19 نومبر 2025 - 20:41
دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، شکست اس کا مقدر ہے

سورہ انبیاء کی آیت نمبر 48 میں اللہ نے فرمایا: تمام جابر طاقتوں کا انجام واضح ہے۔ فرعون اپنی ظاہری ہیبت کے ساتھ ٹوٹ چکے اور مشرکین اپنی تمام دشمنی کے ساتھ شکست کھا گئے۔ یہ ایک الٰہی سنت ہے کہ حق کے خلاف کھڑا ہونے والا کوئی بھی محاذ، چاہے وہ طاقتور ہی کیوں نہ ہو، منہدم ہو جاتا ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سورہ انبیاء کی آیات 45 تا 57 کا مجموعہ حق و باطل کے محاذوں کے درمیان مسلسل تصادم بیان کرتا ہے۔ ایک ایسا تصادم جو انبیاء (علیہم السلام) کے دور سے شروع ہوئی اور قوموں کی تاریخ میں دہرائی گئی اور آج بھی میڈیا، ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی شکلوں میں جاری ہے۔

یہ آیات گہرے نقطہ نظر سے دشمنان حق کے رویے کے مستقل نمونوں کو عیاں کرتی ہیں اور انکار، تمسخر، دھمکیوں اور ضد کے خلاف انبیاء کی حکمت عملیوں کی وضاحت کرتی ہیں۔

آیت 45 اپنی بات ایک اہم نکتے سے شروع کرتی ہے: 'نبی صرف ایک ڈرانے والا [اور خبردار کرنے والا] ہے، اور ان کی آواز بند کانوں پر اثر نہیں کرتی ہے۔' اس کا مطلب ہے کہ دشمنی کا پہلا میدان نہ سننے کا میدان ہے۔ ضدی اور ہٹ دھرم سامعین کے پاس نہ تو دلائل اور ثبوتوں کی قلت ہوتی ہے اور نہ ہی بے خبر ہیں بلکہ، وہ سچ سننے کی مزاحمت کرتے ہیں۔ اس آیت کے پیش نظر دشمن سب سے پہلے حق کے ساتھ رابطے کا راستہ بند کرتا ہے اور نبی کے کلام کو حتی اثر کرنے کا موقع تک نہیں دیتا۔

دشمن لڑنے سے پہلے کان بند کر لیتا ہے

آیات 45 اور 46 واضح کرتی ہیں کہ حق کے انکار کی جڑ سماعت کے خوف میں پیوست ہے۔ اگر ان پر خدا کا تھوڑا سا عذاب بھی آ جائے تو وہ لوگ جو نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا مذاق اڑانے والے چیخنا چلانا شروع کریں گے اور اور پوچھیں گے کہ انہوں نے پیغمبر کی تنبیہات کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا؟ یہاں قرآن کی منطق واضح ہے کہ جو آج حق کے پیغام کا مذاق اڑائے گا وہ کل اسی حق کے سامنے بے دفاع اور نہتا ہوگا۔ ان کی دشمنی طاقت سے نہیں بلکہ جہالت اور پوشیدہ غرور سے جنم لیتی ہے۔

انکار جاہلوں کا عذر نہیں ہے۔ شعوری انتخاب ہے

آیت 47 میں، اللہ تعالی انصاف کے ترازو قائم کرنے کی بات کرتا ہے، جہاں [اچھے یا برے] انسانی اعمال کا ایک ذرہ بھی ضائع نہیں ہوگا۔ یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن دشمنوں کے انکار اور ان کے اعمال کی ذمہ داری کے درمیان کوئی لکیر نہیں کھینچتا۔

حق اور سچائی کے ساتھ دشمنی ایک شعوری انتخاب ہے اور ہر کسی کو اس انتخاب کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ انبیاء (علیہم السلام) ان کی طرف سے فیصلے نہیں کر سکتے۔ اس آیت میں ایک طرح کی تزویراتی تنبیہ بھی ہے: باطل محاذ بعض اوقات اپنی دشمنی کی ذمہ داری جہالت یا زمانے کے حالات پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن قرآن اس جواز کو قبول نہیں کرتا۔

دشمن جتنا بھی طاقتور ہو، شکست اس کا مقدر ہے

آیت 48 کے بعد سے، قرآن انبیاء (علیہم السلام) کے دشمنوں کے ساتھ مقابلوں کی ٹھوس مثالیں پیش کرتا ہے۔ پہلی مثال موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) ہیں، جنہیں حقائق روشن کرنے والی کتاب دی گئی تھی، اور اللہ نے نیک لوگوں کو فتح سے ہم کنار کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

یہ مرحلہ نہ بدلنے والی الہی سنت کی یاد دہانی ہے: ہم نے تاریخ میں فرعون سے زیادہ طاقتور دشمن نہیں دیکھا۔ لیکن یہ ظاہری طاقت خدا کے قطعی وعدے کے سامنے منہدم ہو گئی۔ انبیاء (علیہم السلام) دشمن کی غلبے کے سامنے، خوفزدہ نہیں ہوتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آخری فتح محاذ حق کی ہوگی۔

دشمن پر سب سے بڑی ضرب، اس کی فکر پر ضرب ہے

آیات 51 تا 57 مشرکین کے خلاف ابراہیم (علیہ السلام) کی کہانی بیان کرتی ہیں۔ ایک ایسی کہانی جو دشمن شناسی اور فکری مقابلے کے غروج کو عیاں کرتی ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) سب سے پہلے لوگوں کے عقائد کی جڑوں کو چھیڑتے ہیں۔ وہ انہیں دکھا دیتے ہیں کہ انہوں نے پتھر اور لکڑی کے جو بت بنائے ہیں نہ ان میں طاقت ہے، نہ وہ سنتے ہیں اور نہ ہی جواب دیتے ہیں۔

یہ تصادم محض جسمانی تصادم نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک گہری فکری جنگ ہے۔ آیت کا پیغام یہ ہے کہ جب دشمن عقلی طور پر بے بنیاد ہو جاتا ہے تو اس کی طاقت کا ڈھانچہ بھی منہدم ہو جاتا ہے۔

حق کے دشمنوں کے طریقہ کار کا ایک واضح نمونہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے درمیان ہونے والی گفتگو میں دیکھا جا سکتا ہے: وہ منطقی جواب دینے کے بجائے جذباتی اور تشدد آمیز رویے کا سہارا لیتے ہیں۔

یہ وہی نمونہ ہے جو دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کے دور میں دہرائی گئی اور آج بھی آوازوں کو خاموش کرنے [مخالف میڈیا پر پابندیاں لگانے، نامہ نگاروں کو قتل کرنے اور تشہیری مہمات چلانے]، حق اور سچائی کو سینسر کرنے، ابلاغیاتی تحریف کا سہارا لینے اور سماجی دباؤ کی صورت میں جاری ہے۔ جب دشمن کے پاس جواب نہیں ہوتا تو وہ غصے میں آتا ہے، اور جب اس کی منطق طشت از بام ہوتی ہے تو وہ دھمکیوں کا سہارا لیتا ہے۔

دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، شکست اس کا مقدر ہے

دشمن بظاہر مقدس علامتوں کا رخ کرتا ہے

ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ بتوں کو مقدس سمجھتے تھے اور ان پر کسی قسم کی تنقید کو اپنی شناخت کے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔ یہ بھی دشمنی کی ایک تاریخی روایت ہے: باطل محاذ ہمیشہ اپنی عدم مقبولیت چھپانے کے لئے ایسی علامتیں پیدا کرتا ہے تاکہ اپنی حق ناپذیری کو ان کے پیچھے نہاں کر سکے۔

ابراہیم (علیہ السلام) نے بے جان بتوں پر ضرب لگا کر نہ صرف علامتوں کو توڑ دیا بلکہ لوگوں کے خوف پیدا کرنے والے ڈھانچے کو ریزہ ریزہ کر دیا اور ثابت کرکے دکھایا کہ باطل خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، منطق کے سامنے شکست و ریخت کا شکار ہو جاتا ہے۔

دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، شکست اس کا مقدر ہے

باطل کا محاذ کھڑا نہیں رہ سکتا

آیات کے اس حصے کے آخر میں، قرآن بیان کرتا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ماضی کے لوگوں کی دشمنی جتنی بھی تھی، لیکن یہ دشمنی آخرکار شکست پر منتج ہوئی۔ انبیاء (علیہم السلام) نے مادی طاقت سے نہیں بلکہ کلمۂ حق اور صبر و استقامت یہ ہر زمانے کے لئے مسلسل دہرایا جانے والا قرآنی نمونہ ہے: جب بھی دشمن حق کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، خواہ وہ تھوڑی دیر کے لئے میدان میں ہی کیوں نہ رہے، وہ بالآخر فنا ہو جاتا ہے اور حق باقی رہتا ہے۔

 

قرآن کریم کے صفحہ 326 پر مندرجہ بالات آیات کی تلاوت سنیں اور دیکھیں:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: مہدی احمدی

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha