بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ بے مطابق، صہیونی ریاست نے کل (بروز منگل مورخہ 9 ستمبر 2025ع) کو قطر کی سرزمین پر حملہ کر کے "عظیم تر اسرائیل" کے نام کے صہیونی-مغربی منصوبے کو عملی شکل دینے کی جانب پہلا عملی قدم اٹھایا۔ یہ ایسا منصوبہ ہے جو نہ صرف عرب ممالک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے، بلکہ اس نے تل ابیب اور امریکہ کے ساتھ ان کے مشترکہ معاشی منصوبوں کے مستقبل کو بھی غیر یقینی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔
قطر کے شیخ نے کچھ عرصہ قبل ایک انتہائی بیش قیمت طیارہ صدر ٹرمپ کو بطور تحفہ پیش کیا جس کو اڑتا ہؤا محل بھی کہا گیا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قطر کے دورے کے دوران، 243.5 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے معاہدے قطر کے ساتھ منعقد ہوئے تھے، جن کے بارے میں وائٹ ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق، خلیج فارس کے کنارے واقع اس چھوٹے سے ملک کے ساتھ 1.2 کھرب ڈالر کی ایک بڑی معاشی وابستگی کی راہ ہموار ہوگی۔
ہوا بازی، دفاع، ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں میں یہ تاریخی معاہدے ـ بظاہر ـ آنے والی نسلوں کے لئے جدت اور خوشحالی لانے کے لئے کئے گئے تھے۔
اس معاہدے کے ایک حصے میں، قطر اور ریاستہائے متحدہ امریکہ نے اس سال 14 مئی کو 200 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے 160 بوئنگ ہوائی جہازوں کی خریداری کے لئے ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے۔
اس معاہدے پر قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی اور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوحہ میں امیری دیوان میں دستخط کئے۔
دستخطوں کی تقریب ایک وسیع تر میٹنگ کا حصہ تھی جس میں دونوں ممالک کے درمیان ہوا بازی اور دفاع کے شعبوں میں کئی معاہدے اور مفاہمتی یادداشتیں منعقد ہوئیں۔
ٹرمپ نے معاہدے پر دستخط کے بعد اعلان کیا تھا کہ "ہم نے قطر کے ساتھ 160 بوئنگ ہوائی جہازوں کی خریداری کے لئے 200 ارب ڈالر سے زائد کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ یہ بوئنگ کمپنی کی تاریخ میں سب سے بڑا آرڈر ہے۔"
تاہم، صہیونی ریاست نے اپنے مفادات آگے بڑھانے کے لئے آج شام کو غزہ کی حکمران جماعت حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے مقصد سے قطر ـ جو مغربی ایشیا میں امریکہ کا قریبی اتحادی ہے ـ کی سرزمین پر حملہ کیا۔
برسوں سے، قطر کے حکام نے اپنی خارجہ پالیسی امریکہ کے ساتھ خاص تعلقات کی بنیاد پر ترتیب دی ہے۔ قطر میں العدید فوجی-ہوائی اڈے کی موجودگی، جو خطے میں امریکی فوجی کاروائیوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے، ہمیشہ سے دوحہ کے لئے ایک "حفاظتی چھتری" کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ لیکن اسرائیل کے کل کے حملے نے اس تصور کو شدید طور پر چیلنج کر دیا ہے۔
بہت سے علاقائی مبصرین پوچھتے ہیں: اگر واشنگٹن سے اتنے گہرے تعلقات رکھنے والا ملک بھی امریکی اتحادی اسرائیل کے حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا تو دوسرے لوگ کیا توقع کر سکتے ہیں؟
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس واقعے سے امریکی اتحادیوں میں نئی دراڑیں پڑ جائیں گی۔ عرب ممالک، جو حالیہ برسوں میں تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف بڑھے ہیں، اب اس شراکت داری کو "ممکنہ سکیورٹی گارنٹی" کے بجائے "یقینی خطرہ" کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ساتھ ہی، اس حملے کو روکنے یا اس کا فیصلہ کن جواب دینے میں بھی امریکہ کی ناکامی، اسرائیل کے رویے کو کنٹرول کرنے کی واشنگٹن کی صلاحیت کی اصل حدود کو عیاں کر دیتی ہے۔
قطر پر کل کے حملے نے نہ صرف دوحہ کے آسمان کو تاریک کردیا بلکہ خطے کی سلامتی اور سیاسی ماحول کو بھی تاریک کردیا۔ اس نے واضح پیغام دیا کہ محض امریکہ پر انحصار عرب ممالک کی سلامتی اور معیشت کی ضمانت نہیں دے گا؛ کیونکہ یہ انہیں کسی نازک لمحے میں تنہا اور بے دفاع بھی چھوڑ سکتا ہے۔
نکتہ:
یاد رہے کہ ٹرمپ نے غزہ جنگ کے خاتمے کے لئے (بظاہر) ایک منصوبہ پیش کیا تھا، اور جس طرح کہ ایران کے ساتھ مذاکرات میں ٹرمپ کے ایلچی وٹکاف کو شرکت کرنا تھی، اس مرتبہ بھی حماس کے اعلی راہنماؤں کے ساتھ مذاکرات میں بھی اسی امریکی یہودی کو شرکت کرنا تھی، لیکن جب امریکہ کے ذرائع نے کانفرنس ہال میں حماس کے راہنماؤں کی موجودگی کی تصدیق کی، تو اسرائیلی طیاروں نے اس مقام کو بھی اور راہنماؤں کی رہائشگاہوں کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا؛ جس طرح کہ امریکہ نے مذاکرات کے سائے میں اسرائیل اور امریکہ نے ایران پر حملہ کیا، جس سے معلوم ہؤا کہ "امریکہ کے اعلان کردہ مذاکرات موت کا جال ہیں"۔ یعنی یہ کہ امریکہ اور اس کے ساتھیوں کے بنائے ہوئے بین الاقوامی قوانین کو خود امریکہ نے مکمل طور پر ناقابل عمل بنایا ہے؛ اور یہ ایک ضرورت ہے کہ دنیا کا نیا نظام سامنے لایا جائے جس میں امریکی کی چودھراہٹ کے لئے کوئی جگہ نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ