بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ 'حماس' نے کَل غزہ کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تجویز کردہ منصوبے پر اپنا جواب دے دیا، جس کے حوالے سے مختلف تجزیے سامنے آئے ہیں۔
یمن کی 'انصار اللہ' نیوز ویب سائٹ نے ایک رپورٹ شائع کرتے ہوئے اس جواب کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور اسے 'دانشمندانہ' قرار دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حماس نے امریکی تجویز کو من و عن تسلیم نہیں کیا ہے۔
اس ویب سائٹ کے مطابق، حماس نے بارہا ثبوت دیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی حقیقی آواز اور ان کی دفاعی ڈھال ہے، اور اس نے جو کچھ کیا ہے وہ دور سے کیے گئے کسی بھی بیان یا رائے سے قابل قیاس نہیں ہے۔ حماس، جس نے اپنے خون سے قیمت ادا کی ہے، اس بار بھی یقیناً آخری لفظ اپنے خون سے لکھے گی۔
سوشل میڈیا کے اسرائیلی صارفین نے یہ پوسٹر شائع کرتے ہوئے یہ کہنا شروع کیا ہے
کہ ٹرمپ نے نوبل انعام کی خاطر اسرائیل کو بیچ دیا ہے
اس رپورٹ کے مطابق، حماس نے ٹرمپ کے منصوبے کو من و عن قبول نہیں کیا ہے، بلکہ اس نے بنیادی اصولوں کو قبول کیا ہے، جیسا کہ ایک یا متعدد مراحل میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا معاملہ۔
حماس نے ٹرمپ کے منصوبے کے صرف آدھے حصے سے اتفاق کیا ہے
نیا حکومتی ڈھانچہ تشکیل دینے کے معاملے میں، ٹیکنوکریٹ حکومت کا معاملہ بھی نیا نہیں ہے؛ کیونکہ حماس پہلے بھی ایسی حکومت کے قیام کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ درحقیقت، حماس نے ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے میں سے صرف 9 نکات سے اتفاق کیا ہے اور باقی تفصیلات کو بات چیت کے لئے مؤخر کر دیا ہے۔
انصار اللہ نے مزید لکھا کہ یہ نکات نئے نہیں ہیں اور اس سے پہلے بھی حماس نے ان پر اتفاق کیا تھا۔ نیز، فلسطینی مقاومت نے زور دیا کہ ان نکات پر عمل درآمد کے لئے مزید مذاکرات درکار ہیں۔ لہٰذا، مواقف ابھی تک تشکیل پا رہے ہیں اور حتمی فیصلہ کرنے کے لئے ابھی تک کوئی اقدام عمل مین نہیں لایا گیا ہے۔
دیگر تفصیلات کے حوالے سے، حماس نے براہ راست اتفاق نہیں کیا ہے، بلکہ کہا ہے کہ ان نکات پر مزید بات چیت ہونی چاہئے۔ یہ ایک سوچی سمجھی سیاسی اور سفارتی حکمت عملی ہے۔ بہر حال، حماس نے اس تجویز کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا ہے، اور اس کے کچھ نکات فلسطین کے مفاد میں ہیں، جیسے فلسطینی اسیروں کی رہائی، جبری نقل مکانی کا انسداد، تعمیر نو اور جنگ کا خاتمہ۔
ٹرمپ کا منصوبہ فلسطینی مقاومت کی شرائط پر ہی نافذ ہوگا
رپورٹ کے مطابق، ٹرمپ کے منصوبے میں کچھ خامیاں بھی ہیں جن کی وجہ سے اسے موجودہ شکل میں قبول نہیں کیا جا سکتا، جیسے کہ غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلا کی نوعیت اور "جارحانہ ہتھیاروں" کا تعین، جنہیں حماس سے اس منصوبے کے تحت حوالے کرنے کا کہا گیا ہے۔ یہ کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے حماس نے ایک دانشمندانہ اور محتاطانہ رویہ اپنایا ہے، کیونکہ وہ غیر واضح عنوانات کے تحت کسی سیاسی یا فوجی جال میں پھنسنا نہیں چاہتی۔
انصاراللہ نے اشارہ کیا کہ یمن کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے منصوبے کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ خود فلسطینی مزاحمت پر چھوڑ دیا ہے؛ اور رپورٹ دی ہے کہ "مقاومت کے حامی کے طور پر ہمارے لئے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے موقف پر بدستور قائم ہیں۔ لہٰذا، فلسطینی مقاومت جو کچھ بھی قبول کرے گی، ہم بھی اسے قبول کریں گے؛ کیونکہ سب سے زیادہ قیمت حماس نے ادا کی ہے۔"
غزاوی عوام گھٹن بھرے محاصرے، مسلسل جارحیت اور روزانہ قتل و غارت اور تباہ کاریوں کا سامنا کرتے رہے ہیں، جو کسی عام انسان کے لئے برداشت کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان حالات میں، ہم عالمی خاموشی اور عرب و اسلامی ممالک کی کوتاہی کے بھی گواہ ہیں۔ اس کے باوجود، انہوں نے صبر اور مقاومت کا سلسلہ جاری رکھا۔
آخر میں ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ حماس کامیاب رہی اور ہمیں آئندہ ہونے والی تبدیلیوں کا انتظار کرنا چاہئے۔ یقیناً جنگ کا یہ دور صرف حماس اور دیگر فلسطینی مقاومتی تحریکوں کی شرائط پر ہی ختم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ