8 دسمبر 2025 - 16:29
عراق میں مزاحمتی دھڑوں کی وزیراعظم السودانی کے خلاف ملک گیر احتجاج؛

عراق میں مزاحمتی جماعتوں نے حزب اللہ اور انصاراللہ کو دہشت گرد فہرست میں شامل کرنے کے حکومتی فیصلے سے پسپائی پر وزیراعظم محمد شیاع السودانی کے خلاف احتجاج تیز کر دیا ہے، جبکہ امریکہ نے اس پسپائی پر شدید ناراضی ظاہر کرتے ہوئے بغداد پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، حزب اللہ اور انصاراللہ کے نام کو دہشت گرد فہرست میں شامل کرنے کے سرکاری فیصلے سے اچانک دستبرداری کے بعد عراق میں سیاسی اور سیکیورٹی بحران مزید گہرا ہو گیا ہے۔ امریکی ناراضی بڑھ رہی ہے اور مزاحمتی گروہوں نے وزیراعظم محمد شیاع السودانی کے خلاف دباؤ بڑھانے کے لیے احتجاج کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔

لبنانی اخبار الاخبار کے مطابق، امریکی محکمۂ خارجہ نے اس حکومتی پسپائی پر ’’مایوسی‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے بغداد سے مطالبہ کیا کہ عراق کی سرزمین کو ایران کے قریب مزاحمتی گروہوں کی کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے سے روکا جائے۔

عراق کے اندر، ’’ ہم آہنگی‘‘ میں شامل مزاحمتی جماعتوں نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بغداد اور جنوبی صوبوں میں مسلسل تیسرے روز حزب اللہ کے پرچموں کے ساتھ احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ ان دھڑوں کا کہنا ہے کہ یہ موقع السودانی پر سیاسی دباؤ بڑھانے اور ان کی دوسری مدت وزارتِ عظمیٰ کو روکنے کے لیے اہم ہے۔

النجباء کے سیاسی دفتر کے سربراہ علی الاسدی نے اس پسپائی کو ’’شہیدوں کی توہین‘‘ قرار دیا، جبکہ نوری المالکی کے قریبی ساتھی یاسر صخیل نے اپنی پوسٹ میں ’’اکرامِ میت دفن‘‘ کا جملہ لکھ کر السودانی کے ’’سیاسی انجام‘‘ کی طرف اشارہ کیا۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض مزاحمتی دھڑوں کی حالیہ مسلح نمائشوں نے عراق کی منفی تصویر پیش کی ہے، اور امریکہ اب کھل کر ان گروہوں کے غیر سرکاری ہتھیاروں کے خاتمے پر زور دے رہا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق، السودانی پر ہونے والے حملے آئندہ حکومت کی تشکیل سے پہلے ان کا سیاسی کردار کمزور کرنے کی کوشش ہیں۔

سیاسی محقق محمد الربیعی نے حکومت کے فیصلے کو ’’بدترین غلطی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ حزب اللہ اور حوثیوں کا نام فہرست میں شامل کر کے پھر فوراً پیچھے ہٹ جانا، مزاحمتی گروہوں کے سیاسی اثر کو غیر معمولی طور پر بڑھا گیا ہے۔ ان کے مطابق امریکہ السودانی کو ’’معتدل‘‘ سمجھتا ہے، مگر حکومت کی غیر مستحکم پالیسیاں ان کے منصب کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔

آزاد سیاست دان محمد الخالدی نے بھی کہا کہ السودانی، ایک طرف امریکہ کے عملی اقدامات کے دباؤ اور دوسری طرف مزاحمتی دھڑوں کے ’’ریڈ لائن‘‘ کے درمیان پھنس چکے ہیں۔

ہم آہنگی سے وابستہ رہنما علی المسلماوی نے خبردار کیا کہ آئندہ مرحلہ ’’سب سے سخت‘‘ ہوگا، کیونکہ واشنگٹن سرکاری اداروں کے سوا تمام گروہوں سے اسلحہ چھیننے کے مطالبے پر قائم ہے، جس سے سیاسی اور سیکیورٹی تصادم کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔

اسی دوران امریکی سفارتی سرگرمیاں بھی تیز ہو گئی ہیں۔ امریکی ایلچی مارک ساوایا آئندہ چند روز میں بغداد پہنچ رہے ہیں اور انہوں نے اس دورے کو ’’فیصلہ کن‘‘ قرار دیا ہے۔ شام کے امور کے لیے امریکی نمائندہ تام باراک نے عراق کے سیاسی ڈھانچے کو ’’کمزور اور بکھرا ہوا‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ السودانی ’’صلاحیت تو رکھتے ہیں، مگر حقیقی طاقت ان کے پاس نہیں۔‘‘

عراقی وزیر خارجہ فؤاد حسین نے قطر میں ’’مجمع دوحہ‘‘ کے دوران باراک کے اس بیان پر اعتراض کیا، تاہم امریکی اہلکار نے موقف دہرایا کہ واشنگٹن ’’عراق کے تجربے کا احترام‘‘ کرتا ہے۔

کل ہونے والے حکمران اتحاد کے اجلاس میں ’’فہرست اسکینڈل‘‘ اہم موضوع رہنے کا امکان ہے، جبکہ مزاحمتی دھڑے احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں اور امریکہ بھی اپنے انتباہات دہرا رہا ہے۔ یہ صورتحال السودانی کی دوسری مدتِ وزارتِ عظمیٰ کے مستقبل پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha