10 دسمبر 2025 - 03:49
مغربی عورت منافع اور سرمائے کا اوزار

مغرب کا خواتین کے بارے میں نظریہ، انہیں "ایک آلے یا اوزار (Instrument OR Tool)" اور "ایک شیئے"  کی طرح دیکھتا ہے جس نے خواتین کے حق میں، سب سے زیادہ ظلم کیا ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || مغربی سائنسدانوں نے خواتین کو ایک اوزار کے طور پر قبول کیا اور انہیں مردوں کے مقابلے میں سب سے نچلے درجے پر سمجھا اور مغرب والے بسا اوقات اسی نظریے کی رو سے خواتین کو انسان کے بجائے جانور تصور کرتے تھے۔

لیکن یہ نظریہ تبدیل ہؤا؛ مغرب نے حقوق نسوان کے تحفظ کے دعوے کے ساتھ صنفی مساوات کا تصور پیش کیا،

لیکن کیا یہ دعویٰ حقوق نسوان کا تحفظ تھا؟؟

کیا مغرب کا دعویٰ خواتین کے فائدے اور بھلائی کے لئے تھا؟

مغرب کے دعوے میں فائدہ شامل تھا لیکن خواتین کے لئے نہیں بلکہ سرمایہ داری نظام اور سرمایہ داروں کے لئے۔

اس کے باوجود مغرب کی معاصر خواتین ایک اوزار کے طور پر معاشرے میں داخل ہوئیں اور ان کی شناخت "منافع" کی بنیاد پر تشکیل پائی۔ مغربی دنیا تبدیل ہوئی اور جاگیرداری دور سے صنعتی دور میں داخل ہوئی؛ اس کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام کو ایک ایسے اوزار اور آلے کی ضرورت تھی جو کاروبار کو فروغ دے اور منافع حاصل کر سکے، چنانچہ مغربی خواتین فیکٹریوں میں داخل ہوئیں اور مغربی سرمایہ داروں کے منافع اور آمدنی میں اضافے کا سبب بنیں۔

پہلی بار خواتین انگلینڈ کی کاٹن مل میں کام کرنے لگیں اور کام کے بدلے 'کچھ معاوضہ' وصول کرنے لگیں۔ مغربی خواتین کا کاٹن مل میں داخلہ اس دعوے اور تصور پر مبنی تھا کہ اس پیشے میں خواتین، مردوں کے مقابلے میں، زیادہ نفاست کے ساتھ کام کرتی ہیں۔

مغربی خواتین کی غلط فہمی کی بنیاد یہ تصور تھا کہ انہوں نے آزادی، خودمختاری اور آمدنی کا ذائقہ چکھ لیا ہے لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھیں کہ یہ آزادی، خواتین کے حقوق کے احترام اور تقدیس کی وجہ سے نہیں بلکہ فیکٹریوں کے مالکان کی آمدنی بڑھانے اور سرمائے کے جمع ہونے میں اضافے کی خاطر تھی۔

مغربی عورت منافع اور سرمائے کا اوزار

ول ڈیورانٹ (William James Durant) اس بارے میں کہتے ہے: "عورت کی آزادی صنعتی انقلاب کی ایک تاثِیْر ہے، ہماری دادیوں کی آزادی کا پہلا قدم سنہ 1882ع‍ کا قانون تھا۔ اس قانون کے تحت، برطانیہ کی خواتین کو اس کے بعد ایک بے مثال حق حاصل ہؤا جو انہیں اس سے پہلے حاصل نہیں تھا؛ اور وہ یہ کہ وہ اپنی کمائی کو اپنے پاس رکھنے کی مجاز بن گئیں!! یہ 'اعلیٰ اخلاقی اور مسیحی' قانون، ہاؤس آف کامنز کے 'فیکٹری مالکان' نے بنایا تھا تاکہ وہ انگلینڈ کی زیادہ سے زیادہ خواتین کو فیکٹریوں میں لے جا سکیں۔"

لیکن یہ بات قابل تشریح ہے؛ خواتین کی صنعتوں میں سنجیدہ شرکت اور کام کے متقاضیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ، سرمایہ داروں کے لئے مزدوروں پر زیادہ 'کنٹرول رکھنا' ممکن ہو گیا؛ یعنی فرض کریں کہ اگر کسی نے اپنے حقوق کی شکایت کی یا کوئی پیشہ ورانہ مطالبہ پیش کیا تو اسے برطرف کر دیا جاتا تھا جبکہ فیکٹریوں کے دروازوں کے پیچھے بے روزگار خواتین کی بھیڑ لگی ہوتی تھی۔

مغرب میں خواتین کے حقوق پر توجہ دیئے جانے کی بنیاد منافع پرستی کے مقصد سے رکھی گئی اور آزادی اور مساوات جیسے نعرے شروع سے ہی سے بے معنی اور بے بنیاد تھے، مغربی ثقافت جس کی جڑیں سرمایہ داری اور مادہ پرستی میں پیوست تھیں، کبھی بھی خواتین کی حیثیت کو ایک "اشیائے صرف" یا "سرمایہ اپنی طرف راغب کرنے کے اوزاروں یا آلات (Instrument OR Tool)" سے بالاتر نہیں قرار نہیں دے سکی، اور خواتین کی حقیقی شناخت اور اصلیت کو ہرگز ہرگز برقرار نہیں رکھ سکی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: زہرہ عارفی منش

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha