29 جون 2025 - 22:34
اگر دنیا میں عدل و انصاف ہوتا تو امریکی بی-2 طیارے ڈیمونا میں صہیونی ایٹمی تنصیبات پر بم برساتے، ترکی الفیصل

سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ ترکی الفیصل نے اپنے ایک مضمون میں اس بات پر زور دیا کہ صہیونی ریاست کے پاس جوہری بموں کا ہونا جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کے خلاف ہے / ایران پر امریکی حملہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے دھوکے کا نتیجہ ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، الفیصل نے اماراتی اخبار "دی نیشنل" کے ایک نوٹ میں لکھا: اگر دنیا میں انصاف اور انصاف کا بول بالا ہوتا تو ہمیں امریکی B2 بمباروں کو دیمونا اور دیگر اسرائیلی مقامات پر برستے دیکھنا چاہئے تھا، کیونکہ اسرائیل کے پاس جوہری بم ہیں اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے خلاف ہیں۔

ان کا کہنا تھا: علاوہ ازیں اسرائیلی (ریاست) اس معاہدے میں شامل نہیں ہوئی ہے اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی نگرانی سے باہر ہے اور کسی نے بھی اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ نہیں کیا ہے۔

ترکی الفیصل نے مزید کہا: جو لوگ اسرائیل کی تباہی کا مطالبہ کرنے والے ایرانی رہنماؤں کے بیانات کا حوالہ دے کر ایران پر اسرائیل کے یکطرفہ حملے کا جواز پیش کرتے ہیں، وہ بنیامین نیتن یاہو کے بیانات کو نظر انداز کر رہے ہیں، جنہوں نے 1996 میں وزیر اعظم بننے کے فورا بعد ایرانی حکومت کی تباہی کا مطالبہ کیا تھا۔

سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ نے کہا: ایران پر اسرائیلی حملے کے لئے مغرب کی منافقانہ حمایت کی توقع کی جا سکتی تھی، کیونکہ فلسطین پر اسرائیلی حملے میں بھی ان کی طرف سے اسرائیل کی حمایت جاری ہے، حالانکہ حال ہی میں کچھ ممالک نے ماضی کے مقابلے میں کم حمایت کی ہے۔

انھوں نے مزید کہا: روس کے یوکرین پر حملے پر مغربی پابندیاں اس کے بالکل برعکس ہیں اور اسرائیل کو حملوں کی کھلی اجازت دی گئی ہے۔ بین الاقوامی قوانین پر مبنی ںظام ـ جس کو مغرب نے طویل عرصے سے فروغ دیا اور اس کی پابندی کرنے اور کرانے کے نعرے لگاتے رہے ـ وہ آج منہدم ہو رہا ہے۔ ہم عرب دنیا میں اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ ان تنازعات میں ہمارا اصولی موقف اس بات کی روشن مثال ہے کہ ممالک، رہنماؤں اور اقوام کو کیا کرنا چاہئے۔

ترکی الفیصل نے کہا: جو کچھ مغربی لیڈروں کے بارے میں تکلیف دہ اور پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے عقائد کے بارے میں کھوکھلے نعرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خوش قسمتی سے، خاص طور پر اسرائیلی قبضے سے آزادی کے لئے فلسطینی عوام کی جدوجہد کے حوالے سے، مغرب میں عام مردوں اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے رہنماؤں کے جھوٹے مؤقف کو مسترد کر دیا ہے۔

سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ نے مزید کہا: تمام مذاہب، رنگ و نسل اور ہر عمر کے لوگ فلسطین کی آزادی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی لئے ان کے لیڈروں کے موقف میں بڑھتی ہوئی تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔

انھوں نے کہا: جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کی شام امریکی فوج کو ایران میں تین جوہری مقامات پر بمباری کرنے کے لئے ہری بتی دکھائی تو تو یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ نیتن یاہو کے فریب پر یقین رکھتے ہیں اور ایران پر غیر قانونی حملے میں اپنی کامیابی کو کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔

ترکی الفیصل کا کہنا تھا: جب دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ قبل اس وقت کے صدر کی قیادت میں امریکہ نے عراق اور افغانستان پر حملہ کیا تو ٹرمپ نے ان حملوں کی مخالفت کی تھی۔ یاد رکھیں کہ ان دونوں ممالک پر امریکی حملے امریکہ کے لئے غیر متوقعہ [منفی] نتائج کا باعث ہوئے تھے اور ایران پر حملے کے نتائج بھی یقینا غیر متوقعہ ہونگے۔

انھوں نے مزید کہا: ہم اب بھی سفارت کاری کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ دیگر مغربی رہنماؤں کے برعکس، امریکی صدر کو دوہرے معیارں کا تابع نہیں ہونا چاہئے۔ ٹرمپ کو سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل میں اپنے دوستوں کی بات پر توجہ دینی چاہیے جو نیتن یاہو کے برعکس، امن کے خواہاں ہیں اور جنگ کے خواہاں نہیں ہیں۔

سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ نے کہا: تاہم، میں دوہرے معیارات، ـ نیتن یاہو کی نسل کشی، فلسطینی رہنماؤں کے باہمی خطرناک تنازعات، یورپ کی بزدلی، ایران کے ساتھ جنگ ​​کے دوران مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کے ٹرمپ کے وعدے اور ایران پر حملہ کرنے کے بعد اس ملک کے جنگ بندی سے اتفاق پر اس ملک کو ایران کو مبارکباد دینے جیسے مسائل پر ـ کچھ نہیں کر سکتا، جو کچھ میں کرسکتا ہوں اور کروں گا وہ یہ ہے کہ اپنے والد (شاہ فیصل) کے فیصلے کی پیروی کروں۔

ترکی الفیصل نے مزید کہا: میرے والد اس وقت بہت ناراض ہوئے جب اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے اپنے سے قبل کے صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کے وعدوں سے خیانت اور غداری کی اور اسرائیل بنانے میں مدد کی۔ میرے والد نے ٹرومین کی مدت صدارتی کے اختتام تک امریکہ کا دورہ کرنے سے انکار کردیا، اور میں بھی اس وقت تک امریکہ کا دورہ نہیں کروں گا جب تک کہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں رہیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha