر بند ہوئی۔ آج بھی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے منصوبے سے پیچھے ہٹنے کی باتیں سنائی دے رہی ہیں، جو مقاومت کے استحکام کی نشاندہی کرتی ہیں۔

شام میں مزاحمت لبنان میں مزاحمت سے کچھ مختلف ہے

• لبنان میں مقاومت و مزاحمت کی جغرافیائی بنیاد عوامی حمایت پر استوار ہے، شیعہ سے لے کر دیگر طبقات بشمول عیسائیوں تک۔ شام میں، داعش کے خلاف کارروائی تک صورت حال بہتر تھی اور حاج قاسم سلیمانی کی کمان میں کام ہو رہا تھا۔

• حالیہ برسوں میں بشار الاسد کے عزم و ارادے میں تبدیلی آئی جس کا اثر محور مقاومت پر پڑا۔ تعاون بہت محدود ہو گیا اور بشار الاسد حکومت کے فیصلوں کا براہ راست اثر مقاومت کے عمل پر پڑا۔ مثال کے طور پر، ایک بہت ہی عجیب فیصلے میں، انھوں نے 20 ہزار سے زیادہ مخالف مسلح افراد کو فوج میں شامل کر لیا! اور ہم نے دیکھا کہ فوج نے دہشت گرد گروپ کے حملے کا مقابلہ نہیں کیا، اور اس میں اس طرح کا کوئی ارادہ دکھائی نہیں دیا۔

لہذا شام میں محور مقاومت کی موجودہ صورت حال کا کچھ حصہ شامی حکومت کی سیاسی ڈھانچے میں تبدیلی اور سرکاری فیصلوں کی وجہ سے پیدا ہوئی، حالانکہ مقاومت کی روح اب بھی زندہ ہے۔

بشار الاسد مزاحمت جاری رکھنے کا عزم کھو چکے تھے

• پہلے سے ہی پیشین گوئی کی گئی تھی کہ شام میں موجودہ صورت حال پیدا ہوگی؛ کیونکہ بشار الاسد میں مزاحمت کا راستہ جاری رکھنے کے لئے ضروری عزم نہیں ناپید ہو چکا تھا۔

• داعش کے دور میں بشار الاسد کے عزم اور فیصلہ سازی میں ایک معجزہ سا رونما ہؤا تھا، لیکن اس دور کے بعد وہ غفلت کا شکار ہو گئے اور غیر متوقعہ حملے کا شکار ہوئے۔

• دباؤ، پابندیاں، فوج کی اندرونی حالت اور شاید بشار کی ذاتی تھکن، یہ سب بشار الاسد کے مزاحمت کے جذبے پر پر اثر انداز ہوئے اور وہ ہمت ہار گئے۔

• شامی حکومت کو مضبوط بنانے اور مشورہ دینے کی کوششیں کی گئیں۔ یہاں تک کہ ایک اجلاس میں جس میں شہید سید حسن نصراللہ، لیفٹیننٹ جنرل شهید حسین سلامی اور مقاومت کے کئی کمانڈروں نے شرکت کی، ہم نے انہیں خطرے سے آگاہ کیا، لیکن بشار الاسد نہ مانے اورہمارے مشوروں کو تسلیم نہیں کیا۔

• بشار الاسد بذات خود شام کی موجودہ صورت حال کے ذمہ دار اور قصور وار ہیں۔ جب حکومت کے سربراہ کا عزم ختم ہو جاتا ہے، تو قدرتی طور پر پورا ملک متاثر ہوتا ہے۔ ان کا عزم و ارادہ پانچ سے سات سال پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔

• میرا خیال ہے کہ بشار الاسد کا ذاتی ارادہ اس قدر بدل گیا تھا کہ حتی اگر شہید لیفٹیننٹ جنرل الحاج قاسم سلیمانی بھی حیات ہوتے تو ان کا ارادہ نہیں بدل سکتے تھے۔

• موجودہ صورت حال شام کی قیادت میں اسی عزم کی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ مقاومت و مزاحمت اس وقت معنی رکھتی ہے جب فیصلہ سازی کی چوٹی پر عزم اور یقین موجود ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha