بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری ڈاکٹر علی لاریجانی نے کہا:
شہید کمانڈر حاج قاسم سلیمانی 33 روزہ جنگ کے پہلے ہفتے میں ایران آئے اور ہماری ان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اس شخص نے شہید سلیمانی سے کہا کہ "آپ میں مہم جوئی اور جنگ کا جذبہ ہے، اس جذبے کے ساتھ اس معاملے کو حل نہ کریں۔"
سید حسن نصراللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ مزاحمت جاری رکھنی چاہئے۔ جب ہم جناب سلیمانی کے ساتھ مشهد گئے اور رہبر معظم انقلاب کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو شہید سلیمانی نے ایک بار پھر زور دیا اور شہید نصراللہ کا دل مشن جاری رکھنے کے لئے مزید پرعزم ہوئے۔
ان کا مختلف مواقع پر ڈٹ کر کھڑا رہنا بالکل عیاں تھا۔ مثال کے طور پر، حزب اللہ کی سیاسی اور فوجی تربیت کے طریقہ کار کے معاملے میں، انھوں نے بروقت فیصلہ کیا۔ اس وقت حزب اللہ ایک چھوٹی سی تحریک تھی جس کی سرگرمیاں اپنے وطن کے دفاع کے لئے محدود سکیورٹی معاملات تک محدود تھیں۔ اگر موقع کو بروقت استعمال نہ کیا جاتا تو بعد میں ایسا فیصلہ کرنا ممکن نہ ہوتا اور یہ مختصر موقع اور نازک لمحہ بہت اہم تھا۔
جب شام کا بحران شروع ہؤا اور دہشت گردوں نے شدید کارروائیاں کیں، تو یہ واضح تھا کہ شامی حکومت کے پاس مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور عراقی نظام بھی اسی طرح کی صورت حال سے دوچار تھا۔ موصل جیسے شہر آسانی سے گر گئے تھے اور شام کا دارالحکومت غیر مستحکم حالت میں پہنچ گیا تھا۔ بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا کہ حزب اللہ اس بحران میں داخل نہ ہو، کیونکہ اس میں جانوں کا نقصان، مالی اخراجات اور اہم سہولیات کی فراہمی ـ پر آنے والے اخراجات ـ شامل تھے۔ خاص طور پر اس لئے کہ لبنان ایک ایسا ملک ہے جس میں بے شمار فرقے ہیں اور ہر کوئی اپنی رائے دیتا ہے۔
شروع میں کوئی واضح نتیجہ سامنے نہیں آیا، لیکن آخرکار، وقت گذرنے کے ساتھ، یہ مسائل بڑی حد تک ختم ہو گئے اور مخالف آوازیں کسی حد تک خاموش ہو گئیں۔ حزب اللہ کی موجودگی کے مستحکم ہونے میں کئی سال کا عرصہ لگا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شروع میں لبنانی فورسز وہاں تعینات ہوئیں، خاص طور پر چونکہ بہت سے لبنانیوں کے دلوں میں شامیوں کے لئے کوئی خاص محبت نہیں تھی، کیونکہ شام نے اس سے پہلے دارالحکومت بیروت کے کچھ حصوں کو اپنے کنٹرول میں رکھا تھا۔
انہوں نے لبنان کی سلامتی کو یقینی بنایا۔ دہشت گرد آتے اور لبنان کی سرحد تک پہنچ جاتے تھے اور ان کے خیال میں چھوٹے سے ملک لبنان پر رحم کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، جبکہ شام جیسے بڑے ملک کو انہوں نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ جناب حسن نصراللہ نے وسیع نقطہ نظر اور وقت و مقام کے صحیح استعمال کے ساتھ فیصلہ کیا کہ وہ آگے بڑھیں اور ان قوتوں کو لبنان کی حدود میں داخل نہ ہونے دیں اور یوں انھوں نے عملی طور پر لبنان کی قومی سلامتی کو یقینی بنایا۔
شہید حسن نصراللہ ایک روحانی شخصیت کے مالک تھے
ان کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ اخلاق حسنہ اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ بہت سے سیاسی رہنما صحیح فیصلے لیتے ہیں لیکن ان میں پرکشش اور مؤثر شخصیت نہیں ہوتی اور وہ زیادہ تر اپنی ذات کو بڑا بنانے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ مثال کے طور پر، مسٹر ٹرمپ اگرچہ عالمی امن کی بات کرتے ہیں لیکن ان کی شخصیت میں کوئی کشش نہیں ہے۔ اس کے برعکس، امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) جیسے رہنما، جو اپنے تمام اقدامات خدا کے لئے کرتے تھے، یا رہبر معظم انقلاب (حفظہ اللہ)، جن کا کوئی بھی عمل اپنے لئے نہیں ہوتا اور ان کی تمام کوششیں ایثار اور قربانی کے لئے ہوتے ہیں، خاص قسم کی کشش رکھتے ہیں۔ شہید حسن نصراللہ بھی ایسے ہی تھے۔ ان کی ایک روحانی شخصیت تھی، عاجزی اور انکساری سے بھرپور، اور ایک ایسی شادابی اور کشش جو دوسروں کے ساتھ بات چیت میں محسوس ہوتی تھی۔
شہید حسن نصراللہ کبھی کبھی روحانی اور عارفانہ کیفیت ظاہر کرتے تھے اور بہت منکسر المزاج تھے۔ بہت سے لوگوں کے خیال کے برعکس جو انہیں صرف ان کی تقاریر کے جوش و جذبے سے جانتے ہیں، جب آپ ان کے پاس بیٹھتے تھے تو وہ ایک بالکل عام اور پرسکون انسان کی طرح بات چیت کرتے تھے۔ اس نقطہ نظر سے، ان کی شخصیت بہت پرکشش تھی۔ اس قسم کے رہنما جو گہری سوچ رکھتے ہیں، مشورہ کرنے والے اور عقلی سوچ کے حامل ہیں، جب وہ ان کی شخصیت روحانیت کے ساتھ ممزوج ہوجاتی تھی تو ان کی کشش اور اثر میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا تھا۔
ایک، دو، تین بار شہید مغنیہ کے ساتھ ہمارے گھر آئے اور ہم شام کے کھانے پر ان کے میزبان تھے۔ ان دنوں استاد شہید مطہری کی اہلیہ بھی بقید حیات تھیں اور ہم وہاں بیٹھ کر بات چیت کرتے تھے۔ جناب سلیمانی بھی موجود تھے اور ہمارا آنا جانا رہتا تھا اور ہم باہم بہت قریبی تھے۔ میری ان کے حوالے سے بہت سی نمایاں یادیں ہیں۔ ہماری ملاقاتیں لبنان، خطے اور ایران کے مسائل کے ساتھ ساتھ دیگر مختلف موضوعات ـ جیسے دینی مدرسوں اور حوزات علمیہ سے متعلق باتوں ـ سے مالامال تھے۔
شہید نصراللہ کو ایران کی بہت فکر رہتی تھی۔
ان ملاقاتوں کا ایک نمایاں پہلو ایران کے بارے میں ان کی شدید فکرمندی تھی۔ ملک میں ہونے والے چھوٹے چھوٹے واقعات بھی ان کے ذہن کو مصروف کر دیتے تھے اور وہ خطے کے مختلف واقعات کو بخوبی آپس میں جوڑتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کبھی کبھی عراق کے حوالے سے کچھ واقعات پیش آتے تھے اور وہ فوری طور پر ان کا تجزیہ کرتے اور پوچھتے: "آپ کا کیا تجزیہ ہے؟ یہ واقعہ کیوں پیش آیا؟" اور اسی طرح کی ملاقاتوں میں ان مسائل پر بحث ہوتی تھی۔
حزب اللہ ایک گہری جڑوں والی تحریک اور اس کا کردار واقعی مجاہدانہ ہے
یہ بات قابل انکار نہیں ہے کہ حزب اللہ کو نقصان پہنچا ہے۔ بالآخر یہ ایک مزاحمتی تحریک ہے جس کے کچھ رہناؤں کو شہید کر دیا گیا، یہ ایک نقصان ہے۔ شہید حسن نصراللہ ایشی کرشماتی شخصیت تھے کہ حزب اللہ کی پوری تحریک روحانی طور پر ان سے متاثر تھی، لہٰذا یہ واقعی ایک بہت بڑا نقصان تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ