بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || رہبر معظم کے دفتر کے میڈیا کے شعبۂ دفاع مقدس نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سابق کمانڈر انچیف میجر جنرل پاسدار محسن رضائی کے ایک بیان میں مسلح افواج اور ایرانی قوم کی کارکردگی کے تجزئے، دیگر تاریخی جنگوں سے موازنہ، اور ان واقعات کی رہنمائی میں رہبر انقلاب کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ اس انٹرویو کے کچھ حصے پچھلے دنوں شائع ہو چکے ہیں۔
میجر جنرل رضائی نے کہا: اسرائیل کے غزہ پر حملے کے بعد، ملک کے اعلیٰ کمانڈروں کے درمیان بحث چھڑ گئی کہ آیا غزہ کا واقعہ محدود رہے گا یا اس کا دائرہ لبنان اور دیگر ممالک تک پھیل جائے گا۔ ابتدا میں خیال تھا کہ یہ واقعہ گذشتہ 33 روزہ یا 22 روزہ جنگوں کی طرح ایک دو ماہ میں ختم ہو جائے گا، لیکن وقت گذرنے کے ساتھ واضح ہؤا کہ اسرائیل کا یہ اقدام اس کے گذشتہ 70 سال کے روئے سے مختلف ہے۔ جنگ کے روئے کے جائزے سے پتہ چلا کہ یہ ایک نیا طریقہ کار ہے۔
انھوں نے مزید کہا: البتہ اختلاف رائے تھا؛ کچھ لوگ اس تاثر کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ میں نے ایک خط لکھا، طوفان الاقصیٰ کے تقریباً 25 دن بعد، جب اسرائیلی ٹینک ابھی غزہ میں داخل ہو رہے تھے۔ اس خط میں میں نے لکھا کہ ایک چھوٹی سی سرزمین پر ایک بڑی جنگ شروع ہو چکی ہے اور آنے والے مہینوں میں یہ ایران کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ دشمن کا مقصد غزہ سے جبری نقل مکانی ہے، اور وہ اپنے فوجیوں کی جانوں کی بھی پروا نہیں کریں گے اور اہلیان غزہ کو پانی، خوراک اور دوائیوں سے محروم کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ یہ تحریر موجود ہے اور رہبر معظم نے نے بھی حکم دیا کہ قومی سلامتی کونسل فوری اجلاس منعقد کرے۔
میجر جنرل رضائی نے واضح کیا: البتہ اہم سوال یہ تھا کہ کیا غزہ سے شروع ہونے والی جنگ اسی علاقے تک محدود رہے گی یا اس کا دائرہ وسیع ہوگا۔ جیسے جیسے وقت گذرتا گیا، یہ واضح ہوتا گیا کہ یہ جنگ بالکل مختلف ہے۔ اطلاعات اور تجزیے مسلسل رہبر معظم تک پہنچائے جا رہے تھے۔ ان اجلاسوں میں جہاں کمانڈرز اور سرکاری عہدیداران بھی شریک تھے اور میں بھی مدعو کیا گیا تھا، وہ سیاسی، دفاعی اور سکیورٹی رپورٹس کو بہت غور سے سنتے، ان کا خلاصہ کرتے اور مسلح افواج کی تیاری کے احکامات جاری کرتے تھے۔
انھوں نے کہا: 12 روزہ جنگ سے تقریباً آٹھ سے نو ماہ پہلے، مسلح افواج نے اپنی کوششیں کئی گنا بڑھا دیں۔ مشقیں بڑھائی گئیں، دفاعی، سکیورٹی اور انٹیلی جنس تیاریاں مضبوط کی گئیں۔ پھر مذاکرات کا معاملہ سامنے آیا اور نظام نے یہ تدبیر اختیار کی کہ ہم بالواسطہ طور پر مذاکرات میں شامل ہوں۔ مذاکرات جاری رہے۔ چھٹے اجلاس میں دونوں فریقوں کے تجاویز کو میز پر لایا جانا تھا۔ ایران نے بھی اپنی تحریری تجویز تیار کر لی تھی لیکن مخالف فریق حاضر نہیں ہؤا اور بالآخر ایران پر حملہ شروع ہو گیا۔
نیتن یاہو کا منصوبہ، امریکہ کی معاونت سے، محض حکومت ختم کرنے سے بہت بڑھ کر تھا۔ مقصد قیادت اور کمانڈروں کو نشانہ بنانا، فضائی دفاع کو تباہ کرنا، اور میزائل سرنگوں اور پناہ گاہوں کو تباہ کرنا تھا، تاکہ ایک ہفتے بعد قیادت اور کمانڈر چلے جائیں، عوام غیر فعال ہو جائیں، اور منافقین سے لئے گئے عناصر تهران آ کر کام مکمل کر دیں۔ وہی مصیبت جو شام پر آئی تھی، ایران پر لائی جائے۔ وہ بمباری شروع کر دیں تاکہ نہ فوج رہے نہ سپاہ پاسداران، اور ایران کی فضائی حدود عراق اور شام کی فضائی حدود کی طرح ان کے قبضے میں چلی جائیں۔
میجر جنرل رضائی نے مزید کہا: وہ جنگ کو مختصر، تقریباً ایک ہفتے تک، جاری رہنے کی پیشین گوئی کر رہے تھے، جبکہ ہم دو ماہ کے تصادم کی توقع کر رہے تھے۔ پہلے تین دن دشمن کی برتری رہی، چوتھے سے چھٹے دن ہم توازن میں آگئے، اور ساتویں سے بارہویں دن تک مکمل برتری ہمارے ہاتھ میں آگئی۔ ویڈیوز اور رپورٹس، جن کی ایک بڑی تعداد غیر ملکی نیوز ایجنسیوں نے شائع کی، بتاتی ہیں کہ صورت حال اسرائیل کے خلاف ہوگئی۔ انہوں نے جوہری مراکز پر بمباری کی لیکن اس کی کوئی خاص اثرپذیری نہیں ہوئی؛ جبکہ ہمارے میزائل مؤثر ثابت ہوئے اور مسلسل ضربیں لگتی رہیں۔
انھوں نے کہا: گیارہویں دن امریکہ میدان میں آیا اور جوہری مراکز کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد جنگ کی صورت حال بدل گئی۔ تاہم، ہم نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ امریکیوں کے پاس مشرق وسطیٰ میں ایک بڑا کمانڈ سینٹر ہے، متعدد ہوائی جہاز اور دفاعی نظام، بشمول کچھ THAAD سسٹم جو پہلے ہی سے خطے میں تعینات تھے۔ وہ توقع کر رہے تھے کہ ہمارے کچھ اہداف کو نشانہ بنا سکیں گے، لیکن ہمارے بہت سے میزائل ان رکاوٹوں سے گذر گئے اور مغربی ایشیا میں امریکی فضائی کمانڈ کے مراکز کو نشانہ بنایا۔ بالآخر، جنگ بندی ہماری غالب پوزیشن کے موقع قبول کی گئی اور امریکی بھی پسپا ہو گئے۔
میجر جنرل رضائی نے کہا: اس موقع پر رہبر انقلاب کا کردار انتہائی اہم تھا۔ جنگ شروع ہوتے ہی انھوں نے ایک مختصر پیغام جاری کیا جس نے اس جھٹکے کو بے اثر کردیا جو دشمن ایرانی معاشرےمیں کرنا چاہتا تھا اور دشمن کو ہماری تیاری اور صلاحیت کا پیغام دیا۔ اس پیغام نے عوام کے حوصلوں اور مسلح افواج کی جنگی صلاحیت پر گہرا اثر مرتب کیا۔ اس کے فورا بعد، کمانڈروں نے ضروری اقدامات کئے اور دشمن کے حملوں کے محض 10 سے 20 گھنٹے کے اندر ہمارے میزائل استعمال ہونے لگے۔
انھوں نے کہا: ہم دو ماہ تک کی کی جنگ کے لئے تیارہو چکے تھے۔ جنگ کا انتظام انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ جو ممالک پہلے ہی دنوں میں اپنا سارا گولہ بارود استعمال کر لیتے ہیں، وہ آگے چل کر کمزور ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہماری جنگ کی حکمت عملی یہ تھی کہ بتدریج اور منظم طریقے سے زیادہ مؤثر اور کاری ضربیں لگائی جائیں۔ 12 روزہ جنگ کے آخری ایام میں، خرمشہر اور سجیل سمیت میزائلوں کی درستی قابل ذکر تھی۔ بعض میزائلوں کے وارہیڈزمیں ایسے میکانزم سے لیس تھے جن میں کئی
'بکھرنے کے قابل ذیلی گولہ بارود' (Scatterable Munitions submunitions) شامل تھے۔ یہ صلاحیتیں آخری دنوں میں استعمال ہوئیں۔ البتہ ہمارے پاس دو ماہ تک جنگ جاری رہنے کی صورت میں مزید منصوبے تیار تھے؛ دیگر محاذوں اور صلاحیتوں کو تیار کیا گیا تھا جو اگر جنگ جاری رہتی تو استعمال میں لائی جاتیں۔ لیکن بہر حال انہیں جنگ بندی کی درخواست کرنا پڑی اور جنگ بندی قبول کر لی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ