21 ستمبر 2025 - 18:42
مزید 'مغربی بلاک' نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی، فارن افیئرز

امریکی میگزین نے ایک رپورٹ میں لکھا: "اس حقیقت کے پیش نظر کہ ٹرمپ نے مغربی یکجہتی پر انتہائی کاری ضرب لگا دی ہے، مزید 'مغربی بلاک' نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے، اور دنیا کو دشمنیاں اور جنگیں درپیش ہیں۔"

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || فارن افیئرز میگزین نے ایک رپورٹ میں اس واقعات کا جائزہ لیا ہے جو ٹرمپ کے دور صدارت میں دنیا کو درپیش ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے: "ان دنوں 'مغرب[ی بالادستی] کے بعد کی دنیا' میں رہنے کے بارے میں بات کرنا عام ہو گیا ہے۔ تجزیہ کار عام طور پر اس جملے کو غیر مغربی طاقتوں ـ خاص طور پر چین، بلکہ برازیل، ہندوستان، انڈونیشیا، ترکی اور خلیج فارس کی ریاستوں کے لئے ـ کے عروج کے لئے استعمال کرتے ہیں؛ لیکن 'دوسروں کے عروج' کے ساتھ ساتھ، ایک گہرا رجحان بھی پایا جاتا ہے: خود ایک مربوط اور بامعنی جغرافیائی-سیاسی اکائی کے طور پر "مغرب" کے خاتمے کا رجحان۔ مغرب، ایک متحدہ سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی کمیونٹی کے طور پر، کچھ عرصے سے شدید دباؤ کا شکار ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دور صدارت اس کمیونٹی پر آخری وار ثابت ہو سکتا ہے۔"

دوسری جنگ عظیم کے بعد کا ورثہ

"دوسری جنگ عظیم کے بعد، ترقی یافتہ معاشی جمہوریتوں کے ایک کلب نے، قواعد پر مبنی، ایک لبرل بین الاقوامی نظام قائم کیا۔ گروپ کی توجہ نہ صرف مشترکہ خطرات پر مرکوز تھی بلکہ آزاد دنیا کے لئے مشترکہ عزم پر بھی مبنی تھی، جس کی بنیاد لبرل تجارت اور اس نظام (Order) کے اجتماعی دفاع پر استوار تھی۔ کلب کے اصل ارکان میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، یورپی یونین کے ارکان اور ایشیائی اتحادی جیسے جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل تھے۔ ان ممالک نے سرد جنگ کے دوران "آزاد دنیا" کا مرکز بنایا، اور بعد میں مغرب کی سرحدیں پھیل گئیں، کچھ مشرقی بلاک کے ممالک اور سابق سوویت جمہوریائیں نیٹو اور یورپی یونین میں شامل ہوئیں۔

گذشتہ 80 سالوں میں، مغربی ممالک نے مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے لئے متعدد ادارے قائم کیے ہیں: نیٹو، G7، یورپی یونین، اور اقتصادی تعاون اور ترقی کی انجمن (OECD)۔ (1) انہوں نے اپنی پالیسیوں کو وسیع تر فریم ورک ـ جیسے اقوام متحدہ، عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF)، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO)، اور 7 کا گروہ (G7) کے اندر بھی مربوط کیا ہے۔

مغربیوں کے لئے ٹرمپزم کے نام کا ایک چیلنج

بلاشبہ، اختلافات ہمیشہ رہے ہیں – سویز بحران (1956) اور ڈی گال کے نیٹو کے ڈھانچے کو چیلنج کرنے سے لے کر 1980 کے یورو میزائل بحران اور 2003 میں عراق جنگ پر اختلافات تک۔ لیکن ان میں سے کسی بھی واقعے نے مغربی ہم آہنگی کو اتنا چیلنج نہیں کیا جتنا کہ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی نے اس کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

ٹرمپ کی مغربی ہم آہنگی پر کاری ضرب

اپنی دوسری مدت کے آغاز کے بعد سے، ٹرمپ نے پوری صراحت سے "امریکہ فرسٹ" کے تحت خارجہ، اقتصادی اور سلامتی کی پالیسی پر عمل کیا ہے۔ اس کا نقطہ نظر قوم پرستانہ، یکطرفہ، تجارت میں قدامت پسند اور خالصتاً 'لین دین پر مبنی' ہے۔ پچھلے صدور کے برعکس، وہ امریکہ کی عالمی قیادت یا اس کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے بارے میں بہت کم بات کرتے ہیں۔ وہ اتحادوں، کثیرالجہتیت اور بین الاقوامی قانون کو مسترد کرتے ہیں، اور جمہوریت اور انسانی حقوق سے لاتعلق ہیں۔ یہ عمومی عوامی مفادات ـ جیسے آزاد تجارت، مالی استحکام، موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے لئے امریکی کردار کو بھی مسترد کرتے ہیں۔

وہ مغرب اب موجود نہیں رہا جسے کہ ہم جانتے تھے

نقطہ نظر میں اس تبدیلی نے امریکہ کے قریبی اتحادیوں کو دھچکا لگایا ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے اپریل میں اعلان کیا کہ "وہ مغرب اب موجود نہیں رہا جسے کہ ہم جانتے تھے" اگرچہ G7 اور نیٹو کے سربراہی اجلاسوں میں مغربی رہنما خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعے حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے آئے ہیں، لیکن عام نظریہ یہ ہے کہ اس بار معاملات واقعی مختلف ہیں۔

مغرب کے زوال، قواعد پر مبنی بین الاقوامی ترتیب، تاریخی لنگر کے بغیر، بے سروسامان رہ جائے گی۔ لبرل اقدار جو جغرافیائی-سیاسی مغرب کی ریڑھ کی ہڈی تھیں، اپنی جگہ قوم پرستی اور دوسروں کے خوف، کو دیں گے۔ یہ صورت حال آمرانہ طاقتوں کے ذریعے چلنے والی ایک قسم کی "غیر جمہوری کثیرالجہتیت" کو جنم دے سکتا ہے۔

سوویت یونین سے نمٹنے کے لئے مغربی بلاک کی تشکیل کی بنیاد

سرد جنگ کے دوران، مغرب سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لئے جمہوریتوں کے ایک مربوط بلاک کے طور پر ابھرا۔ اگرچہ دوسری جنگ عظیم میں امریکی منصوبہ سازوں نے ایسے عالمی نظام کا خواب دیکھا تھا جس کی بنیاد بڑی طاقتوں کے درمیان سب ہی کی رکنیت اور تعاون پر استوار تھی، لیکن سوویت یونین کے ساتھ محاذ آرائی نے اس خیال کو تباہ کر دیا۔ چنانچہ امریکہ نے 'کمیونزم کو لگام دینے' کی پالیسی اپنائی اور اور 'جیوپولیٹیکل مغرب" کو نیٹو اور OECD جیسے اداروں کے سانچے ڈھال دیا۔

اس بلاک نے جمہوریت اور سرمایہ داری کے سہارے یکجہتی پائی۔ یہاں تک کہ نیٹو کا چارٹر (1949) اپنے ارکان کی آزادی، مشترکہ ورثے، اور جمہوریت کے اصولوں اور قانون کی حکمرانی پر زور دیتا ہے۔ اگرچہ امریکہ غالب طاقت تھا لیکن اس نے مشاورتی انداز میں قیادت کی۔ جیسا کہ مؤرخ گیئر لنڈسٹاد نے کہا ہے، یہ ایک "دعوت کے نتیجے میں آنے والی سلطنت" تھی۔

سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد مغرب کا وجود برقرار رہا۔ بہت سے لبرل اقدار عالمگیر بننے کی توقع رکھتے تھے، لیکن عملی طور پر ہم نے "دوسروں کا عروج" دیکھا: ابھرتی ہوئی طاقتیں جنہوں نے نہ صرف عالمی اداروں میں اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش کی بلکہ ان کے بنیادی اصولوں کو بھی چیلنج کیا۔

مزید 'مغربی بلاک' نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی، فارن افیئرز

ایران کی جوہری تنصیبات پر ٹرمپ کی یکطرفہ جارحیت کے بعد دراڑوں میں اضافہ

اس کے اتار چڑھاؤ کے باوجود، مغربی ہم آہنگی کو ٹرمپ کی پہلی ہنگامہ خیز مدت کے بعد بھی برقرار رکھا گیا تھا اور جو بائیڈن کے تحت اسے دوبارہ زندہ کیا گیا تھا۔ لیکن اب، ٹرمپ کی دوسری مدت کے آٹھ ماہ بعد، یہ اعتماد ٹوٹ چکا ہے۔ انھوں نے اتحادیوں کو بھاری محصولات اور دفاعی اخراجات میں اضافے کے لئے دباؤ ڈال کر ہراساں کیا ہے، اور یہاں تک کہ یکطرفہ طور پر ایران کی جوہری تنصیبات پر غیر قانونی حملہ کیا ہے۔

امریکہ پر یورپی اعتماد زائل ہوچکا ہے

یورپ میں امریکہ کے بارے میں رائے عامہ شدید منفی ہو گئی ہے۔ صرف 28% لوگ امریکہ کو "کسی حد تک قابل اعتماد" سمجھتے ہیں، جبکہ ایک سال قبل یہ عدد 75٪ تھی۔

اس صورتحال کا سب سے بڑا شکار گروپ آف سیون (G7) ہے جو ہمیشہ مغربی ہم آہنگی کی علامت رہا ہے۔ ٹرمپ نے بارہا اس گروپ کی تذلیل کی ہے، اور اب بہت سے لوگ اسے "گروپ آف 6+1" کہتے ہیں۔ اس رجحان نے گروپ کے اراکین کو نئے شراکت داروں کی تلاش میں، ابھرتی ہوئی درمیانی طاقتوں ـ جیسے کہ برازیل، ہندوستان، انڈونیشیا، اور جنوبی افریقہ ـ کی طرف رخ کرنے پر مجبور کیا ہے۔

مغرب کا زوال ٹرمپ کی دوسری مدت میں

ٹرمپ اپنی پہلی مدت میں کبھی کبھی "مغرب" کی بات کرتے تھے، لیکن ان کا تاثر 'لبرل-سیاسی' سے زیادہ 'نسلی-تہذیبی' تھا۔ اب مغرب کا مفہوم بدل رہا ہے: 'جیو-پولیٹیکل اور نظریاتی ہم آہنگی' سے ایک 'مبہم، تہذیبی' تعریف کی طرف۔

دریں اثنا، ترقی یافتہ جمہوریتوں میں اندرونی قطب بندیوں (Polarizations) اور دراڑوں میں بھی اضافہ ہؤا ہے۔ قدامت پسند قوم پرستوں اور آفاقی ترقی پسندوں کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے، یہاں تک کہ خود 'مغرب' کے معنی پر بھی۔ میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں، امریکی نائب صدر نے یورپ میں "بیداری کی حدبندیوں" پر حملہ کرکے زیادہ تر سامعین کو ناراض کیا اور اس تقسیم کو مزید ننگا کردیا۔

جیسے جیسے مغرب ٹوٹ رہا ہے، دشمنی اور تصادم کی دنیا درپیش ہے

کئی دہائیوں سے، دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتیں بحرانوں میں متحد تھیں، انسانی حقوق کا دفاع کرتی تھیں، اور بین الاقوامی اداروں میں مربوط اور ہم آہنگ تھیں۔ لیکن اب، جیسا کہ مغرب ایک جغرافیائی-سیاسی وجود کے طور پر ٹوٹ چکا ہے، امریکہ اور اس کے سابق شراکت دار اکثر، دو مخالف محاذوں میں کھڑے ہیں۔ یہ محض امریکی بالادستی کے زوال کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ مشترکہ اقدار کو ترک کرنے اور اندرونی طور پر ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا بھی ثمرہ ہے۔

مغرب، ـ جو کہ سنہ 1940ع‍ کی دہائی سے عالمی نظام کی بنیاد ہے، ـ امن کا علاقہ تھا۔ اس کے ارکان کبھی ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہیں کرتے تھے۔ اب، جیسے ہی یہ ٹوٹ چکا، شکوک و شبہات، دشمنی اور تنازعات کی دنیا منتظر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ "انجمن اقتصادی تعاون  ترقی" (Organisation for Economic Co-operation and Development [OECD])

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha