اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |
قرآن میں تدبر
قرآن کی مہجوریت [تنہا رہنے] کی شکایت
"وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا؛ [1]
اور پیغمبرؐ [روز قیامت] کہیں گے اے میرے پروردگار! میری امت نے اس قرآن کو بالکل ترک کر دیا"۔
"ہجر" عمل، بدن، زبان اور قلب سے، جدا ہونے کے معنی میں آتا ہے۔ چنانچہ انسان اور آسمانی کتاب کے درمیان تعلق تمام شعبوں اور موضوعات میں مستقل اور دائمی ہونا چاہئے۔ کیونکہ لفظ "ہجر" ایسے موقع پر بروئے کار لایا جاتا ہے کہ انسان اور اس چیز کے درمیان رابطہ اور تعلق ہو اور وہ منقطع ہوجائے۔ چنانچہ ہمیں ہر طرح سے کوشاں رہنا چاہئے کہ قرآن کو اس مہجوریت سے نکال دیں اور اس کو اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں اپنے لئے علمی اور عملی محور و مدار بنا کر رسول اللہ الاعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو خوشنود کرنا چاہئے۔
قرآن کی تلاوت نہ کرنا، قرآن کے بغیر دوسری چیزوں [اور کتابوں] کو قرآن پر ترجیح دینا، قرآن کو محور و مدار حیات نہ بنانا، قرآن میں غور و تدبر نہ کرنا، اور دوسروں کو قرآن کی تعلیم نہ دینا، قران کو مہجور کرنے اور ترک کرنے کا مصداق ہیں۔ حتیٰ وہ جو قرآن کو سیکھتا ہے، لیکن اس کے بالائے طاق رکھ دیتا ہے، اور اس پر نظر نہیں ڈالتا اور اس کا پابند نہیں ہوتا، اس نے بھی قرآن کو مہجور کر دیا ہے۔
یہ ایت کریمہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا گلہ اور شکوہ بیان کرتی ہے اور چونکہ آنحضرتؐ "رَحمَۃٌ لِلعَالَمِین" ہیں، چنانچہ آپؐ بد دعا نہیں دیتے۔ ہاں مگر، روز قیامت کے دن شکایت کرنے والوں اور مدعیوں میں سے ایک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہیں۔ چنانچہ قرآن کی مہجوریت قطعی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا شکوہ اور ہماری ذمہ داری بھی قطعی اور حتمی ہے اور اور قرآن کی ظاہری تلاوت کافی نہیں ہے بلکہ قرآن کی مہجوریت کا مکمل خاتمہ ہونا چاہئے۔
امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) نے فرمایا:
"أُمِرَ اَلنَّاسُ بِالْقِرَاءَةِ فِي اَلصَّلاَةِ لِئَلاَّ يَكُونَ اَلْقُرْآنُ مَهْجُوراً مُضَيَّعاً وَلْيَكُنْ مَحْفُوظاً مَدْرُوساً فَلاَ يَضْمَحِلَّ وَلاَ يُجْهَلَ؛ [2]
لوگوں کو فرمان دیا گیا ہے کہ نماز میں قرآن پڑھا کریں اس لئے کہ کہیں قرآن متروک اور ضائع نہ ہونے دیا جائے، اور محفوظ اور تعلیم و تعلم اور مطالعے کی حالت میں برقرار رہے، اور یوں ضائع اور نظر انداز ہونے سے محفوظ رہے"۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"الْقُرْآنُ عَهْدُ اللَّهِ إِلَى خَلْقِهِ فَقَدْ يَنْبَغِي لِلْمَرْءِ الْمُسْلِمِ أَنْ يَنْظُرَ فِي عَهْدِهِ وَأَنْ يَقْرَأَ مِنْهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ خَمْسِينَ آيَةً؛ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج2، ص609۔
قرآن اللہ کا عہد ہے اس کی مخلوقات کے ساتھ، تو ایک مسلم انسان کو چاہئے کہ اللہ کے ساتھ اپنے اس عہد کو ہمیشہ پیش نظر رکھے اور ہر روز [کم از کم] اس کی 50 آیتوں کی تلاوت کرے"۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ رسول اللّہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے آیت کریمہ "وَرَتِّلِ القُرْآنَ تَرْتِيلاً"، [3] کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
"بَيِّنْهُ تِبْيَاناً وَلَا تَنْثُرْهُ نَثْرَ الْبَقْلِ وَلَا تَهُذَّهُ هَذَّ الشِّعْرِ قِفُوا عِندَ عَجَائِبِهِ، حَرِّكُوا بِهِ الْقُلوبَ، وَلَا يَكُنْ هَمُّ أحَدِكُمْ آخِرَ السُّورَةِ؛ [4]
قرآن کو واضح طور پر، ٹہر ٹہر کر پڑھو، اسے گھاس کے بیج کی طرح مت بکھیرو، اور اشعار کی طرح کٹ کٹ کر مت پڑھو، اس کی حیرت انگیزیوں میں رک کر غور کرو، دلوں کو اس کے ذریعے تپش اور حرکت میں لاؤ، اور تمہاری پوری کوشش یہ نہ ہو کہ سورت کے آخر تک پہنچ جاؤ"۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:
"اِذَ ا الْتَبَسَتْ عَلَيْكُمُ الفِتَنُ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ فَعَلَيْكُمْ بِالْقُرآنِ؛ [5]
جب تم پر فتنے [اور آزمائشیں] اندھیری رات کی طرح چھا جائیں تو قرآن سے رجوع کرو"۔
قرآن کریم کی مہجوریت میں بعض اکابرین کے اقوال
الف: محمد بن ابراہيم قوام شیرازی، (المعروف بہ صدر الدين شيرازى و بہ صدر المتألہین و ملا صدرا)
صدر المتألہین شیرازی (رحمہ اللہ) اپنی کتاب "سورہ واقعہ کی تفسیر" کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
میں نے حکماء اور فلاسفہ کی کتابوں کا وسیع مطالعہ کیا، یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ "میں بھی کوئی ہوں"، لیکن جب میری بصیرت کھل گئی، تو میں نے اپنے آپ کو حقیقی علوم سے خالی پایا۔ آخری عمر میں سوچا کہ قرآن کریم اور محمد و آل محمد (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کی احادیث میں غور و تدبر کروں۔ مجھے یقین ہؤا کہ میرا کام بے بنیاد تھا، کیونکہ میں اپنی پوری زندگی میں روشنی کے بجائے سائے میں کھڑا تھا۔ میری جان کو غم اور صدمے سے آگ لگ گئی اور میرا قلب شعلہ ور ہوگیا، یہاں تک کہ اللہ کی رحمت نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے قرآن کے اسرار سے آشنا کر دیا اور میں قرآن کی تفسیر اور اس میں غور و تدبر میں مصروف ہؤا۔ میں نے خانۂ وحی کے دروازے پر دستک دی، دروازے کھل گئے اور پردے ہٹ گئے اور میں نے دیکھا کہ فرشتے مجھ سے کہہ رہے ہیں:
"سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ؛ [6]
[خوش آمدید] سلام ہو تم پر، تم پاک رہے، اب تم داخل ہو یہاں ہمیشہ کے لئے"۔
ب۔ علامہ محمد بن مرتضیٰ بن محمود کاشانی المعروف بہ "فیض کاشانی" و "ملا محسن کاشانی"
فیض کاشانی (رحمہ اللہ) "رسالۃ الانصاف" میں لکھتے ہیں:
"میں نے کتابیں لکھیں، رسالے لکھے، تحقیقات کیں، لیکن کسی بھی علم سے مجھے اپنے درد کی دوا اور پیاس کے لئے پانی، میسر نہ آیا۔ اپنے اوپر خائف ہؤا اور خدا کی طرف بھاگا اور راز و نیاز کیا، اور اللہ نے تعالیٰ قرآن کریم میں غور و تدبر کے ذریعے میری راہنمائی کی"۔
ب۔ آیت اللہ العظمیٰ امام سید روح اللہ الموسوی الخمینی
امام خمینی (قَدَّسَ اللہُ نَفسَہُ الزَّکِیَّۃَ) صحیفۂ نور، کی جلد 20 صفحہ 20 پرفسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ آپؒ نےاپنی پوری زندگی صرف قرآن کریم کی راہ میں صرف کیوں نہیں کی اور حوزات علمیہ اور جامعات کو ہدایت کرتے تھے کہ قرآن کریم کو تمام شعبوں میں اپنا اعلیٰ ترین مقصد قرار دیں؛ تاکہ عمر کے آخری ایام میں اپنی نوجوانی کے ایام کی حسرت سے دوچار نہ ہوں۔
قرآن کریم میں تدبر کی ضرورت
"كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ؛ [7]
یہ وہ با برکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ پر اتارا ہے، با تاکہ وہ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ عقل والے نصیحت حاصل کریں"۔
اس آیت کریمہ میں قرآن کا چہرہ دکھایا گیا ہے:
الف: اس ـ قرآن ـ کا متن مکتوب ہے: "كِتَابٌ"
ب) اس کا سرچشمہ وحی اور اللہ کا لا متناہی علم ہے: "أَنْزَلْنَاهُ"
ج) وصول کرنے والی ہستی معصوم ہے: "إِلَيْكَ"
د) اس کے مندرجات بابرکت ہیں: "مُبَارَكٌ"
ہ) نزول قرآن کا مقصد، اس میں غور و تدبر کرنا ہے: "لِيَدَّبَّرُوا"
و) اس کے نکات اور معارف و تعلیمات پر علم و آگہی، معنوی اور روحانی نمو اور قُربِ الٰہی کی تمہید ہے: "لِيَتَذَكَّرَ"
ز) یہ توفیق اور کامیابی ان لوگوں کے لئے ہے جو دانا اور عقلمند ہوں: "أُولُو الْأَلْبَابِ"
چنانچہ قرءن میں غور و تدبر بہت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ جو قرآن کی آیات میں تدبر نہ کرے وہ اللہ کی طرف کی تذلیل و تحقیر کا حقدار ہوگا؛ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: "أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا؛ تو کیا وہ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر ان کے قفل [تالے] لگے ہوئے ہیں؟"۔ [8] جیسا کہ قرآن کریم کی نظر میں عالِمِ ربانی وہ ہے جس کا سرو کار قرآن کی تعلیم اور تدریس سے ہوتا ہے؛ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
"كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ؛ [9]
تم ربانی (اللہ والے) ہو جاؤ۔ اس طرح سے کہ تم کتاب کی تعلیم دیا کرتے ہو اور اسے پڑھتے رہتے ہو"۔
حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام) قرآنی مفاہیم کی لا اِنْتِہائِیَت کے بارے میں فرماتے ہیں:
"ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ ... بَحْراً لَا يُدْرَكُ قَعْرُهُ؛ [10]
اور پھر اللہ نے آنحضرتؐ پر کتاب اتاری ۔۔۔ جو ایسا بحر بے کراں ہے جس کی اتہاہ تک رسائی نہیں ہے"
قرآن کی ابدیت
نوع انسان کے افراد کے کلام یا مکتوبات میں ـ طویل مدت کے دوران ـ تبدیلی یا ارتقاء یا پھر تضاد واقع ہو سکتا ہے، مگر قرآن کریم 23 سال میں جنگ اور امن، گمنامی اور شہرت، کمزوری اور طاقت اور نشیب و فراز کے مختلف حالات میں ـ تدریجاً ـ نازل ہؤا، لیکن نہ اس میں کوئی اختلاف آیا اور نہ ہی کوئی تناقص اور تعارض پیش نہیں آیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے، نہ ایسا کلام جو کسی انسان نے کسی کو سکھایا ہو، لہٰذا قرآن کریم خبردار کرتا ہے کہ:
"أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا؛ [11]
تو آخر یہ لوگ قرآن پر غور کیوں نہیں کرتے اور اگر وہ اللہ کے علاوہ کسی کی طرف سے ہوتا تو وہ یقینا اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے"۔
قرآن کریم میں تدبر کا حکم سب کے لئے، ہر زمانے کے لئے اور ہر نسل کے لئے ہے، اور اس کی نشانی یہ ہے کہ ہر مفکر ہر زمانے میں اس سے کوئی نکتہ ضرور اخذ کرتا ہے۔
مذکورہ بالات آیت کریمہ میں غور سے درج ذیل عمدہ نکات سمجھ میں آ سکتے ہیں:
1- قرآن میں فکر و تدبر نہ کرنا اللہ کی سرزنش کا موجب ہے؛
2۔ قرآن میں تدبر نفاق کی بیماری کی شفا بخش دوا ہے؛
3۔ اسلام اور قرآن کی طرف رغبت و رجحان کا راستہ تدبر اور غور و فکر ہے، نہ کہ اندھادھند پیروی؛
4۔ قرآن کریم نے سب کو تدبر کی طرف بلایا ہے یعنی یہ کہ انسان کی فہم قرآنی معارف و تعلیمات کے ادراک کی صلاحیت رکھتی ہے؛
5۔ قرآن کریم میں تضاد اور اختلاف کا تصور، سطحی نگاہ، عدم تدبر اور غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے ابھرتا ہے؛
6۔ آیات قرآن کی ہم آہنگی اور عدم اختلاف اس حقیقت کا عینی ثبوت ہے کہ قرآن کریم کا مصدر اور سرچشمہ ناقابل تغیر اور ثابت ہے، کیونکہ جو کچھ بھی خدا کی طرف سے ہے، وہ حق ہے، ثابت ہے، تضاد اور انتشار نیز تناقض اور تضاد سے بالاتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
[1]۔ سورہ فرقان، آیت 30۔
[2]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج1، ص310۔
[3]۔ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پوری طرح واضح کر کے پڑھا کیجئے (سورہ مزمل، آیت4۔
[4]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج2، ص614؛ الراوندی، فضل اللہ بن علی کاشانی، النوادر، ص30۔
[5]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج2، ص599۔
[6]۔ سورہ زمر، آیت 73۔
[7]۔ سورہ ص، آیت 29۔
[8]۔ سورہ محمد، آیت 24۔
[9]۔ سورہ آل عمران، آیت 79۔
[10]۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 198۔
[11]۔ سورہ نساء، آیت 82۔
آپ کا تبصرہ