اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، بچیوں کا سن بلوغ کا جشن، سینيگال کی مجلس علمائے اہل بیت(ع) سے وابستہ حضرت فاطمہ زہرا(س) خواتین اسمبلی کے زیر اہتمام منایا گیا۔
آیت اللہ رضا رمضانی ـ جو کہ سینیگال کے دینی راہنماؤں کی دعوت پر اس ملک کے دورے پر ہیں ـ اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔
سن بلوغ اور شرعی احکام کا وجوب، دینی اور سماجی ذمہ داریوں کا آغاز
تقریب کے آغاز میں سینیگال کی مجلس علمائے اہل بیت(ع) کے سیکریٹری شیخ محمد نیانگ نے کہا: چونکہ انسان روئے زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے اسی بنا پر خدا کی طرف سے اس پر کچھ ذمہ داریوں اور فرائض عائد ہیں۔ درست ہے کہ یہ الہی فرائض شرعی مسئلہ ہے لیکن اس سے بڑھ کر یہ عقلی عمل ہے اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے، چنانچہ جہال کی یہ بات غلط ہے کہ دینی فرائض انسان کی آزادی چھیننے کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمر کا یہ مرحلہ زندگی کا نیا مرحلہ ہے، اور ہماری پیاری بچیاں جو کہ شرعی بلوغ کی عمر میں داخل ہوئی ہیں، اس مرحلے میں خاص حالات کا سامنا کرتی ہیں، چنانچہ ماؤں کو اس عمر میں ان کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے اور انہیں ناپسندیدہ دوستوں اور سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے خطروں سے آگاہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ نیٹ ورکس دشمن کے ففتھ کالم کا کردار ادا کرتے ہیں اور ہر گھر میں اجازت لے کر یا اجازت لئے بغیر، داخل ہوجاتے ہیں۔
حجاب کا فلسفہ؛ خواتین کے وقار کا تحفظ
مجلس علمائے اہل بیت کے سربراہ رکن شیخ عبدالمنعم الزین نے خطاب کرتے ہوئے اسلامی حجاب کی اہمیت پر زور دیا اور کہا: میں اپنی پیاری بیٹیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک مبارک دن ہے، لیکن میں دین کے ایک حساس مسئلے یعنی حجاب کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ مغرب کا دعوی ہے کہ ہم مسلمان خواتین سے حجاب کی رعایت کرنے کا کہہ کر ان پر ظلم کرتے ہیں لیکن یہ ایک بڑا جھوٹ ہے۔ حجاب کا فلسفہ خواتین سے دشمنی یا ان کے ارتقاء اور شخصیت کمزور کرنے کے لئے نہیں بلکہ یہ معاشرے میں شر اور برائی کا سد باب کرنے کی ایک اسلامی پالیسی ہے۔
انھوں نے کہا: حجاب کے بے شمار ثمرات و نتائج ہیں، جن کے بارے میں اس مختصر وقت میں زیادہ بات نہیں ہو سکتی چنانچہ میں حیا کے بارے میں بات کروں گا جو کہ حجاب کے ثمرات میں سے ایک ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ارشاد فرمایا ہے کہ حیا ایمان ہے۔ اس دنیا میں تھیں ایسی خواتین جو حیا کے لحاظ سے نمونۂ کاملہ تھیں، جن میں [زوجۂ فرعون] آسیہ بنت مزاحم، سیدہ مریم بنت عمران، سیدہ خدیجہ بنت خویلد اور سیدہ فاطمہ بن محمد (سلام اللہ علیہن) جیسی بیبیاں شامل ہیں۔ سیدہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) ایسے کمالات اور خصوصیات کی مالکہ تھیں جنہیں شمار میں نہیں لایا جا سکتا ہے اور آپ(س) حیا کے حوالے سے اعلی ترین اسوہ اور نمونہ ہیں۔
انھوں نے شرعی بلوغ کی عمر میں پہنچنے والی سینیگالی بچیوں کی راہنمائی کرتے ہوئے انہیں سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کی پیروی کرنے کی تلقین کی اور کہا: دشمن کی سرزمیں میں رائج برائیوں سے نمونہ حاصل کرنے کے بجائے، سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کو اپنے لئے نمونۂ عمل قرار دیں۔ یہ کرامت اور وقار ـ یعنی حجاب ـ آپ کو اسلام کی طرف سے عطا ہؤا ہے تاکہ آپ عزت و عظمت محسوس کریں۔ ایک مغربی نامہ نگار نے ایک نو مسلم فرانسیسی خاتون سے پوچھا: "آپ نے خود کو حجاب میں کیوں قید کر لیا ہے؟"، تو انھوں نے جواب دیا: "میں نے اپنی آزادی اسی وقت حاصل کر لی جب میں نے حجاب اختیار کیا"۔
اللہ کی نعمتوں پر زبان، دل اور عمل سے شکر ادا کرنا
مہمان خصوصی، عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے سیکریٹری جنرل آیت اللہ رمضانی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سینیگالی بچیوں کو شرعی بلوغ کے مرحلے میں پہنچنے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: "اگر آپ خود کو اور اپنے ملک کو ترقی دینا چاہتے ہیں، تو دو کام ضروری ہیں: پہلا، اپنے ایمان میں اضافہ کریں اور اور دوسرا، اپنے علم و دانش کو بڑھائیں۔ ایمان بڑھانے کے لیے ہمیں شکرگزار ہونا چاہئے۔ جب کوئی آپ کو ایک پھول دیتا ہے، تو آپ اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ تو کیا آپ کو اس ذات کا شکر نہیں ادا کرنا چاہئے جس نے آپ کو پیدا کیا؟ البتہ، ہم خدائے تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں، اس کی نعمتوں کی شکرگزاری کا حق ادا نہیں کر سکتے۔"
انھوں نے خدائے متعال کی نعمتیں گننے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: "امام حسین (علیہ السلام) کبھی اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ سے التجا کرتے تھے: 'اے میرے رب! تو نے مجھے سب کچھ عطا کیا۔ میرے والدین مجھ سے محبت کرتے ہیں، اور یہ محبت تو نے ان کے دلوں میں ڈال دی ہے۔ اگر میں ساری عمر صرف تیری ایک نعمت کا شکر ادا کرنے میں لگا رہوں، تب بھی تیرے شکر کا حق ادا نہیں کر سکتا'۔"
انھوں نے مزید کہا: "جب ہم کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہئے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نعمت ـ جیسے زبان، آنکھ یا ہاتھ ـ کو اس کے صحیح مقام پر استعمال کریں۔ اگر آنکھ نے گناہ کیا یا کان نے بری باتیں سنیں، تو یہ اللہ کی نعمت کی ناشکری اور اللہ کے ساتھ ناسپاسی ہے۔ لیکن اگر ہم ہر نعمت کو اس کے صحیح مقام پر استعمال کریں، تو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اللہ کی نعمتوں کا شکر گزار ہے۔"
ایت اللہ رمضانی نے شکرگزاری کی مخۃلف قسموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: شکرگزاری کی تین قسمیں ہیں: پہلی شکرگزاری قلبی ہے، یوں کہ ہمارا دل خدا کی طرف متوجہ ہو؛ دوسری قسم کی شکرگزاری زبانی ہے، یوں کہ زبان سے اللہ کا شکر کریں۔ اور شکرگزاری کی تیسری قسم عملی ہے؛ عملی شکرگزاری کا یہی مطلب ہے کہ ہم ہر نعمت کو اس کی اصل جگہ پر بروئے کارلائیں۔
یہ ـ جو ہم خدا کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اتنی ساری نعمتیں عطا کی ہیں جیسے زندگی، تَنَفُّس (سانس لینا)، اور اس نے تمام اشیاء کو پیدا کیا ہے، یہ ـ شکرگزاری ہے۔ عبادت، دوسروں کی مدد اور دستگیری اور ماں باپ کی عزت و احترام بھی شکرگزاری ہے۔
حصول علم؛ ملکی خودمختاری کے لئے دوسرا قدم
آیت اللہ رمضانی نے سیکھنے سکھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بچیوں سے مخاطب ہوکر کہا: دوسرا کام، جو آپ کے لئے انجام دینا ضروری ہے، علم کا حصول اور سبق پڑھنا ہے۔ اچھی طرح سبق پڑھیں، یونیورسٹیوں میں پہنچ جائیں تاکہ استاد اور سائنسدان بن سکیں۔ آپ کے ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے تمام شعبوں میں سائنسدانوں کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ـ کہا جاتا ہے کہ ـ طب کے شعبۂ خواتین میں ماہر خاتون ڈاکٹروں کی بہت قلت ہے، آپ اچھی طرح سبق پڑھیں تاکہ اس ملک کی خواتین علاج معالجے کے لئے خاتون ڈاکٹروں سے رجوع کر سکیں۔ آپ جس قدر زیادہ سبق پڑھیں کی اور جس قدر کہ آپ کے ملک میں سائنسدانوں کی تعداد زیادہ ہوگی، سیینگال زیادہ سے زیادہ طاقتور اور زیادہ سے زیادہ خودمختار ہوگا اور مختلف شعبوں میں کم ہی دوسرے ممالک پر انحصار کرے گا۔ اپنے والدین اور اساتذہ اور استانیوں کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے مدد کی تاکہ آپ کا ایمان محفوظ رہے، آپ علم و سائنس میں ترقی کریں۔ یہ شکریہ اور سپاس گزاری سبب بنے گی کہ آپ اللہ کے فضل و کرم سے فیضیاب ہو سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ