بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے قطر کے الجزیرہ نیٹ ورک کے ساتھ خصوصی بات چیت کے دوران جوہری مذاکرات، امریکی رویے، ٹریگر میکانزم، روس اور چین کے موقف اور 12 روزہ جنگ اور دوسرے مسائل پر روشنی ڈالی ہے جس کا متن درج ذیل ہے:
الجزیرہ: ذرائع جنگ کے دوبارہ شروع ہونے کے بارے میں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، کیا آپ کو بھی جنگ کی توقع ہے؟
* عراقچی: ہم بہر حال جنگ کے لئے ہر وقت تیار ہیں، ہمارے دشمن نے خطے میں متعدد جنگوں کو ہوا دی ہے، اس کا آخری حملہ ہمارے برادر ملک قطر کے خلاف تھا۔ ایسے دشمن سے ہر وقت جنگ شروع کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے، بہر حال ہم اس سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں۔
ہم 12 روزہ جنگ سے قبل کے ایام سے بھی زیادہ، جنگ کے لئے تیار ہیں،اسلحے کے لحاظ سے بھی انٹیلی جنس کے حوالے سے بھی، ہمت و حوصلے کے لحاظ سے بھی، اگر وہ اپنی ہاری ہوئی 12 روزہ جنگ دہرانا چاہیں تو اس کا انجام بھی دیکھ لیں گے۔
ایک شکست خوردہ تجربہ دہرانے کا نتیجہ دوبارہ شکست کے سوا کچھ نہ ہوگا، وہ پچھلی جنگ میں کوئی مقصد حاصل نہ کر سکے، پھر بھی اسی انجام سے دوچار ہونگے؛ علاوہ ازیں اس بار ہماری تیاری بہت بڑھ کر ہے، اور ہم نے دشمن کی کمزوریوں سے بھی بخوبی واقف ہو چکے ہیں۔
- الجزیرہ: دشمن کے کمزوریاں کیا ہیں؟
* عراقچی: کچھ کمزوریوں کا تعلق اسرائیلی ریاست کے دفاعی نظام کے بارے میں ہیں، جن سے ہم نے 12 روزہ جنگ میں فائدہ اٹھایا، تکنیکی لحاظ سے ہمارا تجربہ پہلے سے بہت بہتر ہے، ہم نے اپنے میزائلوں کا تجربہ ایک حقیقی جنگ میں کر لیا، اور اب ہم جانتے ہیں کہ اپنی اس صلاحیت سے کہاں اور کیسے استفادہ کریں۔
12 روزہ جنگ میں اسرائیلی فضاؤں پر ہماری حکمرانی تھی، اور وہ مؤثر دفاعی اقدامات نہ کر سکے۔
- الجزیرہ: کیا میزائلوں کی تعداد اور کیفیت میں کوئی خاص تبدیلی آئی ہے؟
* عراقچی: ہر لحاظ سے۔
- الجزیرہ: آپ کے خیال میں کیا اگلی جنگ کا دائرہ پورے علاقے تک پھیل سکتا ہے یا پچھلی جنگ کی طرح ہی ہوگی؟
* عراقچی: ہر جنگ کی اپنی خاص شکل ہوتی ہے، گوکہ میں سفارت کار ہوں اور سفارت کاری پر بات کرنا پسند کرتا ہوں نہ کہ جنگ پر؛ تاہم ہماری فوجی تیاریاں اگلی جنگ روکنے کے لئے ہے۔ جب آپ جنگ کے لئے تیار ہوتے ہیں تو جنگ کو اپنے سے دور کر سکتے ہیں اور میں ایران کی تیاریوں اور آمادگیوں کی بات کر رہا ہوں اس لئے کہ دوبارہ جنگ نہ ہو۔
ہم نے پچھلی مرتبہ جنگ کو قابو کر لیا ورنہ اسرائیلی دشمن نے ہماری تنصیبات پر حملہ کرکے خلیج فارس تک جنگ پھیلانے کی کوشش کی، لیکن ہم نے جنگ کو نہیں پھیلنے دیا، اگلی جنگ کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
قطر، شام، لبنان اور یمن پر صہیونی حملے، عظیم تر اسرائیل قائم کرنے کا اعلان اور بہت سے عرب ممالک کی سرزمینوں کو للچائی نظروں سے دیکھنا، یہ وہ حقائق ہیں جنہیں خطے کے ممالک نے دیکھ لیا۔
ہمیں ایک ایسی ریاست کا سامنا ہے، چنانچہ ہمیں ہر طرح سے تیار رہنا چاہئے۔
ہم نے پچھلی جنگ میں اچھی ہمسائیگی کی پالیسی اختیار کر لي اور اس پالیسی کو تیزی سے فروغ دیا، اور اس سلسلے کو جنگ کے بعد بھی جاری رکھا اور آج خلیج فارس سمیت خطے کے ممالک کے بارے میں بہت ادراک پایا جاتا ہے اور پڑوسی ممالک سب ایک مشترکہ ادراک تک پہنچ سکے ہیں۔
ایک بڑی تبدیلی یہ تھی کہ پورا علاقہ اس یقین تک پہنچا ہے کہ اس کا اصل دشمن کون ہے اور ایران کے خلاف ماضی کی پروپیگنڈا مہم ناکام ہوچکی ہے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ مسٹر نیتن یاہو ایک جنگی مجرم ہے جس نے کسی بھی جرم سے دریغ نہیں کیا ہے لیکن اس نے ایک مثبت کام جو کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے جرائم اور عزائم کی وجہ سے آج پورا خطہ جانتا ہے کہ ان کا دشمن ایران نہیں بلکہ اسرائیل ہے۔
- الجزیرہ: آپ کو حال ہی میں صدر پوتن کے توسط سے نیتن یاہو کا ایک پیغام ملا تھا کہ نیتن یاہو ایران کے ساتھ نئی جنگ کا خواہاں نہیں ہے، آپ کا تجزیہ کیا ہے؟
* عراقچی: ہم اسرائیلی ریاست کے اہلکاروں کی کسی بات پر بھی اعتماد نہیں کرتے، فریب کا امکان نظر سے دور نہیں رکھتے، روسی دوستوں نے یہ پیغام ہمیں پہنچایا، لیکن ان [روسی حکام] کو خود بھی خود بھی نیتن یاہو کے کلام کی سچائی پر یقین نہيں تھا! چنانچہ ہم نے پیغام وصول کیا لیکن ہماری تیاریوں میں مزید اضافہ ہؤا۔
آپ کا تبصرہ