بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || بلاشبہ امن کا نوبل انعام 'انسان دوستی کی علامت' کا درجہ کھو چکا ہے اور اب بالادستی جتانے والی مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ، کے ہاتھ میں ایک 'نرم اوزار (Soft tool) بن گیا ہے۔ اب یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس انعام کی عطائیگی، منظم (Systematic) انداز سے مغرب کے غیر متحد ممالک کے اپوزیشن راہنماؤں کو دیا جاتا ہے چنانجہ اس کا مقصد امن کا عمل آگے بڑھانے کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ ان ممالک میں تقسیم کو گہرا کرنے، انہیں غیر مستحکم کرنے، مغرب نواز قوتوں کو مشروعیت (یا قانونی جواز Legitimacy) دینے اورحکومتوں کی تبدیلی کے لئے راہ ہموار کرنے کا ایک منظم طریقۂ کار ہے۔ [اپنے ملک کے اندر امن نوبل انعام جیتنے والوں پر ایک نظر دالئے]
وینزویلا اس کی تازہ ترین مثال ہے، جہاں یہ انعام حکومت تبدیل کرنے کا راستہ ہموار کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ ماریا کورینا ماچادو بھی وینزویلا میں حزبِ اختلاف کی رہنما ہیں، ان کا 2025 کا امن نوبل انعام جیتنا اس حقیقت کے ادراک کے لئے بہترین اشارہ ہے کہ یہ انعام ایک اوزار، ہتھیار اور ایک وسیلہ یا آلہ ہے مغربی استعمار کے ہاتھوں میں۔ کیونکہ ماچادو نے اپنے ملک یا کسی بھی دوسرے ملک میں امن کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ وہ یہ انعام اس لئے لے رہی ہیں کہ وہ اپنے ہی ملک اور عوام کے خلاف مغرب اور امریکہ کی جارحیت کا مطالبہ کر رہی ہیں اور اپنی ہی قوم پر مغربی پابندیوں کی حامی ہیں۔
نوبل کمیٹی نے بھی اپنے استعماری پروٹوکول کو صیغۂ راز میں نہیں رکھا بلکہ واضح طور پر کہا کہ اسے "امید ہے کہ یہ انعام وینزویلا میں آمریت سے جمہوریت کی طرف پرامن منتقلی کے لیے ضروری قوت و صلاحیت پیدا کرے گا۔" چنانچہ یہ ایک بظاہر امن کو فروغ کے حامی ادارے کی طرف سے اس ملک میں حکومت کی تبدیلی اور عدم استحکام کو تقویت دینے کی مغربی خواہش اور منصوبے کا اعلانیہ اظہار ہے۔
نوبل کمیٹی کا یہ بیان انعام کو امن کے انعام سے سیاسی منصوبہ سازی کے میکانزم اور "نرم طریقے سے حکومت کی تبدیلی" کی سہولت کاری میں بدل دیتا ہے۔ اس عمل کے جغرافیائی-سیاسی نتائج میں ہدف ملک (Target country) میں قانونی بحران پیدا کرنا اور بعد میں سفارتی مداخلتوں اور مزید پابندیوں کو آسان بنانا شامل ہے، جو ایک آزاد ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے مسلّمہ بین الاقوامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
منظم پیٹرن: نوبل انعام رنگین انقلابات کی خدمت میں
ماچادو کا نوبل انعام کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔ مغرب سے غیر ہم آہنگ ممالک میں سیاسی مخالفین کو نوبل امن انعام دینے کا پیٹرن حکومت کی تبدیلی کے مقاصد کے لئے 'ہدف معاشروں' (Target Societies) میں 'دو قطبیت' (Bipolarity) کو مضبوط کرنے اور قانونیت بخشنے کے لیے سیاسی انجینئرنگ کا ایک مستحکم رجحان ظاہر کرتا ہے۔
ایران سے شیرین عبادی 2003 میں اور نرگس محمدی 2023 میں، چین سے لیو زیاؤبو 2010 میں، روس سے دمیتری موراتوف 2021 میں، بیلاروس سے بیالیاتسکی 2022 میں نوبل انعام سے نوازا گیا اور ان تمام افراد کو نوبل انعام دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف امن اور استحکام کے خواہاں نہیں تھے، بلکہ ان کا مقصد تنازعہ اور اختلافات بڑھانا اور بالآخر عدم استحکام پیدا کرنا تھا۔
عالمی سطح پر ایسے افراد کو نوبل انعام سے نوازنا ملکی مخالفین کو جائز عالمی اداکاروں میں تبدیل کرتا ہے جو وسیع پیمانے پر مالی، ابلاغیاتی اور سفارتی حمایت حاصل کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ یہ پیٹرن "رنگین انقلاب" کی کامیابی کے لئے درکار حالات سے بالکل مطابقت رکھتا ہے، خاص طور پر "متحدہ اور منظم اپوزیشن" کے اہم جزو کو مضبوط بنا کر، جو سیاسی بحران پیدا کرنے کا ایک اہم عنصر ہے۔ دو قطبی بنانا (Bi-polarization) اعداد و شمار پر توجہ مرکوز کرکے، نوبل انعام جان بوجھ کر اندرونی تقسیم کو ہوا دیتا ہے۔
سی آئی اے کے منصوبوں کا نقش پا: دراندازی کے طریقہ کار اور نوبل کے آلاتی استعمال (Instrumental Use)
بلاشبہ یہ خیال کہ نوبل انعام مغربی خفیہ اداروں کے زیر اثر ہے، ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ دستاویزات موجود ہیں جو 1958 میں سوویت یونین کے خلاف روسی مصنف بورس پاسٹرناک (Boris Pasternak) کی کتاب "ڈاکٹر زواگو" (Doctor Zhivago) پر [پاسٹرناک کو] ادب کا نوبل انعام دینے میں امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی مداخلت کی نشاندہی کرتی ہیں۔
یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ سی آئی اے نے کافی عرصہ پہلے ہی نوبل انعامات کو حریف طاقتوں کے خلاف نفسیاتی جنگ (PsyOp) کے ایک اسٹراٹیجک اوزار کے طور پر پہچان لیا ہے اور استعمال کیا ہے۔
جس طرح سی آئی اے امریکہ کی ایک "خفیہ فوج" کے طور پر کام کرتی ہے اور عالمی سطح پر عدم استحکام پیدا کرنے میں اس کا ایک طویل پس مظر ہے، ـ جیسے 1961 میں کانگو میں پیٹرک لومومبا کا قتل یا ایران میں 1953 کی بغاوت ـ اسی طرح موجودہ دور میں نشانہ بننے والے ممالک (جیسے وینزویلا یا ایران) کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو کمزور کرنے کے لئے ایک معتبر عالمی انعام کا استعمال، مغرب کی غیر متناسب جنگ (Asymmetric warfare) کی حکمت عملی کا تسلسل ہے۔
ساختی منافقت (Structural hypocrisy): مغرب کے جرائم کی وائٹ واشنگ اور حقیقی امن پسندوں سے بے اعتنائی
نوبل امن فاؤنڈیشن میں منافقت کی سب سے واضح علامتوں میں سے ایک اس کا دوہرا معیار ہے۔
جنگ کے متوالوں کی وائٹ واشنگ
نوبل کمیٹی کا طاقت کی سیاست کو انعام دینے کا ایک طویل ریکارڈ ہے:
• ہنری کسنجر (1973): انہیں ویتنام میں جنگ بندی پر انعام دیا گیا، حالانکہ وہ خود لاطینی امریکہ میں فوجی مداخلتوں اور بغاوتوں کے معمار تھے اور امریکہ کی جنگ پسندانہ پالیسی کے ذمہ دار تھے۔ اس پر اتنا تنازعہ ہؤا کہ کمیٹی کے دو اراکین کو استعفیٰ دینا پڑا اور ناقدین نے اسے "نوبل وار پرائز" (Nobel War Prize) کا نام دیا۔
• شمعون پیریز (1994): اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام میں اس کے گہرے کردار اور فلسطینی عوام پر اس کے منظم جبر و ظلم اور ان کے قتل عام اور ان کی زمینوں پر قبضے کے باوجود اسے نوبل انعام دیا گیا، جس پر ناقدین نے کہا کہ یہ "انعام جنگی مجرموں کو سفید کرنے (White washing)" کے لئے صہیونی لابیز کے طاقتور اثر و رسوخ کا نتیجہ تھا۔
• بارک اوباما (2009): صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے محض 9 ماہ بعد انہیں "بین الاقوامی سفارت کاری کو مضبوط بنانے کی کوششوں" کے عنوان سے انعام دیا گیا، حالانکہ اس میدان میں ان کی بالکل کوئی کارکردگی نہیں تھی اور ان کے انعام وصول کرنے کے دوران ہی امریکی فوج افغانستان اور عراق سمیت متعدد جنگوں میں ملوث تھی اور مختلف جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی تھی۔
انسانی حقوق، جو بظاہر عالمگیر اصولوں میں سے ہیں، مغرب کی جانب سے [مغرب سے] غیر وابستہ ممالک میں مداخلت، ان پر پابندیوں اور دباؤ کو جواز فراہم کرنے کے لیے منتخب اور پروگرام کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔
امریکی صدر جمی کارٹر کو بھی اس سیاسی انعام سے نوازا گیا
اصولوں سے بے اعتنائی اور کھلا تضاد
نوبل انعام کے سیاسی ہونے کی سب سے کڑوی علامت ان امن پسندوں کو نظر انداز کرنے کے متعدد واقعات ہیں، جو مغربی طاقتوں اور ان کی لابیوں کے دائرہ کار سے باہر کام کرتے ہیں۔ اس میں مہاتما گاندی کو انعام نہ دینا بھی شامل ہے، جو سامراج کے خلاف پرامن اور عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کا حقیقی نمونہ تھے۔
یہ دوہرا معیار واضح طور پر ثابت کیا ہے کہ نوبل "طاقت" اور غلبے کو "اخلاقی اصولوں" اور حقیقی امن پر ترجیح دیتا ہے اور مغرب کے سیاسی اور معلوماتی اقدامات کو آگے بڑھانے میں اس کا ایک ثقافتی بازو بن کر رہ گیا ہے۔
انسانی حقوق، غلبے کا ایک ذریعہ
انسانی حقوق، جو بظاہر عالمگیر اصولوں میں سے ہیں، مغرب کی طرف سے منتخب اور مخصوص پروگرام کے تحت، غیر ہم آہنگ ممالک پر مداخلت، پابندیاں اور دباؤ کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ نوبل انعام مغرب کے خلاف مزاحمت کرنے والے ممالک (جیسے ایران، چین یا روس) میں سیاسی مخالفین کو مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے، جبکہ ایک ساتھ مغرب سے ہم آہنگ ممالک میں اخلاقی اصولوں اور امن کی کھلی خلاف ورزیوں پر خاموشی اختیار کرتا ہے، یوں یہ انعام مغربی سامراج کی پالیسیوں کے لیے ایک "#ریاکارانہ_پردے" کا کردار ادا کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: سید محمد حسین راجی
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ