26 جولائی 2025 - 23:10
غزہ کی تباہ حالی ہیروشیما سے بڑھ کر ہے، اسرائیلی اخبار

ایک اسرائیلی اخبار نے ایک چونکا دینے والی رپورٹ میں، شہادتوں، سیٹلائٹ تصاویر اور اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ آج کا غزہ ایٹمی بمباری کے بعد کے ہیروشیما اور ناگاساکی سے زیادہ تباہ حال ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، اسرائیلی مصنف اور تجزیہ کار "نیر حسون" نے عبرانی اخبار "ہاآرتص" میں لکھا: "پچھلے ہفتے کے آخر سے اب تک غزہ پٹی میں بھوک کی شدت میں نمایاں اضافہ ہؤا ہے۔ ہسپتال، انسانی امدادی ادارے، صحافی اور یہاں تک کہ مقامی رہائشی بھی خوراک کی شدید قلت کی اطلاع دے رہے ہیں، جو گذشتہ مہینوں کی صورت حال سے کہیں بدتر ہے۔

غزہ میں بھوک اعداد و شمار سے آگے نکل چکی ہے

صرف منگل کے روز، غزہ کی وزارت صحت نے بتایا کہ 24 گھنٹوں میں 15 افراد بھوک اور غذائی قلت کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے ہیں، جن میں 4 بچے بھی شامل ہیں۔ جنگ کے آغاز سے اب تک 111 افراد بھوک کی وجہ سے جان بحق ہو چکے ہیں، جن میں 80 بچے شامل تھے۔ حالیہ ایام میں درجنوں دیگر اموات بھی ریکارڈ کی گئی ہیں۔

حسون نے مزید کہا: "لیکن غزہ میں بھوک صرف اعداد و شمار میں نظر نہیں آتی، بلکہ تصاویر، ویڈیوز اور دردناک کہانیوں میں دکھائی دیتی ہے: کمزور، نڈھال اور لاغر بچے جن کے پیٹ پھولے ہوئے ہیں، ایک بوڑھا آدمی جو انجیر کے پتے کھا رہا ہے، اور مائیں جو اپنے شیرخواروں کو دودھ پلانے سے قاصر ہیں۔"

اس مصنف نے القدس نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے التفاح محلے کی ایک خاتون "سلویٰ" کے حوالے سے لکھا: "میں دو دن سے کچھ نہیں کھا سکی۔ میرا جسم اب دودھ پیدا نہیں کرتا اور میرا بچہ اتنا روتا ہے کہ تھک کر سو جاتا ہے۔ ہم اسے چاول کا پانی پلاتے ہیں، لیکن اس کا ذائقہ اتنا بےمزہ ہوتا ہے کہ وہ خود حقیقت کو سمجھ جاتا ہے۔"

غزہ کی تباہ حالی ہیروشیما سے بڑھ کر ہے، اسرائیلی اخبار

رفح راکھ کا ڈھیر بن چکا ہے

انھوں نے لکھا کہ اکتوبر 2023 میں لی گئی سیٹلائٹ تصاویر دکھاتی ہیں کہ رفح شہر ایک متحرک شہر تھا جوعمارتوں، مساجد، کھیتوں، سڑکوں، عوامی چوکوں اور شمسی پینلوں سے بھرا ہؤا تھا۔ لیکن گذشتہ ماہ لی گئی نئی تصاویر کے مقابلے میں، جو کبھی "رفح شہر" کہلاتا تھا وہ اب ایک سرمئی اور دو جہتی سطح میں تبدیل ہو چکا ہے جسے ملبے نے ڈھانپ لیا ہے؛ جہاں زیادہ تر عمارتیں تباہ اور زمین بوس ہو چکی ہیں، سڑکیں صاف کر دی گئی ہیں اور کھیت اور باغات غائب ہو چکے ہیں، گویا کبھی تھے ہی نہیں۔

اس رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ رفح اور جبالیا کیمپ میں تباہی کی سطح اس سے بھی زیادہ ہے جو دنیا نے ہیروشیما اور ناگاساکی میں امریکی ایٹمی بمباری کے بعد، یا موصل، سراجیو اور کابل جیسے شہروں میں دیکھی تھی۔

مصنف نے رپورٹ میں جنگ سے پہلے متاثرہ علاقوں کی آبادی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا:

•  رفح: دو لاکھ 75 ہزار افراد

•  جبالیا: 56 ہزار افراد

•  بیت لاہیا: ایک لاکھ آٹھ ہزار افراد

•  بیت حانون: 62 ہزار افراد

•  عبسان کبیرہ (خان یونس): 30 ہزار افراد

•  بنی سہیلا: 46 ہزار افراد

لیکن اب اس آبادی کو یا تو زبردستی سے بے گھر کر دیا گیا یا وہ اجتماعی قتل کا شکار ہو چکی ہے، اور یہ شہر اب ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے ہیں؛ حتیٰ کہ غزہ اور خان یونس کے کچھ محلے، جیسے الشجاعیہ محلہ، مکمل طور پر نقشے سے مٹ چکے ہیں۔

غزہ کی تعمیر نو میں دو دہائیاں لگیں گی

ہاآرتص نے لکھا ہے کہ اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، غزہ پٹی کی تقریباً ایک تہائی عمارتیں، یعنی کل دو لاکھ 50 ہزار عمارتوں میں سے ایک لاکھ 74 ہزار کے قریب، یا تو متاثر ہوئی ہیں یا مکمل تباہ ہو چکی ہیں۔

ان عمارتوں میں سے:

•  90 ہزار یونٹس مکمل یا تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں

•  52 ہزار یونٹس درمیانے درجے کی تباہی کا شکار ہیں

•  33 ہزار عمارتوں کی حالت پیچیدہ حالات کی وجہ سے ابھی تک درست طور پر جانچی نہیں جا سکی

غزہ کی تعمیر نو پر 20 سال کا عرصہ لگے گا

رپورٹ کے مطابق، رہائشی عمارتوں کے علاوہ، اسرائیلی قبابض فوج نے سینکڑوں ہسپتالوں، فیکٹریوں، مساجد، گرجا گھروں، بازاروں اور تجارتی مراکز کو تباہ کیا ہے اور 2,300 تعلیمی مراکز کو نشانہ بنایا ہے جن میں سے 564 موجودہ اسکولوں میں سے 501 اسکول مکمل تباہ ہو چکے ہیں۔

اسی طرح غزہ بھر میں 81 فیصد مواصلاتی راستے تباہ ہو چکے ہیں، اور بنیادی ڈھانچے کا بڑا حصہ جیسے بجلی کے نیٹ ورک، پانی، نکاسی آب، زراعت اور مویشیاں مکمل طور پر برباد ہو چکی ہیں۔

•  اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق:

•  انڈے دینے والی مرغیوں کی تعداد میں 99 فیصد کمی

•  مویشیوں کی تعداد میں 94 فیصد کمی

•  مچھلی کے شکار کی سطح میں 93 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ بھر میں کم از کم 50 ملین ٹن ملبہ موجود ہے جس کی مکمل صفائی میں 20 سال سے زائد کا وقت لگ سکتا ہے۔

خیمہ بستیاں

ہاآرتص نے لکھا ہے کہ غزہ پٹی میں تباہی کی شرح اتنی وسیع اور منظم اور ارادای ہے کہ مستقبل قریب میں زندگی کے معمول پر آنے کے امکانات انتہائی کم نظر آتے ہیں۔ اس صورتحال میں، دس لاکھ سے زائد بے گھر افراد "خیمہ بستیوں" میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں جو ساحلی علاقے المواصی اور غزہ شہر کے مغربی حصے میں قائم کیے گئے ہیں۔ یہ خیمے فٹ پاتھوں پر، کوڑے دانوں کے پاس اور ملبے کے اوپر نصب کئے گئے ہیں، جبکہ وہاں پانی، بجلی یا نکاسی آب کا کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے، اور بھوک اور مچھر ہر طرف قابض ہیں۔

اس رپورٹ میں یہ بھی زور دیا گیا ہے کہ نئے چیف آف اسٹاف "ایال زمیر" کے دور میں گھروں کی تباہی ایک کھلم کھلا وسیع البنیاد پالیسی بن چکی ہے۔ اسرائیلی فوج اب گھروں اور عمارتوں کی تباہی کا کام نجی ٹھیکیداروں سے لے رہی ہے اور انہیں مسمار شدہ عمارتوں کی تعداد کے حساب سے اجرت ادا کرتی ہے۔

وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ، گھروں کی تباہی اسرائیلی کابینہ کے منصوبے کے تحت غزہ کے باشندوں کو جبری طور پر بے گھر کرنے کی ایک سرکاری حکمت عملی بن چکی ہے - اس منطق کے ساتھ کہ لوگوں کے پاس واپس آنے کے لئے گھر نہیں رہیں گے۔

اس تناظر میں، رفح شہر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے تاکہ اسرائیلی فوج کے دعوے کے مطابق "موراگ کوریڈور" نامی راستہ بنایا جا سکے۔ اسی دوران، اسرائیلی فوج نے تباہی اور بربادی کا دائرہ شمال اور خان یونس شہر کی طرف بھی پھیلا دیا ہے۔

نکتہ:

غزہ میں یہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں ہو رہا ہے، بالکل اطمینان اور سکون سے، نہ تو انہیں مغربی ممالک کی طرف سے مخالفت کا کوئی خدشہ ہے اور نہ ہی اسلامی اور عرب ممالک کی طرف سے کوئی خوف؛ انہوں نے عربوں بی بے حمیتی اور مسلمانوں کی بے غیرتی پر کھاتہ کھولا ہؤا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha