بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، مصطفیٰ(ص) فاؤنڈیشن کے ہیڈکوارٹر میں مصطفیٰ(ص) ٹیکنالوجی انعام کے سائنسی ورک گروپ کے سربراہ، ڈاکٹر علی اکبری صالحی، مصطفیٰ(ص) سائنس و ٹیکنالوجی فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر، مہدی صفاری نیا اور ورکنگ گروپ کے ارکان کی موجودگی میں چھٹے مصطفیٰ انعام کے فاتحین کا اعلان کیا گیا۔
علی اکبر صالحی نے تقریب کے آغاز میں انعام کے بارے میں مختصراً بتایا:
صالحی نے کہا: "یہ انعام 2012 کے اعلی ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے فیصلے کے بعد سے شروع ہؤا جب اس کونسل نے اس کے منشور کو منظور کر لیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ سرکاری وسائل استعمال نہیں کئے جائیں گے۔ انعام کے نام کو دیکھتے ہوئے بہتر ہے کہ اس کے اخراجات حضرت مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے پیروکار ادا کریں۔"
انھوں نے بتایا کہ اب تک انعام کے 5 ادوار ہو چکے ہیں اور 19 افراد انعام حاصل کر چکے ہیں، جن میں پاکستان اور اردن جیسے ممالک کے سائنسدان شامل ہیں۔ کچھ فاتحین مسلم ممالک میں رہائش پذیر ہیں اور کچھ غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمان سائنسدان ہیں۔
انھوں نے کہا: "اس سال انعام کا انعام گذشتہ برسوں سے، اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس دور میں 'نوجوان سائنسدان' کا انعام شامل کیا گیا ہے۔ گذشتہ سال کے دو فاتحین نے اپنا انعام نوجوان سائنسدانوں کے لیے وقف کیا ہے۔ اس انعام کی رقم بنیادی انعام سے کم ہے، جو ایک کے لئے 10,000 ڈالر ہے۔"
انھوں نے کہا کہ جن کامیابیوں پر مصطفیٰ(ص) ٹیکنالوجی انعام دیا جاتا ہے، وہ انسانی زندگی کے معیار پر اہم اثر رکھتی ہیں۔ ہم نے سائنسدانوں کے باہمی تعاون اور سائنس کی سرحدوں کو وسعت دینے کے لئے ایک موثر پلیٹ فارم قائم کیا ہے۔
صالحی نے کہا کہ انعام کے اخراجات مخیر حضرات اور بڑی کمپنیوں سے آتے ہیں۔ بورڈ آف ڈائریکٹر اس کا انتظآم چلاتا ہے، دیگر اسلامی ممالک کے دارالحکومتوں میں بھی یہ یہ تقریب منعقد کی جا سکتی ہے، اور ہم دوسرے ممالک میں بھی اس کے انعقاد کی کوشش کوشش کر رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس بار دو گروپوں بنیادی سائنس اور انجینئرنگ، نیز بائیو ٹیکنالوجی، میڈیکل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سائنسدانوں کی ابتدائی چھان بین کی گئی۔
تین فاتحین میں 10 لاکھ ڈالر تقسیم ہونگے
صالحی نے کہا کہ پہلے گروپ میں 1,688 مقیم اور 2,458 غیر مقیم سائنسدانوں کا جبکہ دوسرے گروپ میں 290 مقیم اور 880 غیر مقیم سائنسدانوں کا جائزہ لیا گیا۔ آخر کار تین فاتحین کا انتخاب کیا گیا، جن میں 10 لاکھ ڈالر تقسیم کئے جائیں گے۔
فاتحین:
1۔ پروفیسر محمت تونر؛ 1958 میں ترکی کے شہر استنبول میں پیدا ہوئے ہیں اور انہیں بائیو ٹیکنالوجی، میڈیکل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ممتاز سائنسدان قرار دیا گیا۔ ان کی حصولیابیاں درج ذیل ہیں:
نینو اور مائکرو فلویڈک سسٹمز کی کلینیکی ایپلی کیشنز، نایاب خلیوں کی علیحدگی اور کرائیوبائیولوجی ٹیکنالوجی، ٹیومر خلیوں کی علیحدگی کے چپس اور بیماریوں کی فوری تشخیص کی ٹیکنالوجی۔
ان کی کامیابیوں نے انسانی صحت اور بیماریوں کی تشخیص کے طریقوں کو بہتر بنایا ہے۔
2۔ وہاب میر رکنی ایرانی نژاد فاتح ہیں جو 1977 میں پیدا ہوئے۔ انہیں انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی ممتاز گردانا گیا۔ ان کی حصولیابیاں درج ذیل ہیں:
الگورتھم، مارکیٹ آپٹیمائزیشن، بڑے گراف کی دریافت اور وسیع پیمانے پر آپٹیمائزیشن کے شعبوں میں تحقیقی قیادت۔
ڈاکٹر صالحی کہتے ہیں کہ ڈاکٹر میر رکنی نے مصنوعی ذہانت کے چار ستونوں میں سے ایک "الگورتھم" کے میدان میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
3۔ پروفیسر محمد خواجہ نذیر الدین، بنیادی سائنس اور انجینئرنگ کے شعبوں میں ممتاز گردانے گئے۔ وہ ہندوستانی مسلمان ہیں۔ ان کی حصولیابیاں درج ذیل ہیں:
پیرووسکائٹس سولر سیلز، لائٹ ایسٹنگ ڈائیوڈز (LEDs) اور صاف توانائی کی ٹیکنالوجیز پر تحقیق۔
ان کی کامیابیوں نے پائیدار توانائی کی ٹیکنالوجی کی ترقی میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔
ڈاکٹر علی اکبر صالحی نے بتایا: اگلے ہفتے تین نوجوان سائنسدانوں کو بھی انعام دیا جائے گا، جو ایران، ترکی اور ملائیشیا میں مقیم ہیں۔
مصطفیٰ(ص) انعام ہفتہ 6 ستمبر سے شروع ہوگا اور 8 ستمبر کو تہران کے وحدت ہال میں سینکڑوں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شائقین اور چھٹے مصطفیٰ(ص) انعام کے فاتحین جمع ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ