اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | پروفیسر ڈاکٹر جیفری ساکس (Jeffrey D Sachs) نے کہا:
ہر شخص کو سمجھ لینا چاہئے کہ ایران ایک طاقتور ملک ہے اور اس کے پاس بہت طاقتور ہتھیار ہیں اور ایران سے لڑنا آگ سے کھیلنا ہے۔
امریکہ میں ہمارا سیاسی میدان مکمل طور پر دو متضاد قطبوں میں بٹ گیا ہے، ہماری معاشی حالت غیر مستحکم ہے اور ہماری جغ-سیاسی (Geo-polotical) صورت حال غیر یقینی ہے۔
موجودہ صورت حال میں ایک نئی جنگ امریکہ کے لئے ایک گہرا المیہ اورایک عظیم غلطی، ہوگی، یہ صرف ایک یا دو روزہ کاراوائی نہیں بلکہ ایک المیہ۔
اینکر: ریاست ہائے متحدہ نے کبھی بھی کوئی براہ راست جنگ نہیں لڑی ہے بلکہ یہ پراکسی (اور نیابتی) جنگوں سے پہچانا گیا ہے، چنانچہ اس کو کسی جنگ میں [براہ راست] داخلے کی ضرورت نہیں ہے، کیا یہ درست ہے؟
جیفری ساکس: امریکہ نے متعدد بلاواسطہ جنگیں لڑی ہیں، کبھی اعلانیہ طور پر ـ عراق کی جنگ کی طرح، ـ اور کبھی خفیہ طور پر، جیسے شام کی جنگ۔ امریکہ نے پوری دنیا میں اپنے فوجی تعینات کئے ہیں، تاہم یہ بہت سی جنگوں کو نہیں جیت سکا ہے، اتنی بڑی فوجی صلاحیت کے باوجود۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگوں کا تعلق سیاست سے ہے۔ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ سیاست میں احمقانہ انداز سے عمل کرتا ہے، سیاست کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ جنگی طیارے، بم اور کروز میزائل جنگ کے جیت لیتے ہیں، لیکن طالبان بالآخر افغانستان میں کامیاب ہوئے۔ ویت نامی اُس جنگ میں فاتح ٹہرے، اور یہ ایک طویل فہرست ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کئی عشروں کے دورانہ متکبرانہ اور سادہ لوحانہ رہی ہے۔
یہ صرف ٹرمپ اور بائیڈن سے تعلق نہیں رکھتا، میں نے اپنے پیشہ ورانہ دور میں امریکی خارجہ پالیسی کو کبھی بھی معقول اور منطقی نہیں پایا۔
میں ایسے ملک میں رہتا ہوں جس میں سب کچھ ہے، لیکن لگتا ہے کہ یہ اپنے عوام کے مفادات یا دوسرے ممالک کے مفادات کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتا۔
یہ امریکی خارجہ پالیسی کا بہت بڑا تضاد ہے، یقینا اگر امریکہ کی خارجہ پالیسی امریکی عوام کے مفاد میں ہوتی اور جنگ کے بارے میں نہ ہوتی بلکہ امن، سفارتکاری دو طرفہ فلاح و بہبود کے بارے میں ہوتی، (تو بہت اچھی ہوتی) لیکن عرصہ ہؤا کہ ہماری خارجہ پالیسی ایسی نہیں رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ