اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق عالمی عدالتِ انصاف (ICJ) نے ایک تاریخی مشاورتی فیصلے میں واضح کیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ غزہ کا محاصرہ، امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ اور اقوامِ متحدہ کی ایجنسی اونروا کی بندش کسی طور قابلِ جواز نہیں اور ان کے لیے کوئی سلامتی بہانہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
یہ فیصلہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی درخواست پر دیا گیا، جس میں اسرائیل کے ان اقدامات کا جائزہ لیا گیا تھا جو اس نے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں اقوامِ متحدہ، بین الاقوامی اداروں اور تیسرے ممالک کی سرگرمیوں کے خلاف کیے ہیں۔
عدالت نے واضح کیا کہ اسرائیل اب بھی غزہ میں قابض قوت کے طور پر ذمہ دار ہے اور اسے 1949 کی چوتھی جنیوا کنونشن کے تحت انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی یقینی بنانی چاہیے۔
فیصلے میں کہا گیا محاصرہ اور امداد کی راہ میں رکاوٹ، بین الاقوامی انسانی قوانین کی شدید خلاف ورزی ہے، اور کسی بھی سلامتی کا جواز غیرنظامیوں کو امداد سے محروم کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے اسرائیل کے اُس اقدام کو بھی غیر قانونی قرار دیا جس کے تحت اس نے ایک نجی ادارے غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن کے ذریعے امدادی سرگرمیوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کی۔ عدالت کے مطابق، اونروا کی جگہ کسی نجی ادارے کو دینا بین الاقوامی اصولِ بیطرفی اور شفافیت کے منافی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اسرائیل، اقوامِ متحدہ کا رکن ہونے کے ناطے، اس کے دفاتر، اہلکاروں اور املاک کی مصونیت کا احترام کرنے کا پابند ہے۔“منشورِ اقوامِ متحدہ کی شق 105 اور 1946 کا کنونشن جنگ کے دوران بھی لاگو رہتا ہے، لہٰذا اسرائیل کسی بین الاقوامی ادارے یا اس کے عملے کے خلاف یکطرفہ کارروائی نہیں کر سکتا۔
عدالت نے اسرائیل کے اُس مؤقف کو مکمل طور پر مسترد کر دیا کہ غزہ میں اس کی پابندیاں اور رکاوٹیں سلامتی کے تقاضوں کے تحت ہیں۔دفاعِ خود یا سلامتی کے نام پر کسی ریاست کو انسانی قوانین کی خلاف ورزی کا حق نہیں مل سکتا۔ حتیٰ کہ جنگ یا دہشت گردی کے خطرے کی حالت میں بھی انسانی امداد روکنا، بھوک کو ہتھیار بنانا یا عام انسانوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنا ناقابلِ قبول ہے۔
دیوانِ انصاف نے واضح کیا کہ عوام کو بھوک سے تنگ کرنا یا انہیں جبراً بے گھر کرنا بین الاقوامی انسانی قانون کی شدید خلاف ورزی ہے۔اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے لیے خوراک، پانی، دواؤں اور طبی سہولتوں تک رسائی ممکن بنائے۔
فیصلے کے آخری حصے میں عدالت نے ایک بار پھر فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی توثیق کی۔اسرائیل کو چاہیے کہ وہ اپنی داخلی قانون سازی یا انتظامی اقدامات فلسطینی علاقوں پر لاگو نہ کرے اور اقوامِ متحدہ کے ساتھ مل کر اس حق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
اگرچہ یہ رائے مشاورتی نوعیت کی ہے اور براہِ راست عدالتی نفاذ نہیں رکھتی، تاہم ماہرینِ قانون کے مطابق، اس کا سیاسی و قانونی وزن غیر معمولی ہے اور یہ آئندہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی کارروائیوں کے لیے بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔
یہ فیصلہ گزشتہ سال دیے گئے اُس تاریخی فیصلے کا تسلسل ہے جس میں عدالت نے فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی کو غیر قانونی قبضہ قرار دیا تھا۔ موجودہ رائے میں عدالت نے نہ صرف اسرائیل کو قابض قوت تسلیم کیا بلکہ غزہ کے محاصرے کے خاتمے، اونروا کی بحالی اور انسانی امداد کی فوری بحالی پر بھی زور دیا۔
آپ کا تبصرہ