12 نومبر 2025 - 23:38
مآخذ: ڈان نیوز
پاکستان: 'محفوظ ترین شہر پر حملہ،' کیا پاکستان واقعی حالتِ جنگ میں ہے؟

ایک طویل وقفے کے بعد وفاقی دارالحکومت میں دہشت گردی واپس آچکی ہے۔ اسلام آباد میں ڈسٹرکٹ کورٹ کی عمارت کے باہر گزشتہ روز ہونے والے خودکش بم دھماکے میں کم از کم 12 افراد جاں بحق ہوئے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا: پاکستانی اخبار ڈان نے اپنے اداریے "پاکستان کے محفوظ ترین شہر پر حملہ، کیا ہم واقعی حالتِ جنگ میں ہیں؟" میں لکھا:

اگرچہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مرکز قرار دیے جانے والے نام نہاد علاقے جیسے خیبرپختونخوا اور بلوچستان تو طویل عرصے سے عسکریت پسندوں کی پُرتشدد لہر کا سامنا کر ہی رہے تھے، لیکن کل دہشت گردوں نے جہاں حملہ کیا اسے ملک کے سب سے محفوظ شہروں میں شمار کیا جاتا تھا۔

وزیر داخلہ محسن نقوی اسلام آباد جی الیون کے علاقے میں خودکش حملے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچے — فوٹو: اسکرین شاٹ/منور عظیم

اب تک دہشت گردی کی حالیہ لہر میں زیادہ تر سیکیورٹی اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن تازہ ترین اسلام آباد سانحے میں واضح طور پر شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔

اسلام آباد بم دھماکہ تشدد کی آخری لہر کی دردناک یادیں واپس لاتا ہے جہاں دہشت گردی کے عفریت کو بےاثر کرنے سے پہلے سیکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں دونوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ منگل کو کیڈٹ کالج وانا میں بھی کلیئرنس آپریشن جاری رہا جو کہ ایک اور سافٹ ٹارگٹ تھا جس پر پیر کو عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا۔

صدر زرداری نے کہا کہ بیرونی پشت پناہی میں سرگرم دہشتگردوں کا مکمل خاتمہ ضروری ہے — فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد اور وانا دونوں حملوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ان حملوں میں ’خطے میں بھارتی اسپانسرڈ ریاستی دہشت گردی‘ کے شواہد ملتے ہیں جو افغانستان کو ان واقعات سے جوڑتے ہیں۔

شہباز شریف نے مزید کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ علیحدگی پسندوں سے تعلق رکھنے والے خوارج ان واقعات میں ملوث ہیں۔

ادھر پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ 'ہم حالت جنگ میں ہیں'۔

ظاہر ہے کہ دہشت گردی کی دونوں کارروائیوں کے پیچھے ملوث قوتوں کو بے نقاب کرنے اور ان گھناؤنے جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اور اگر ان حملوں میں بھارت اور افغان طالبان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت ملتا ہے تو اس معاملے کو فوری طور پر نئی دہلی اور کابل دونوں کے سامنے اٹھایا جانا چاہیے۔

لیکن دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ممکنہ غیر ملکی روابط کی جانچ ہونی چاہیے جبکہ ہماری سرحدوں سے باہر ملوث افراد کو بھی اس میں شامل کیا جانا چاہیے۔ اس وقت ریاست کا بنیادی فرض یہ ہے کہ وہ اندرونی محاذ کو مضبوط بنائے اور دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں بحالی کے تناظر میں دہشت گردی کے خلاف اپنی حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لے۔

طویل عرصے سے پاکستان کے بڑے شہر بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ حملوں سے محفوظ رہے ہیں۔ یہ حقیقت کہ اسلام آباد میں خودکش حملہ آور دھماکہ کرنے میں کامیاب ہوگیا، یہ ایک بڑی سیکیورٹی کوتاہی کی نشاندہی کرتا ہے۔

اگر ہم واقعی حالت جنگ میں ہیں جیسا کہ وزیر دفاع نے دعویٰ کیا ہے، تو اس بحران سے نمٹنے کے لیے قومی ردعمل کی ضرورت ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز جیسے اپوزیشن، سیکیورٹی ماہرین، سول سوسائٹی، سب کو دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط ردعمل کی تشکیل کے لیے اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔

سیاست، اپوزیشن کو نشانہ بنانے کا سلسلہ اور تمام تنقیدی آوازیں بند ہونی چاہئیں۔ تمام عناصر کی رائے ضرور سنی جائے تاکہ پاکستان اس بحران سے مضبوطی سے نکل سکے اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کو شکست دے سکے۔ موجودہ حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہورہی اور اس کے نتیجے میں باوردی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کا بھی بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔

اس تاریک لمحے سے فتح حاصل کرنے کے لیے ہمیں دانشمندانہ قیادت اور عوام کی حمایت کی ضرورت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha