بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || بی بی سی فارسی سروس کے اینکر کسریٰ ناجی کہتے ہیں: ہم بیرون ملک رہ رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل ہی نہیں بلکہ یہودیوں کا چہرہ ہر روز پہلے سے زیادہ بگڑ رہا ہے۔ مغربی ممالک کی بے عملی اور غزہ میں انسانی المیے پر ان کی خاموشی پر تاریخ فیصلہ دے گی۔
ویڈیو کی تفصیل:
اینکر: دلچسپ امر یہ ہے کہ جناب نیتن یاہو نہ صرف اس صورت حال، اس انسانی المیے، اس اجتماعی فاقہ کشی اور اس خونریزی اور وسیع پیمان پر قتل عام کا انکار کرتے ہیں بلکہ دنیا میں اسرائیل کی پوزیشن کو [بھی] نہیں دیکھ رہے ہیں؛ لگتا ہے کہ ہم جو بیرونی دنیا میں ہیں، اس مسئلے کو آسانی سے دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کی ساکھ کس قدر دنیا میں ہر روز گر رہی ہے؛ اور اسی اثناء میں یہودیوں کی ساکھ بھی ہر جگہ گر رہی ہے۔
تجزیہ کار: ایسا ہی ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ گذشتہ دو برسوں کے دوران، نیتن یاہو کی حکومت وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا مہم پر بڑی رقوم خرچ کر رہی ہے؛ اور بدستور یہ اخراجات برداشت کرنے پر آمادہ ہے۔ اسرائیل حکومتوں کے اقدامات ہمیشہ ہمیشہ بہت مہنگے پڑے ہیں۔ نیتن یاہو بدستور یہ اخراجات برداشت کرنے پر بضد ہیں۔
جس چیز کو ہم بین الاقوامی دباؤ کا نام دے رہے ہیں، یہ یقینا مؤثر نہیں ہے۔ موجودہ عالمی نظام کے انتظامات نیتن یاہو کی جنگی مشین کی راہ میں حائل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اگرچہ اسرائیل کے اندر ایسی قوتیں ہیں جن سے امید رکھی جا سکتی ہے؛ اور اب جب ہم سن رہے ہیں کہ نیتن یاہو کی جنگی کابینہ نے غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ منظور کر لیا ہے جس کے بعد اسرائیل کی حکومت اور فوج میں مخالفت کی صدائیں اٹھی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک خطرناک اقدام ہے جس کی قیمت پورے اسرائیل کو چکانا ہوگی۔
اینکر: مغربی ممالک کی رائے آہستہ آہستہ بدل رہی ہے۔ وہ طویل عرصے سے کچھ نہیں کہہ رہے تھے، اور غزہ میں اس قتل عام اور اس انسانی المیے کے تماشائی بنے ہوئے تھے۔ لیکن گذشتہ ایک مہینے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ ورق پلٹ رہا ہے۔ لیکن نکتہ یہ ہے کہ تاریخ ان ممالک کے بارے میں بھی فیصلہ دے گی اس لئے انہوں نے اس المیے کے سلسلے میں بےحسی اور بے عملی دکھائی جو ان کی آنکھوں کے سامنے رو نما ہو رہا تھا۔
تجزیہ کار: اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان ممالک کے اندر بھی شاید تنقید بھری صدائیں سنائی دے رہی ہوں، کینیڈا میں، مغربی علاقے میں جہاں آپ رہتے ہیں، ایسا ہفتہ نہیں گذرتا کہ عوام اور سوشل سوسائٹی سے وابستہ لوگ احتجاج نہ کرتے ہوں۔ ان ممالک کے حکمرانوں کے لئے یہ احتجاجات مہنگے پڑتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ