بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے 16 ستمبر 2025 کو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی موجودگی میں مشرقی یروشلم کے "سٹی آف ڈیوڈ" کے قدیم پارک میں "پرانی سرنگ کا افتتاح" کے عنوان سے منعقدہ تقریب میں ایک تند و تیز اور متنازعہ تقریر کی۔
نیتن یاہو نے سخت لہجے میں دعویٰ کیا کہ قدس 'امریکی حمایت میں' 'اسرائیل کا دارالحکومت' ہے، اسے کبھی تقسیم نہیں کیا جائے گا، اور یہ کہ "فلسطینی ریاست" نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ انہوں نے ترک صدر رجب طیب اردگان سے کہا: "جناب اردگان، یروشلم ہمارا ہے، یہ ہمیشہ ہمارا رہے گا، اور یہ کبھی تقسیم نہیں ہوگا۔"
اگلے دن اردگان نے نیتن یاہو کے ریمارکس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ "ہم قدس شریف کو پرایوں کے ہاتھوں آلودہ نہیں ہونے دیں گے۔ میں جانتا ہوں کہ ہٹلر کے پیروکاروں کے بُغض و عناد کے نشانات شاید کبھی ختم نہیں ہو سکیں، ان کو اپنا غصہ جاری رکھنے دیجئے۔ ہم مسلمان مشرقی قدس میں اپنے حقوق سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔"
الجزیرہ نے لکھا کہ اس تقریر میں نیتن یاہو نے یروشلم اور فلسطین کے حوالے سے امریکہ کی صہیونی-انجیلی بشارت کے روڈ میپ، منصوبوں اور نظریے کو واضح طور پر آشکار کر دیا اور یہ بات عیاں کر دی کہ صہیونی ریاست اور موجودہ امریکی حکومت کبھی بھی فلسطین کو تسلیم نہیں کریں گی، جس کا تعین اقوام متحدہ کی قراردادوں اور مشرقی قدس کے ساتھ دو ریاستی حل کے ذریعے کیا گیا ہے۔
کتبے کا ماجرا کیا ہے؟
الجزیرہ ویب گاہ کے مطابق نیتن یاہو نے اپنی تقریر کا آغاز ایک تاریخی داستان سے کیا اور پتھر کے ایک کتنے (یا نوشتے) کی طرف اشارہ کیا جس سے اس کے بقول، اس کا یہ دعویٰ ثابت ہوتا ہے کہ قدس شریف یہودیوں کا ہے۔
نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ یہ نوشتہ اب ترکیہ میں رکھا گیا ہے لیکن اردوان کی مخالفت کی وجہ سے وہ اسے حاصل نہیں کر سکا ہے۔ اس لمحے سے، میڈیا اور سامعین کی توجہ اس کے سیاسی بیانات کی بجائے نوشتے کے مسئلے پر زیادہ مرکوز ہوئی۔
تقریباً 2725 سال پہلے، آشوری بادشاہ سنحاریب (681-705 ق م) کے دور میں، شہر قدس کو آشوریوں نے محاصرے میں لے لیا تھا۔ لوگوں کے لئے بنیادی مسئلہ پانی تک رسائی کا تھا، چونکہ شہر کو پانی فراہم کرنے والا چشمہ، "سلوان کا چشمہ" شہر کی دیواروں کے باہر وادی قدرون (موجودہ مشرقی قدس) میں واقع تھا۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے یہودا کے بادشاہ حزقیا (697-725 ق م) نے حکم دیا کہ شہر کے اندر سے چشمے تک ایک سرنگ کھودی جائے تاکہ پانی کو براہ راست شہر تک پہنچایا جا سکے۔ سرنگ بنائی گئی تھی، اور اس کے داخلی دروازے پر چونے کے پتھر کی تختی پر عبرانی زبان میں ایک متن کندہ کیا گیا جس میں پانی کی منتقلی اور اس منصوبے کے نفاذ کا عمل بیان کیا گیا تھا۔
صدیوں گذرنے کے ساتھ، اس نوشتے کو فراموش کر دیا گیا۔ لیکن 1880ع میں، [یعنی] عثمانی سلطنت کے دور میں، سلوان چشمے کے مقام پر کھدائی کے دوران، یہ سرنگ اور نوشتہ دریافت ہؤا۔ پھر، 1882ع میں، یہ نوشتہ استنبول منتقل کیا گیا اور "ہمایوں میوزیم" ـ جسے آج "استنبول آثار قدیمہ میوزیم" کہا جاتا ہے ـ کے آثار قدیمہ کی فہرست میں درج کیا گیا۔
صہیونی ریاست کا دعویٰ ہے کہ یہ نوشتہ قدس شریف پر یہودیوں کی ملکیت کی تاریخی دستاویز ہے اور وہ اسے سرنگ کھودنے کے بارے میں تورات کی روایت کی تصدیق کے لئے سب سے ٹھوس ثبوت کے طور پر متعارف کراتی ہے۔ اسرائیلی حکام یہاں تک کہ اسے ایک قسم کی "ملکیتی دستاویز" تک بھی کہتے ہیں۔
یہودی مورخین اور سیاست دان اس تحریر کو "قدس کے مطلق یہودی شہر ہونے" کا حتمی ثبوت مانتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو اس شہر پر دعویٰ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
اسی رو سے اسرائیل نے حالیہ برسوں میں بارہا اس تاریخی یادگار کو ترکی سے واپس لینے کی کوشش کی ہے لیکن انقرہ حکومت نے ہمیشہ اسے حوالے کرنے سے انکار کیا ہے۔
اسرائیلی محرکات
'استنبول آثار قدیمہ عجائب گھر' کے ایک بیان کے مطابق چونے کے پتھر کی تختی پر عبرانی اور فونیقی [Phoenician] رسم الخط میں کندہ عبارت درج ذیل ہے:
• پہلی سطر: کھودنا، اسے کیسے کھودا گیا، بعدازاں ۔۔۔
• دوسری سطر: دونوں طرف سے کدال ایک دوسرے کی طرف آگے بڑھے، اور صرف تین ہاتھ رہ گئے کہ انہیں ایک دوسرے کی آواز سنائی دے سکے۔
• تیسری سطر: اور یہ آوازیں ایک دوسرے کو پکارنے والے مردوں کی چیخیں تھیں، کیونکہ سرنگ شمال اور جنوب سے ایک ہی مقام پر ملنے کے لئے کھل جاتی تھی، اور اس دن...
• چوتھی لائن: سرنگ کھول دی گئی اور کھودنے والے اپنے کدالوں کے ساتھ ایک دوسرے سے روبرو ہوگئے۔
پانچویں سطر: چشمے سے پانی ایک ہزار ہاتھ کے فاصلے پر تالاب تک جاری ہو گیا۔
• چھٹی سطر: مزدوروں کے سروں کے اوپر چٹان کی موٹائی سو ہاتھ تھی۔
نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ اس مخالفت کی وجہ وہ "اسلامی ردعمل" تھا جس کا اس وقت ترک حکومت کو خدشہ تھا، خاص طور پر رجب طیب اردوان کی وجہ سے، جو اس وقت استنبول کے میئر تھے۔
تاہم، اس وقت کے گواہوں نے اس بیانیے کو جھٹلایا ہے۔ ترک پارلیمنٹ کے ایک سابق رکن "فیضی ایشباشاران" 'نیتن یاہو اور ییلماز' کی ملاقات کے موقع پر موجود تھے، جنہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس طرح کی بات چیت کبھی نہیں ہوئی اور "نیتن یاہو نے یہ بیان گھڑ لیا ہے۔"
تاہم حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے سرکاری اور غیر سرکاری راستوں سے بارہا یہ اس تختی کی تحویل کی درخواست کی ہے۔ تازہ ترین واقعہ 9 مارچ 2022 کا ہے۔
اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ کے انقرہ کے دورے کے بعد، اسرائیلی میڈیا نے ایک اور 'تاریخی نمونے' کے بدلے اس نوشتے کی تحویل کے لئے تحویل کے لئے [اردوان اور ہرزوگ کے درمیان] ابتدائی معاہدے کےانعقاد کی رپورٹ دی دی۔
صہیونی ذرائع کی رپورٹ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے، انقرہ نے ـ [اردوان-ہرزوگ کے درمیان معاہدے کی طرف اشارہ کیے بغیر] ـ باضابطہ طور پر اصرار کیا کہ یہ نوشتہ مشرقی بیت المقدس میں دریافت ہؤا ہے، اور کسی صورت میں بھی "فلسطینی علاقوں میں پائے جانے والے قدیم آثار و اشیاء کو اسرائیل جیسی تیسری ریاست کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔"
الجزیرہ نے مزید لکھا کہ اس نے پتھر کی تختی دیکھنے کے لئے میوزیم سے رابطہ کیا تھا لیکن میوزیم انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اس تختی کو دیکھا جا سکتا اور اسے خصوصی تحفظ حاصل ہے۔
ترک میڈیا کے مطابق نیتن یاہو کے بیانات کے بعد ترک نیشنل انٹیلی جنس آرگنائزیشن نے اس کے تحفظ کی براہ راست ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ