16 اکتوبر 2025 - 21:26
نوبل انعام کی پھیکی پڑتی چمک پر لگی مزید ایک چوٹ...

اوسلو کے گلیاروں میں ماچادو کے ذریعے ٹرمپ کی شکرگزاری کی گونج بہت کھوکھلی ہے۔ یہ ان اتحادوں کے لئےجام ٹکرانے جیسا ہے جو صرف دشمنی کو جنم دیتے ہیں، امن کے لئےخاموش کوششوں سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || وینزوئلا کی اپوزیشن لیڈر ماریا کورینا ماچادو نے 10 اکتوبر کو 2025 کا نوبل امن انعام قبول کرتے ہوئے جو کچھ کہا، اس پر سوشل میڈیا اور بین الاقوامی سطح پر خوب بحث ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ "یہ اعزاز وینزوئلا کی ثابت قدمی اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے ہماری جمہوری امنگوں کے لئےغیر متزلزل حمایت کا نتیجہ ہے۔"

ان کا یہ بیان داخلی ہم آہنگی نہیں بلکہ خارجی مفاد پر مبنی کیریئر کے مطابق تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسی لیڈر، جس کے طرزِ عمل میں تختہ الٹنے، اقتصادی محاصرے اور جنگ پر اکسانے والے عناصر کو لبھانے کی کوششیں شامل ہوں، وہ 'امن کی علامت' کیسے بن سکتی ہے؟ اوسلو کے اس انتخاب نے نوبل کی پھیکی پڑتی چمک پر نہ صرف مزید ایک گہرا سایہ ڈال دیا ہے بلکہ جغرافیائی-سیاسی جانبداری میں الجھے انتخابی عمل کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ عدمِ تشدد کی علامت یہ انعام بالآخر ایک ایسے شخص کو مرکز میں لے آتا ہے جس کی سرگرمیاں عدم استحکام کے دائرے کو وسعت دے رہی ہیں۔

ماچادو کا سیاسی عروج رائے دہی کے ذریعے نہیں بلکہ 'تباہی کے غبار' کا نتیجہ تھا۔ اپریل 2002 میں صدر ہیوگو شاویز کا تختہ پلٹنے کے دوران جب کاراکاس میں بغاوت ٹینکوں کی گونج تھی، تو وہ اپوزیشن کی 'سایہ حکومت (Shadow Government)' میں ایک نمایاں کارکن کے طور پر ابھریں۔ بدنامِ زمانہ 'کارمونا ڈکری' (Carmona Decree) پر دستخط کر کے ماچادو نے ایک ایسی دستاویز پر اپنا نام درج کیا جس نے نہ صرف آئین کو معطل کیا بلکہ قومی اسمبلی کو ختم کر دیا اور عدالتی آزادی ایک ہی جھٹکے میں زمین بوس ہو گئی۔ انتخابی زیادتی کو درست کرنے کے نام پر جو کچھ ہؤا، وہ ادارہ جاتی تباہی کا ایک نقشہ تھا۔

کاروباری اشرافیہ اور امریکی سفارت خانے کی سرگوشیوں سے تقویت یافتہ یہ تختہ الٹنے کی کوشش 3 دن چلی۔ عوامی تحریک کے دباؤ میں 14 اپریل کو شاویز دوبارہ اقتدار میں لوٹے۔ ماچادو نے اپنی بغاوت کو 'آمریت کے خلاف خود رو بغاوت' قرار دیا، لیکن اس تشدد کو نظرانداز کر گئیں جس میں 19 افراد مارے گئے اور میڈیا 'بلیک آؤٹ' نے اختلافی آوازوں کو دبا دیا تھا۔ انسانی حقوق کے نگراں سمیت ناقدین نے بعد میں بتایا کہ اپوزیشن کے گروہوں نے ماچادو کی بھرپور حمایت کے ساتھ ریاستی میڈیا اور مزدور یونین کے رہنماؤں کو کس طرح نشانہ بنایا۔

یہ واقعہ 'جمہوریت کو سہولت کے مطابق استعمال اور ترک کرنے کے آلہ کے طور پر' ان کے کیریئر کی سمت طے کر گیا۔ بعد کے برسوں میں ماچادو نے تختہ الٹنے کی اپنی ساکھ کے بل پر کانگریس کی نشست حاصل کی، جہاں وہ نہ صرف اراضی اصلاحات اور سماجی پروگراموں کی مخالفت میں کھڑی دکھائی دیں بلکہ ان سب کو ضبط کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ خودمختاری کے تئیں ان کی یہ حقارت عالمی داد و تحسین پانے کے لئے قومی خود مختاری کو نیلام کرنے کی ان کی خواہش کا بے شرم اظہار تھی۔

پابندیاں یعنی محاصرہ: اسلحے کی خواہش

ماچادو کے اثر کو سمجھنے کے لئےچند پالیسیاں ہی کافی ہیں، جیسے اقتصادی پابندیوں کی ان کی ضدی وکالت، جس کی حمایت اگرچہ اوباما دور میں ضرور ہوئی لیکن اسے اصل فروغ ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں ملا۔ خود کو وینیزویلا کا جلاوطن ضمیر بنا کر پیش کرتے ہوئے، انہوں نے نہ صرف واشنگٹن کے ایوانوں میں لابنگ کی بلکہ مالیاتی تنہائی کے فوائد پر کانگریس کے سامنے گواہی بھی دی۔ انہوں نے زور دے کر کہا، "ہدفی اقدامات، کسی اضافی نقصان کے بغیر مادورو حکومت پر دباؤ ڈالنے کا کام کریں گے"—جو ایک ایسا دعویٰ نکلا جو ہر گزرتے دن کے ساتھ سامنے آنے والے شواہد کے آگے جھوٹا ثابت ہوا۔

2025 تک، پابندیوں نے شدید نقصان پہنچایا: بے انتہا افراطِ زر نے اجرتوں میں 99 فیصد کمی کی، بلیک آؤٹ میں اسپتال بند ہو گئے اور درآمدی پابندیوں نے شیر خوار اموات کی شرح بڑھا دی۔ اقتصادی و پالیسی تحقیقاتی مراکز سے لے کر اقوامِ متحدہ کے مبصرین تک، آزادانہ تجزیوں نے ان پابندیوں کو 40,000 سے زیادہ قابلِ گریز اموات سے جوڑا، جن میں زیادہ تر کمزور طبقے کے لوگ تھے۔ ماچادو نے ایسے اعداد و شمار کو حکومت کا پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور ان اقدامات کو سراہتے ہوئے انہیں "منشیات مافیا آمریت" کے خلاف "اخلاقی وضاحت" کا نام دیا۔

ان کا جوشِ عمل معیشت سے کہیں آگے بڑھا ہوا تھا۔ 2019 میں بڑھتے تناؤ کے دوران ماچادو نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو سے فوجی مدد کی علانیہ درخواست کی، وینیزویلا کے 'استحصال' اور فلسطینی جدوجہد کے درمیان مماثلتیں بیان کیں، حالانکہ اسرائیل کے بے لگام طاقت کے استعمال کے ریکارڈ کو نظرانداز کیا۔ یہ مایوس کن اتحاد عراق اور لیبیا میں امریکی مداخلت سے پہلے ہی عدم استحکام کے شکار خطے میں بیرونی طاقتوں کو دعوت دینے والا تھا۔

ان کی درخواست پر توجہ دی گئی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے منشیات مخالف کارروائی کے بہانے کیریبین میں بحری وسائل تعینات کیے تو ماچادو نے اس مہم کی تعریف کرتے ہوئے اسے "بہادرانہ روک تھام کا قدم" قرار دیا۔ انہیں امریکی طیارہ بردار جہاز "جمہوری معیارات" نافذ کرنے کے لئےتیار نجات دہندہ دکھائی دے رہے تھے۔ اس طرح کی چھیڑ چھاڑ مونو ڈاکٹرین کی روح کو زندہ کرتی ہے، جہاں ایک فرضی تنازع میں الجھنے کا خطرہ ہوتا ہے جو کولمبیا سے لے کر برازیل تک کے ہمسایوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

گوارِمباس اور عدمِ تشدد مزاحمت کا فسانہ

ماچادو کی اندرونی حکمتِ عملی اس سے بھی زیادہ خوفناک تھی۔ 2014 میں، جب اقتصادی بحران شدید ہوا، انہوں نے 'لا سالیڈا' (دی ایگزٹ) مہم کی منصوبہ بندی کی، جو مستقل بدامنی کے ذریعہ مادورو کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی ایک کثیر جہتی کوشش تھی۔ انتخابی اصلاحات کے مطالبہ سے شروع ہوا یہ احتجاج 'گوارِمبا' میں تبدیل ہو گیا، یعنی ایسی شہری بغاوت جس میں موٹر سائیکل گشت، مولوٹوف حملے اور اپوزیشن کے قلعوں سے سنائپر فائرنگ شامل تھی۔

ماچادو کی حمایت سے منتظمین نے 'ریزر وائر بیریکیڈز' لگائے اور سوشل میڈیا وار روم سے مہم شروع کر دی۔ ہلاکتوں کی تعداد کافی تھی۔ 43 لوگ مارے گئے، 3,000 سے زیادہ زخمی ہوئے اور پبلک سروسز سے منسلک چیزوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ ایمبولینس تک نشانہ بنیں، ان پر ملبہ پھینکا گیا، سرکاری نرسریوں اور کلینکوں میں آگ لگائی گئی۔ غیر ملکی امدادی کارکنوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور انسانی خدمت میں مصروف کیوبا کے ڈاکٹروں کو گوارِمبا کے انتہاپسندوں کے خودسوزی والے حملوں کا سامنا کرنا پڑا، جسے بعد میں ماچادو نے مزاحمت کی آگ میں 'افسوسناک زیادتی' کہا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر انٹر امریکن کمیشن آن ہیومن رائٹس تک، بین الاقوامی مبصرین نے اس حکمتِ عملی کی مذمت اسے غیر متوازن جنگ قرار دے کر کی۔ پھر بھی بیرونِ ملک محفوظ پناہ گاہوں سے نشریات کرتے ہوئے ماچادو نے اس تباہی کو 'وینزوئلا اسپرنگ' کے طور پر پیش کیا۔ عرب بیداری کے بیانیے سے مماثلتیں دکھاتے ہوئے، افریقی نژاد وینزوئلا باشندوں اور مقامی شاویز حامیوں کو نسلی طور پر نشانہ بنائے جانے کے پہلو کو نظرانداز کر دیا۔ ان کے بیانیاتی کنٹرول، جسے سی این این این ایسپانول جیسے ذرائع نے مزید فروغ دیا، نے تشدد کو صاف ستھرا بنا دیا، جس میں ریاستی جبر کے شکاروں کو دکھایا گیا، جبکہ اپوزیشن کی ذمہ داری کو دبا دیا گیا۔

2017 اور 2019 کے فسادات میں بھی یہی طرز نظر آیا، جہاں ماچادو کے نیٹورک نے جدوجہد جاری رکھنے کے لئےمیامی کے جلاوطنوں سے مالی مدد حاصل کی۔ اسی حکمتِ عملی کے اثر سے پڑوس 'اجاڑ علاقوں' میں بدل گیا اور انتخابی راستوں پر عوام کا اعتماد کمزور پڑ گیا، جنہیں اب وہ سب دھوکہ دہی قرار دیتی پھر رہی ہیں۔

نئی لبرل داسی: خودمختاری کی نیلامی

ماچادو سخت نئی لبرل ازم کی نمائندہ ہیں، جو عوامی اثاثوں کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ مادورو کے بعد کے وینزوئلا کے لئےان کے تصور میں پی ڈی وی ایس اے کے تیل کے میدانوں، اورینوکو مائننگ آرک رعایتوں اور کمیونٹی واٹر سسٹمز کی وسیع نجکاری شامل ہے، جو 1990 کی دہائی میں ارجنٹائنا کو تباہ کرنے والے اور بولیویا کے گیس ذخائر کو کھوکھلا کرنے والے ساختیاتی ایڈجسٹمنٹس کی یاد دلاتی ہے۔ ماچادو کا مؤقف ہے کہ 'کارکردگی منڈی کا تقاضا ہے' اور وہ ایسے براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے بہاؤ کا وعدہ کرتی ہیں جو تاریخی طور پر کثیر القومی کمپنیوں کو امیر بناتا ہے جبکہ مقامی صنعتوں کو بے دخل کر دیتا ہے۔

یہ ایجنڈا ان کی ماورائے اوقیانوس وفاداری سے مطابقت رکھتا ہے۔ بش کے دور سے ہی ریپبلکن فنڈ ریزروس میں شامل رہیں ماچادو نے جان بولٹن سے لے کر مارکو روبیو تک سے مضبوط تعلقات قائم کیے اور خود کو لاطینی امریکہ میں بولیویری مخالف قلعہ کے طور پر پیش کیا۔ یروشلم میں سفارت خانہ کی منتقلی سمیت اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات کی بحالی کا ان کا عزم نہ صرف دوبارہ صف بندی کی علامت ہے بلکہ ان پالیسیوں کے ساتھ نظریاتی مماثلت کا بھی مظہر ہے جو سیکورٹی کو توسیع پسندی کے ساتھ ملا دیتی ہیں۔

ڈونالڈ ٹرمپ کو اپنا نوبل وقف کرتے ہوئے ماچادو نے اشارہ دیا کہ ان کی آئندہ حکومت 'میک امریکہ گریٹ اگین' (ایم اے جی اے) کی عملی سیاست سے وابستہ ہوگی، جہاں وینزوئلا کی بحالی کا مطلب ایکسون موبل اور ہیلی برٹن کے لئےوسائل میں کٹوتی ہے۔ یہ نظم و نسق نہیں، یہ پابندیوں میں نرمی اور انتخابی مہم کے لئےخودمختاری کی تجارت کرتے ہوئے 'سب کنٹریکٹنگ' جیسا ہے۔ ماریا کورینا ماچادو کا نوبل انعام ثابت قدمی کی جیت نہیں ہے، یہ انعام کے انحراف پر ایک انتباہی الزام ہے۔ ایسے شخص کو سرفراز کر کے جس کا کیریئر 'تقسیم' کے لئےوقف رہا ہو، کمیٹی ایک ایسی عالمی سوچ کے ساتھ کھڑی ہے جہاں امن مسلط کیا جاتا ہے، جہاں 'جمہوریت' اقتصادی تباہی کو نظرانداز کرتی ہے اور 'آزادی' غیر ملکی فوجوں کے لئےراہ ہموار کرتی ہے۔

اس 'گولی باری' میں پھنسا وینزوئلا اس سے کہیں بہتر کا مستحق ہے۔ بگڑتے انتخابی عدم اعتماد کے ماحول میں جیسے جیسے مادورو کی گرفت مضبوط ہو رہی ہے، ماچادو کے اقتدار میں آنے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اوسلو کے ایوانوں میں، ماچادو کی جانب سے ڈونالڈ ٹرمپ کے حق میں اظہارِ تشکر کی گونج کھوکھلی ہے۔ یہ ان اتحادوں کے لئےجام ٹکرانے جیسا ہے جو صرف دشمنی کو جنم دیتے ہیں، مستقل مفاہمت کی پرامن کوششوں سے جن کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: حسنین نقوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha