بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، صہیونی ریاست کا دوحہ پر حملہ اور قطر کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی، غزہ کے رہنماؤں کے قتل کے بہانے ہوئی، حالانکہ وہ امریکہ کی دعوت پر جنگ بندی کے معاہدے پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے موجود تھے۔ ایک اعلیٰ وائٹ ہاؤس عہدیدار کے حوالے سے ایکسیوس کے اعتراف کے مطابق یہ اجلاس مکمل طور پر امریکہ کے تعاون اور علم میں ہوا۔ یہ کھلا تعاون امریکہ کی حقیقی نوعیت اور تاریخی بداعتمادی کی واضح تصویر پیش کرتا ہے اور اسلامی انقلاب کے رہبر کی امریکہ کے ناقابل اعتماد ہونے کے بارے میں بار بار کی گئی انتباہات کی ایک اور گواہی ہے۔
انقلاب اسلامی کے رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے تقریبا 7 ماہ قبل 19 فروری 2025 کو قطر کے امیر تمیم بن حمد سے ملاقات میں امریکہ کے دباؤ کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے زور دے کر فرمایا تھا: "اگر ہم قطر کی جگہ ہوتے تو امریکہ کے دباؤ کی پروا نہ کرتے اور مقابل فریق کے مطالبات واپس مسترد کر دیتے، اور ہم اب بھی قطر کی جانب سے ایسے ہی اقدام کی توقع رکھتے ہیں۔"
آپ نے یہ بھی واضح کیا کہ: "امریکہ کے صدارتی امیدواروں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔" یہ بات امریکی پالیسیوں کے سلسلے میں رہبر معظم کے گہرے تجربے اور مشاہدے کی عکاس ہے؛ ایسا تجربہ جو مختلف واقعات میں بارہا ثابت ہو چکا ہے۔
آپ نے اس سے پہلے یکم اگست 2016 میں بھی خبردار کیا تھا کہ: "امریکی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ خطے کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں، لیکن حقیقت میں، یہ مسائل خود ان کے پیدا کردہ ہیں یا انہیں پھیلانے والے امریکی ہی ہیں اور ان مسائل میں رکاوٹ بھی وہ خود ہیں۔" یہ بیان امریکہ کے متضاد اور مکارانہ رویے کی وجہ واضح کرتا ہے؛ ایک ایسا ملک جو ایک طرف سے تو امن کے وعدے دیتا ہے اور دوسری طرف صہیونی ریاست کی حمایت کرکے اور بحرانوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے عزائم کی تکمیل کے درپے رہتا ہے۔
ہماری دلیل ہمارا تجربہ
اس عدم اعتماد کی مثال ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ "ایسے حال میں کہ [ایران کے] سرکاری حکام امریکی فریق سے بالواسطہ اور ایک واسے درمیانی ثالث کے ذریعے مذاکرات میں مصروف تھے، صہیونی ریاست نے ایران پر حملہ کر دیا؛ ایران کی طرف سے کوئی ایسی علامات موجود نہیں تھی جو فوجی نقل و حرکت کی نشاندہی کرتی ہوں، اور ہمارا اندازہ تھا کہ امریکہ [صہیونیوں کی] اس حرکت میں ملوث ہے۔" (18 جون 2025)۔ یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ بظاہر تعمیری مذاکرات کے دوران بھی پیچھے سے خنجر زنی کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہے اور سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔
دوسری جانب یہ انتہائی اہم نکتہ بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ "صہیونی ریاست کے اندرونی پالیسی سازی امریکیوں کے ذمے ہے اور یہ سارے کرتوت امریکیوں کی پالیسی کا حصہ ہیں۔" (17 اکتوبر 2023)۔
پیٹھ میں خنجر
رہبر انقلاب نے امریکہ کی عیار فطرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "امریکہ کا ظاہر تو فربہ (لحیم و شحیم) ہے لیکن وہ حیلہ گری، مکاری اور پیچھے سے خنجر مارنے کا عادی ہے۔" (12 مارچ 2015)۔ یہ تجزیہ امریکی خارجہ پالیسی کی اصل حقیقت کو واضح کرتا ہے؛ ایسی پالیسی جو دھوکہ، فریب اور تسلط جمانے پر مبنی ہے۔
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ دوحہ پر صہیونی ریاست کے حملے اور اس حملے میں صہیونی ریاست کے ساتھ امریکہ کے کھلے تعاون نے ایک بار اس حقیقت کو بالکل عیاں کر دیا ہے کہ کسی بھی ملک یا کسی بھی شخص کو امریکہ پر اعتماد کیوں نہیں کرنا چاہئے!؟
نکتہ:
بے شک دوحہ پر ـ امریکی حمایت میں ـ جعلی صہیونی ریاست کا حملہ نہ صرف ایک بڑی غداری ہے، بلکہ یہ ایک جھٹکا ہے آگاہ کرنے، ہوشیار کرنے اور بیدار کرنے کے لئے، کہ مغرب اور امریکہ سے وابستہ ہوکر جینے کی سوچ غلط تھی، اور آج بھی غلط ہے کیونکہ مغرب کو مسلمانوں کا سرمایہ اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کی ضرورت ہے اور وہ مسلمانوں اور عربوں کو اپنے عزائم کے لئے استعمال کرتے ہیں؛ یہ ایک جھٹکا ہے مسلمانوں اور عربوں کے لئے، کہ وہ پائیدار سیاسی آزادی، علاقائی اتحاد اور پائیدار امن و سلامتی کے حصول کے لئے کوشش کریں، امریکی اور مغربی تسلط کا انکار کر دیں؛ یہ ایک جھٹکا ہے اس لئے کہ مسلمان اور عرب سمجھ لیں کہ صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے انہیں امن نہیں ملے گا بلکہ ان کی زدپذیری میں اضافہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ