22 اپریل 2025 - 14:34
بھارت: ہندوکی ہندو سے لڑائی، جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار، مسلمان سپریم کورٹ میں، مودی نے ایک اور شوشہ چھوڑ دیا

بی جے پی ”ہندو ،مسلم لڑائی“ کی سیاست کرتے کرتے اب ”ہندوکی ہندو سے لڑائی “ پر اتر آئی ہے ۔۔۔ذات ، پات ، چھوٹا ، بڑا ،نچلا ، پِچھڑا ، برہمن ، دلت ، شودر ، شتری ،جین کوئی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا ۔سب بٹے ہوئے ہیں ۔۔۔جبکہ آجکل بھارت میں یہ انتہا پسند ہندو یہ نعرہ لگاتے ہیں ”بٹو گے تو کٹو گے “۔۔۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | بھارت کے معروف شاعر ڈاکٹر راحت اندوری نے شاید انہیں دنوں کیلئے کہا تھا کہ 
یقیں ہو کہ نہ ہو بات تو یقین کی ہے 
ہمارے جسم کی مٹی اِسی زمین کی ہے 
میرے وطن کے سبھی لوگ بھائی بھائی ہیں 
یہ دوریوں کی سیاست کسی کمین کی ہے 
کچھ "کمین " سی ہی سیاست ہو رہی ہے اِن دنوں بھارت میں ۔۔۔
 ہندوکی ہندو سے لڑائی بھی شروع ہو چکی ۔۔۔
 کئی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار، استعفوں کی ”برسات“ ہو رہی ہے ۔۔۔
 مسلمانوں نے اپنے حق کیلئے گیند سپریم کورٹ کے ”کورٹ “ میں پھینک دی ۔۔۔
بھارتی سپریم کورٹ نے اردو زبان کے استعمال کے خلاف درخواست مسترد کر دی۔۔
اور وزیر اعظم مودی نے مسلم نوجوانوں کو ”پنکچر لگانے والا “ کہہ کر نیا شوشہ چھوڑ دیا ۔۔۔
جس کا ڈر تھا وہی بات ہو گئی ۔۔۔
بی جے پی ”ہندو ،مسلم لڑائی“ کی سیاست کرتے کرتے اب ”ہندوکی ہندو سے لڑائی “ پر اتر آئی ہے ۔۔۔ذات ، پات ، چھوٹا ، بڑا ،نچلا ، پِچھڑا ، برہمن ، دلت ، شودر ، شتری ،جین کوئی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا ۔سب بٹے ہوئے ہیں ۔۔۔جبکہ آجکل بھارت میں یہ انتہا پسند ہندو یہ نعرہ لگاتے ہیں ”بٹو گے تو کٹو گے “۔۔۔
مودی جی کی تعلیمی اسناد ملیں نہ ملیں ۔۔۔بھارت میں اب ہندو رہنماؤں اورہندوسیاسی جماعتوں کے ”ہندو سرٹیفکیٹ “ بھی” چیک“ ہو رہے ہیں ۔۔۔
 ہندوﺅں میں طبقاتی تقسیم کی تاریخ مختصراًبیان کی جائے تو سب سے اوپر برہمن آتے ہیں،اس کے بعد شتری ،تیسرے نمبر پر ویش اورسب سے آخر میں شودروں کا نمبر آتا ہے۔ان ذاتوں کو 3 ہزار مزید ذاتوں اور ثانوی ذاتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔اچھوتوں یا دلتوں کا شمار ہندو ذات پات کے نظام سے باہر سمجھا جاتا ہے۔جبکہ ہیں وہ بھی ہندو ۔۔۔۔تفریق کی اس تاریخ کو مہا کمبھ میلے میں بھی دہرایا گیا ، اور کھل کر کہا گیا کہ سبھی ہندو برابر نہیں اور نہ ہی کبھی برابر ہو سکتے ہیں ۔۔۔
نفرت ،تفریق اور ”سپر میسی کی جنگ “ اس قدر بھڑک اٹھی ہے کہ بی جے پی اکثر کانگریس کو ”ہندو مخالف“ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے، اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کے مذہب پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔۔۔۔
 اب راہل گاندھی نے خود اپنے مذہب کا انکشاف کر دیا۔۔۔
 بی جے پی کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے راہول گاندھی بول ہی پڑے کہ ” ہم بھی اپنے آپ کو ہندو کہلاتے ہیں لیکن بی جے پی لیڈر جو کرتے ہیں وہ ہمارا مذہب نہیں ہے۔ ہمارا مذہب سب کو احترام دیتا ہے“۔
 اس سے پہلے بھی وہ کئی بار ہندو مذہب کے بارے میں بات کر چکے ہیں، جسے بی جے پی بڑا ایشو بناتی رہی ہے۔
کانگریس کے اے آئی سی سی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے راہول گاندھی نے مسلمانوں کے حوالے سے” وقف ترمیمی بل“ پر بھی بات کی۔اور واضح الفاظ میں کہا ” وقف بل پاس ہوا ۔۔۔یہ مذہب کی آزادی پر حملہ ہے۔ ۔۔یہ آئین پر حملہ ہے۔ ۔۔وہ لوگ آرگنائزر میں کرسچن کی زمین کیلئے لکھتے ہیں، بعد میں سکھ کے لیے بھی آئیں گے۔ آپ ٹیکا رام جولی کو ہی دیکھئے، راجستھان میں اپوزیشن کے لیڈر ہیں، مندر گئے، اسکے بعد بی جے پی نے لیڈروں نے مندر کو دھلوایا ، صاف کروایا، وہ اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں۔ ایک دلت کو مندر جانے کا حق نہیں دیتے۔ جب جاتا ہے تو مندر کودھلوا یا جاتا ہے ، یہ ہمارا مذہب نہیں، ہم بھی اپنے آپ کو ہندو کہلاتے ہیں، مگر یہ ہمارا مذہب نہیں، ہمارے مذہب سب کو احترام دیتا ہے“۔
یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ 2014 ءکے لوک سبھا انتخابات کے دوران جب بی جے پی نے راہول گاندھی پر” ہندو مخالف“ ہونے کا الزام لگایا تو کانگریس نے انہیں” جینودھاری ہندو“ کے طور پر پیش کیا۔ اس دوران راہول گاندھی نے کئی مندروں کا دورہ کیا ۔ جب وہ گجرات کے سومناتھ مندر گئے تو ان کی مذہبی شناخت کے حوالے سے بحث چھڑ گئی ۔جب اگست-ستمبر 2018ءمیں راہول گاندھی کیلاش مانسروور کے دورے پر گئے ، انہوں نے” ایکس “پر لکھا ” یہ سفر میرے لیے ایک روحانی تجربہ تھا“۔2021 ءمیں جے پور میں ریلی کے دوران راہول گاندھی کو کہنا پڑا ” میں ہندو ہوں لیکن ہندوتوادی نہیں۔ہندوازم سچائی اور عدم تشدد کا راستہ دکھاتا ہے، جب کہ ہندوتوا تشدد اور نفرت کو فروغ دیتا ہے۔“ اس پر بھی بی جے پی نے ہنگامہ کھڑا کیا اور کہا تھا کہ راہول گاندھی ہندوتوا کو” نفرتی“ بتا رہے ہیں۔
اب بھارت میں حالات اس نہج پر آ کھڑے ہوئے ہیں کہ خود وزیر اعظم نریندر مودی کی اتحادہ جماعتیں” وضاحتیں“ پیش کر رہی ہیں کہ وہ ”ہندوتوا“ جماعتیں نہیں ہیں ۔ اور ایسا کہنے کی ضرورت مسلمانوں کیخلاف وقف ترمیمی بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے پاس کروانے کے بعد پیش آ رہی ہے کیونکہ بھارت بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔۔۔ مسلمانوں میں شدید غم و غصہ ہے ۔۔۔ استعفوں کی برسات ہو رہی ہے ۔۔۔ کئی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں۔۔۔ اور بھارتی مسلمان اپنے ”حق “ کی یہ جنگ سپریم کورٹ تک لے گئے ہیں ۔
بات ہو رہی تھی” وضاحتوں“ کی تو مودی جی کی سرکار جن4اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے ان میں سے ایک رہنما چراغ پاسوان نے بھی کھل کر کہہ دیا ہے کہ ”’میں بی جے پی کے ہندوتوا کے ایجنڈے کے ساتھ نہیں، مذہب اور سیاست کو الگ الگ رکھنا چاہئے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو مذہب پر بحث نہیں کرنی چاہئے۔ جب تک ہندو مسلم مسئلہ جاری رہے گا، اصل مسائل پر بات نہیں ہو سکتی۔ ذات پات کی سیاست بند ہونی چاہئے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپنے فائدے کے لیے کرتے ہیں۔ یہ یقینی طور پر ملک کے مفاد میں نہیں ہے“۔
بھارت کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو چراغ پاسوان کے والد رام ولاس پاسوان نے گودھرا کے معاملے پر استعفیٰ دیدیا تھا ۔ اور اب کئی جماعتیں چراغ پاسوان کو بی جے پی سے اتحادختم کرنے کا مشورہ بھی دے رہی ہیں ۔
یہاں ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ وقف ترمیمی بل کی حمایت کو لے کر این ڈی اے کی حلیف جے ڈی یو میں ہنگامے کے بعد بی جے ڈی بھی اس معاملے پر تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے۔راجیہ سبھا میں اس بل کو منظور کرانے میں اس پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کا رول بہت اہم تھا۔ حالانکہ بی جے ڈی اپنی آبائی ریاست اوڑیسہ میں بی جے پی کے خلاف کھڑی ہے۔ پارٹی کے سابق وزیر پرتاپ جینا نے بی جے ڈی کے راجیہ سبھا فلور لیڈر سمیت پاترا کے خلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا۔ پارٹی صدر نوین پٹنائک کو لکھے ایک خط میں پرتاپ جینا نے کھل کر لکھا کہ وقف بل پر پارٹی کے مو¿قف میں آخری لمحات میں تبدیلی کے پیچھے ایک سازش تھی۔ انہوں نے سمیت کے سوشل میڈیا پوسٹ پر سوال اٹھایا جس میں سسمیت نے کہا تھا کہ بی جے ڈی کے راجیہ سبھا ممبرز اپنے ضمیر کی بنیاد پر اس بل پر فیصلہ لے سکتے ہیں۔ سمیت نے یہ پوسٹ کیا حالانکہ پارٹی مہینوں سے کہہ رہی تھی کہ وہ راجیہ سبھا میں بل کی مخالفت کرے گی۔
وقف ترمیمی بل کو سازش قرار دیتے ہوئے جھاڑکھنڈ کے وزیر عرفان انصاری نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بڑا اعلان کر دیا کہ ” بی جے پی حکومت بھارت میں مسلسل نفرت کی سیاست کر رہی ہے۔ اس قانون کو کسی بھی حال میں جھاڑکھنڈ اور بہار میں لاگو نہیں ہونے دیا جائے گا، بی جے پی حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے، بی جے پی مستقبل میں ایک ایک کرکے تمام اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنانے کی سازش کر رہی ہے۔حقیقت میں بی جے پی حکومت کی نظر وقف زمینوں پر ہے۔ بی جے پی حکومت وقتاً فوقتاً سماج کو ذات پات اور مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کا کام کرتی ہے۔ وہ عوام کو گمراہ کرکے اقتدار میں رہنا چاہتی ہے۔ یہ لڑائی سڑکوں سے ایوان تک لڑی جائے گی۔ بی جے پی حکومت اس عوام مخالف قانون کو واپس لینے پر مجبور ہوگی“۔
یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ بھارتی ریاست بہار میں کتنی وقف جائیداد ہے اور کتننی جائیدادوںپر تنازعہ چل رہا ہے۔۔۔ بہار میں 3000 سے زیادہ وقف جائیدادیں ہیں جن میں سے اکیلے سنی وقف بورڈ کے پاس 2900 سے زیادہ جائیدادیں ہیں جبکہ شیعہ وقف بورڈ کے پاس 327 جائیدادیں ہیں جن میں پٹنہ میں 117 جائیدادیں ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سنی وقف بورڈ کے پاس ساڑھے سات ہزار بیگھہ زمین ہے۔ سنی وقف بورڈ کی 250 تا 300 جائیدادوں کا معاملہ بھی ٹریبونل اور ہائی کورٹ میں زیر التواءہے۔ سنی وقف بورڈ کے پاس بھی 25 فیصد زمین کا قبضہ ہے۔ سروے نہ ہونے کی وجہ سے کس جگہ کتنی زمین ہے اس کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکا۔ جبکہ شیعہ وقف بورڈ کی اراضی پر بھی ناجائز قبضہ ہے۔ ان میں سے تقریباً 138 مقدمات وقف ٹریبونل میں اور 37 مقدمات ہائی کورٹ میں زیر التواءہیں۔
بہار کی راجدھانی پٹنہ میں بھی وقف بورڈ کی کروڑوں روپے کی جائیداد ہے۔ پٹنہ کے ڈاک بنگلہ چوک سمیت کئی مقامات پر لینڈ مافیا نے بیشتر اراضی پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے جبکہ 146 قابضین قانونی جنگ بھی ہار چکے ہیں۔ وقف سٹیٹ میں قبرستان بھی شامل ہیں۔ ریاست کے تمام قبرستانوں کی گھیرا بندی کی جارہی ہے۔ بہار میں 9273 قبرستانوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں سے 8774 قبرستانوں پر باڑ لگا دی گئی ہے جبکہ 367 قبرستانوں کی گھیرابندی کا کام جاری ہے۔
ریاست بہار میں مسلمان بڑا ووٹ بینک ہیں ۔ اس طاقت کو دیکھتے ہوئے بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرشاد یادو کے بیٹے تیجسوی یادو بھی مسلمانوں کے حق میں اور مودی سرکار کے وقف ترمیمی بل کیخلاف میدان میں نکل آئے ہیں ۔ کیونکہ ریاست بہار میں انتخابات نزدیک آ رہے ہیں تو تیجسوی یادو نے پٹنہ میں پریس کانفرنس میں ”دبنگ “ انداز میں کہا ہے کہ ”سپریم کورٹ میں لڑیں گے وقف بل کی لڑائی، ہماری سرکار بنی تو اس بل کو لاگو نہیں ہونے دیں گے۔ وقف کی لڑائی سڑکوں سے ایوان تک لڑی جائے گی۔ آر جے ڈی تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہے اور ہم اس کو لے کر عدالت گئے ہیں۔ بی جے پی کسی نہ کسی طرح وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو انتخابات تک اپنے ساتھ رکھے گی اور اس کے بعد ان کے ساتھ کیا کرے گی، سبھی جانتے ہیں۔ جے ڈی یو بی جے پی کا محروم اور نظر انداز سیل بن کر رہ گیا ہے۔ یہ حکومت مسلم دلتوں اور پسماندہ لوگوں کو قومی دھارے سے ہٹانا چاہتی ہے۔ یہی ان کا اصل ایجنڈا ہے اور یہی بی جے پی کی اصل سازش ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے 65 فیصد ریزرویشن کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے۔ کمنڈل والے ہندو اور مسلمانوں کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ آج بہار میں نصف فیصد بھی دلت ڈاکٹر یا انجینئر نہیں ہیں۔ انہیں قومی دھارے میں کون لائے گا؟ مسلمانوں کے بعد یہ لوگ سکھوں اور عیسائیوں پر بھی حملہ کریں گے، یہ ان کا مستقبل کا ایجنڈا ہے۔ ہمیں آنے والے انتخابات میں اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مغربی بنگال میں حالات کشیدہ ہیں ،وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی مودی سرکار کیخلاف ڈٹ کر کھڑی ہیں اور انہوں نے وقف ترمیم بل پر مسلمانوں کی حمایت کی ہے ۔ 
بھارتی سپریم کورٹ میں متنازع وقف ترمیمی بل پر سماعت شروع ہو چکی ہے۔ 
 کانگریس سمیت اپوزیشن جماعتوں نے مودی سرکار کے اس بل کو مسلمانوں کے” مذہبی حقوق پر حملہ“ قرار دیا ہے۔
دراصل یہ مسلمانوں کی وقف کردہ زمین کے انتظام میں زبردست تبدیلیوں کی ”سازش “ہے۔۔۔ وقف بورڈ کے پاس تقریباً 8 لاکھ 51 ہزار 535 جائیدادیں اور 9 لاکھ ایکڑ اراضی ہے اور سالانہ تقریباً 1500کروڑ روپے کا کرایہ آتا ہے جس سے وہ بھارت کے سرِ فہرست3 بڑے سٹیک ہولڈرز میں شامل ہے۔وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت کے پیش کردہ وقف (ترمیمی) بل میں مرکزی وقف کونسل اور وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کو شامل کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے اور اس سے حکومت کو متنازع وقف املاک کی ملکیت کا تعین کرنے کا اختیار مل جائے گا۔
تامل ناڈو کے وزیر اعلیٰ وقف بل واپس لینے کیلئے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ چکے ہیں ۔۔۔
دوسری جانب بھارت میں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی اور ان کی والدہ سونیا گاندھی پر منی لانڈرنگ کا الزام عائد کر دیا گیا ہے۔۔۔چارج شیٹ میں کانگریس پارٹی کے دیگر ارکان کے نام بھی شامل ہیں۔۔۔کانگریس کے ترجمان جے رام رمیش کے مطابق ” چارج شیٹ داخل کرنا وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے انتقامی کارروائی اور ڈرانے دھمکانے کی سیاست کے سوا کچھ نہیں۔ کانگریس پارٹی اور اس کی قیادت کو خاموش نہیں کروایا جاسکتا“۔
 اور اب مودی مسلمان نوجوانوں کو” پنکچر لگانے والا“ کہہ کر تمسخر اڑا رہے ہیں ۔۔۔۔ حزب اختلاف کے متعدد رہنماؤں نے ایسا کہنے پر وزیر اعظم مودی پرکڑی تنقید کی ہے۔۔۔رکن لوک سبھا اسدالدین اویسی نےاسکا جواب کچھ اس طرح دیا کہ ” اگر بی جے پی اور اور آر ایس ایس وسائل صحیح استعمال کرتے تو نریندر مودی کو چائے نہ بیچنی پڑتی“
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے اردو زبان کے استعمال کے خلاف درخواست مسترد کر دی ہے۔ اس درخواست کو ممبئی ہائی کورٹ سے بھی کوئی ریلیف نہیں ملا تھا۔
آخر میں بھی بھارت کے نامور ڈاکٹر راحت اندوری کا کلام ملاحظہ ہو کہ
اگر خلاف ہیں ہونے دو ، جان تھوڑی ہے 
یہ سب دھواں ہے کوئی آسمان تھوڑی ہے 
لگے گی آگی تو آئیں گے گھر کئی زد پہ 
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
کو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہونگے 
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے 
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں 
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے 

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha