2 دسمبر 2025 - 07:36
مآخذ: ڈان نیوز
پاکستان: کوئٹہ کی خاموشی کو حکمران طبقہ استحکام سمجھ بیٹھا ہے

کوئٹہ کی اداسی مزید گہری ہوتی جارہی ہے۔ خوف سے زیادہ، ایک ایسی بھاری خاموشی ہے جو شہر اور اس کے لوگوں کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے جبکہ ایک پُراسرار سکوت ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی گرفت سخت کیے جارہا ہے۔ شہر کی سیکیورٹی کے بارے میں تشویش ہر جگہ محسوس کی جا سکتی ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || چیک پوسٹس کی بڑھتی تعداد، سڑکوں کی بندش، وقفے وقفے سے انٹرنیٹ کی معطلی، سیکیورٹی انتباہات کے باعث اسکولز کی بندش، "حساس" علاقوں میں نقل و حرکت پر پابندیاں، سرکاری عمارتوں پر تاروں کا جال، مضبوط حفاظتی انتظامات اور افغان پناہ گزینوں کی واپسی، یہ سب عناصر مل کر کوئٹہ کو بے چین اور کشیدگی سے بھرپور شہر بنا چکے ہیں۔

کوئٹہ کبھی ایسا نہیں تھا۔ ماضی میں بلوچستان میں جو کچھ بھی ہوتا رہا یعنی سیکیورٹی کی صورت حال جیسی بھی رہی، کوئٹہ شہر کا اپنا رنگ ہمیشہ برقرار رہا ہے۔ لوگ شکایت کرتے تھے، نجی اور عوامی سطح پر غصے کا اظہار کرتے تھے، تقدیر سے بحث کرتے تھے لیکن پھر وہ زندگی کی طرف لوٹ آتے تھے۔

گذشتہ ایک سال میں کوئٹہ نے تواتر سے بہت کچھ کھویا ہے۔ اب لوگ احتجاج نہیں کرتے، وہ اپنے گرد بڑھتی پابندیوں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ وہ اب بس خاموش رہتے ہیں۔ وہ چپ سادھے زندگی گزارتے ہیں اور یہی خاموشی شہر کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

اگر احمد فراز زندہ ہوتے تو شاید وہ اس لمحے کے لیے ایک شہرِ آشوب لکھتے۔ مگر حکومت اس خاموشی میں سکون تلاش کرتی ہے اور وہ اسے غلطی سے استحکام سمجھ بیٹھی ہے۔ آخرکار اعداد و شمار بھی ان کے اسی خیال کے حق میں نظر آتے ہیں۔

کوئٹہ میں رواں ماہ قوم پرست شدت پسندوں کی جانب سے صرف 10 دہشت گرد حملے ہوئے ہیں جوکہ کم شدت کے تھے جن میں 6 افراد زخمی ہوئے۔ تاہم گزشتہ تین ماہ میں صوبے بھر میں قوم پرست شدت پسندوں سے منسوب 52 حملے رپورٹ ہوئے جن میں 49 جانیں لقمہ اجل بنیں۔

تصویر کا تاریک رخ یہ ہے کہ ان گروہوں نے اپنی کارروائیوں کے دائر کار کو وسیع کر لیا ہے جہاں وہ خاص طور پر سندھ تک پہنچ چکے ہیں۔ حال ہی میں حیدرآباد میں بلوچ ری پبلکن گارڈز کی جانب سے پولیس یونٹ پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا۔ یہ حملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ خطرہ تبدیل ہو رہا ہے یعنی وہ زیادہ وسعت اختیار کررہا ہے اور فوجی کارروائیوں کے ذریعے اس کا مقابلہ کرنا مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

باغی گروہوں نے صوبے بھر میں اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس میں ان لوگوں کو اغوا کرنا شامل ہے جن پر وہ جاسوسی یا ان کے انٹیلی جنس نیٹ ورکس میں مداخلت کا الزام لگاتے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اغوا کے یہ واقعات ان لوگوں کے گھروں پر چھاپوں کے دوران رونما ہوئے جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ مخبر ہیں۔

باغی نفسیاتی حربے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ وہ دور دراز علاقوں میں سڑکیں بند کر رہے ہیں اور مختصر طور پر بڑی شاہراہوں کا کنٹرول سنبھال رہے ہیں۔ بار بار دہشت گردانہ حملے کرنے سے زیادہ، سڑکوں کی ناکہ بندیوں سے حکومت پر دباؤ پڑ سکتا ہے۔

اس کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کسی حد تک خطرات پر قابو پانے کے لیے سراہا جانا چاہیے۔ انہوں نے باغیوں کو پسپا کیا، ان کے سپلائی نیٹ ورک کو توڑ دیا ہے اور ان کی کام کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دیا ہے۔

غیر عسکری اقدامات، ان کا بنیادی دائرۂ کار نہیں ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ سیکیورٹی ایجنسیز کے لیڈران کے پاس طاقت کے استعمال کیے بغیر صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح منصوبہ موجود نہیں ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے جو امر پریشان کُن ہے، وہ یہ ہے کہ تشدد کی روک تھام کے طریقوں کی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے وہ طاقت پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ اس سے عام لوگوں کا ان پر اعتماد کم ہو جاتا ہے اور اداروں کے لیے باغیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لوگ خاموش رہ کر کسی کا ساتھ دینے سے گریز کرتے ہیں اور یہ ظاہر نہیں کرتے کہ وہ کس کی حمایت کرتے ہیں۔

یعنی یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ عوام کتنے ناخوش ہیں جبکہ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ریاست کو اچھی طرح سے کام کرنے والے سیاسی، معاشی، قانونی اور سماجی نظام کی ضرورت ہے۔

لہٰذا جب لوگ خاموش رہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے بلکہ حقیقت میں یہ معاشرے میں ایک گہرے، چھپے ہوئے درد کی عکاسی کرتا ہے۔

اگرچہ دہشت گرد حملوں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن [بلوچ] نوجوانوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات جاری ہیں۔ لوگوں کے خاموش رہنے کی یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے لیکن یہ صوبے کے مشترکہ مصائب کو مزید بدتر بناتا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما جیل میں قید ہونے کی وجہ سے احتجاجاً آواز اٹھانے والے بہت کم لوگ رہ گئے ہیں۔

خاموشی زندگی کا معمول بن چکی ہے۔ اس کے باوجود وہ لوگ جو خاموش رہنے کا انتخاب کرتے ہیں، وہ چھوٹی سی حرکت پر بھی چوکنا ہوجاتے ہیں۔ نومبر کئی غیر تشدد پسند قوم پرست گروہوں اور مسلح علیحدگی پسند نیٹ ورکس کے لیے علامتی اہمیت رکھتا ہے، چاہے وہ صوبے کے اندر ہوں یا بیرونِ ملک پھیلے ہوئے ہوں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ نومبر سے تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ کوئٹہ میں ممکنہ تشدد کے خطرات کے پیش نظر، حکومتِ بلوچستان نے صوبے کے اندر بسوں اور ٹرینوں سمیت تمام مسافروں کی آمد و رفت روک دی ہے۔ انہوں نے کئی اضلاع میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کو بھی محدود کر دیا۔ بڑے شہروں میں کچھ خدمات جزوی طور پر معطل کر دی گئی ہیں اور دارالحکومت میں اسکول بند کر دیے گئے ہیں۔

کوئٹہ کی اداسی مزید گہری ہوتی جارہی ہے۔ خوف سے زیادہ، ایک ایسی بھاری خاموشی ہے جو شہر اور اس کے لوگوں کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے جبکہ ایک پُراسرار سکوت ہے جو ہر گذرتے دن کے ساتھ اپنی گرفت سخت کیے جارہا ہے۔ شہر کی سیکیورٹی کے بارے میں تشویش ہر جگہ محسوس کی جا سکتی ہے۔

نومبر کے وسط میں لیے گئے ان اقدامات کا سلسلہ مہینے کے آخر تک جاری رہا۔ اب لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس طرح کی پابندیاں معمول بن سکتی ہیں کیونکہ مقامی لوگ، دوسرے علاقوں یا سول سوسائٹی کی طرف سے، مخالفت میں اٹھنے والی آوازیں نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ ان سے توقع تھی کہ وہ عوام کا ساتھ دیں گے۔

عام آدمی کیا کہتا ہے، یہ طاقت کے مراکز کے لیے اہم نہیں۔ قوم پرست سیاسی جماعتوں کو ریاست اور باغیوں دونوں نے دیوار سے لگا دیا ہے جبکہ جو رہی سہی جگہ ہے اس پر بلوچ یکجہتی کمیٹی نے قبضے کرلیا ہے۔

مذہبی جماعتیں اس بات پر اُلجھن کا شکار ہیں کہ انہیں کس جانب جانا چاہیے کیونکہ صوبے میں ریاست کی سخت گیر پالیسی ان کے لیے ہضم کرنا مشکل ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ باغی سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ان کا مقابلہ براہِ راست ریاست کے ساتھ ہو رہا ہے کیونکہ بات چیت کا درمیانی راستہ تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔

افراتفری کے باوجود عام لوگوں میں امید اب بھی موجود ہے۔ وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ صوبے کے مسائل تمام فریقین کے ساتھ بات چیت کے ذریعے پُرامن طریقے سے حل کیے جا سکتے ہیں۔ ایک مسئلہ جو ان کے سامنے کھڑا ہے، وہ صوبے کی سیاسی اور معاشی صورت حال ہے۔ عدم استحکام پھیلانے کے خواہش مند عناصر، تنازعات والے علاقوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں جوکہ افغان اور ایرانی سرحدوں سے شیرانی ژوب اور نیچے ضلع حب تک پھیلے ہوئے ہیں۔

لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ امن خراب کرنے والے کون ہیں۔ جو بات ان کے لیے سمجھنا مشکل ہے، وہ یہ ہے کہ ریاستی ادارے انہیں کیوں تسلیم نہیں کرتے یا اس سے بھی بدتر یہ کہ کیوں وہ ان پر انحصار کرتے رہتے ہیں۔

شاید کسی کے پاس اس کا جواب ہو مگر اس خاموشی میں کوئی بھی بلند آواز سے بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ جنہوں نے اپنے لب سی لیے ہیں، وہ بس دیکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ کوئی ان کی خاموشی کو سمجھے اور اس درد کا مداوا پیش کرے جو ان کی روحوں میں گہرائی تک سرایت کرچکا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: محمد عامر رانا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha