بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، اردن کے مصنف الیاس الفاخوری نے ایک مضمون میں لکھا ہے جس کا عنوان ہے "جلد ٹرمپ کہیں گے: میں خدا ہوں"؛ وہ لکھتے ہیں:
اس جملے کا اظہار فرانسیسی فلسفی فرانسوا بورگا نے طنزیہ لہجے میں کیا ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں: "اللہ سب سے پہلا مزاحمت کار ہے، بہترین ناموں اور کامل ترین اعمال کے ساتھ؛ اللہ کا اپنا حزب ہے اور اپنے اتحادی ہیں۔"
بورگا ایک چبھتا ہؤا سوال اٹھا کر لکھتے ہیں: "ڈونلڈ ٹرمپ کب کہیں گے... میں خدا ہوں؟!"
کیا خدا کو اپنا اختیار ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کے حوالے کرنے کے لئے اغوا کرکے قید کیا گیا ہے؟
کس کے فائدے کے لئے جہنم کو اس علاقے میں منتقل کیا جا رہا ہے جو کبھی آدم اور حوا کی میزبانی کرتا تھا؟ یہ کونسی کتاب میں کہا گیا ہے؟
کیا ہیروشیما اور ناگاساکی کے دو بموں سے امریکی سلطنت نے جہنم کو دوبارہ نہیں بنایا؟
کیا انہوں نے اس سرزمین کے مقامی امریکیوں، ان ہی سرخ فاموں (Red Indians) کے لئے جہنم نہیں بنایا؟
ان سوالوں کے جواب میں الفاخوری نے کلام الٰہی اور سورۃ المجادلہ کی آیت نمبر 19 اور پھر انجیل کا حوالہ دیا ہے: "شیطان نے ان پر غلبہ اور تسلط حاصل کر لیا، اس ئے انہیں خدا کی یاد سے غافل کر دیا، یہ شیطان کی جماعت ہیں، آگاہ رہو کہ شیطان کا گروہ گھاٹا اٹھانے والا ہے۔"
یا، ابلیس یسوع مسیح کو ایک اونچے پہاڑ پر لے گیا اور اسے دنیا کی تمام سلطنتیں اور ان کی شان و شوکت دکھاتے ہوئے کہا: "یہ سب میں تمہیں دوں گا، اگر تم گر کر میرے سجدہ کرو گے"۔ (متی 4:9)۔
لیکن ہمارا جواب واضح ہے: "انسان کی عظمت اور سچائی پر ایمان کے خلاف کوئی شان، کوئی طاقت، کوئی تاج سجدے کے لائق نہیں ہے۔ کتنا خوبصورت ہے امام حسین (علیہ السلام) کی وہ دائمی فریاد: "هیهات منا الذلة!؛ دور ہم سے ذلت۔"
یہودیائی گئی عیسائیت!
اور ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ مغرب نے ـ اپنے پوپوں، بادشاہوں اور اشرافیہ کے ساتھ ـ عیسائیت کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جب تک کہ اس نے عیسائیت پر تورات اور تلمود کی تعلیمات سے بمباری نہیں کی اور اسے تشدد کی طرف دھکیل نہیں دیا؛ یوں 'تشدد' ایسا جو 'طاقت کا نظریہ' بن گیا، اور یوں اس [مغرب] نے مذہب کو ادارہ بنانے اور عیسائیت کو ایک مذہبی ادارے اور تسلط پسند قانون میں تبدیل کرنے کے لئے بائبل (نئے عہد نامہ) کو تورات سے جوڑ دیا۔ ایک ایسی شریعت جو تجارت، استحصال اور منافع پرستی اور دولت کی تقدیس و تعظیم کرتی ہے، اور انفرادی ضمیر اور انسانی محبت کو اس پر قربان کر دیا۔
اور اس طرح، "یہوواہ"ـ جنگ، موت، تسلط، اثر و رسوخ، تباہی، نفرت، دوسرے کے خاتمے، طاقت اور دولت کا دیوتا ـ نے فاتحانہ انداز سے "زندگی، امن، محبت، معافی، خوشحالی، سلامتی، رواداری، اور سنت پرستی کے مسیح کو" شکست دے دی۔ یہ "عیسائیت کو یہودیانے" کا عمل تھا۔ پابرہنہ مسیح پر ہیروشیما اور ناگاساکی کی فتح۔ اور پھر، فلسطین پر قبضہ سفید فام لوگوں کے امریکہ کے قبضے کے ساتھ ہوا۔ جس طرح تورات کا وزن بائبل پر بہت زیادہ ہے، اسی طرح اسرائیل امریکہ اور دنیا پر بہت زیادہ وزن رکھتا ہے۔
وہ عیسیٰ جو فلسطینی تھے، فلسطین میں پیدا ہوئے، فلسطین میں رہتے تھے، فلسطین میں سولی پر چڑھائے گئے [اور مبینہ طور پر] شہید کئے گئے، فلسطین میں موت سے جی اٹھے، اور فلسطین میں مردوں کو جلایا، اور نہ صرف موت پر بلکہ ان یہودی کاہنوں اور سرغنوں پر فتح اور غلبے کا اعلان کیا جو انہيں مار دینا چاہتے تھے۔ کیونکہ وہ نجات دہندہ مسیحا ہیں؛ جو ان [یہودیوں] کے احکامات کی تعمیل نہیں کرتے اور ان کے قوانین کا بوجھ نہیں اٹھاتے۔ (یوحنا 5:18)۔
یہاں، ایک کو یاد کرنا چاہئے "یہودا اسکریوتی" کو؛ جس نے عیسیٰ سے غداری کی اور انہیں پکڑوایا اور ان لوگوں کے حوالے کر دیا جو ان کی موت کی خواہش رکھتے تھے (لوقا 3:22-6)۔
غزہ کے بچے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح فاتح ہیں
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح فلسطینیوں اور غزہ کے بچوں کے نمونوں سے ثابت ہؤا کہ خون تلوار پر، صلیب پر، کیل پر، نیزے پر، ہتھوڑے پر، کوڑے پر، کانٹے پر، پھندے پر، 'سرکے اور چاندی کے 30 سکوں پر فتح مند ہے۔ جس طرح کہ فلسطینیوں، غزہ کے باسیوں اور تمام میدانوں میں خدا کے تمام مَردوں نے امید کی راہیں کھول دیں مایوسی سے دور۔
لہٰذا، "ڈیانا الفاخوری کی وصیت کو عملی جامہ پہنا دو"، جس نے "اسرائیل" کے خاتمے کے لئے نہ صرف گھنٹا (Gong) بجایا، بلکہ مینار اور گھنٹے بجائے، اسرائیل کے خاتمے کے لئے، تاکہ تم تاریخ کے مہلک گناہ اور جغرافئے کے حادثاتی گناہ کو زائل کر دو۔ تنبیہ کا گھنٹا بجایا گیا پیشیمانی اور اظہار افسوس کے لئے نہیں؛ اس لئے کہ ایسا نہ ہو کہ تم "اپنے کیے پر پچھتاؤ"؛ (اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کر لیا کرو، کہیں (ایسا نہ ہو کہ) نادانی میں تم کسی قوم کو نقصان پہنچا دو پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔ الحجرات- 6)
یا "جو کچھ تم نے اپنے دلوں میں چھپا رکھا ہے اس پر افسوس کرو" (ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ کہیں ہم پر کوئی گردش نہ آ پڑے، پس قریب ہے کہ اللہ فتح دے یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے پھر یہ لوگ اپنے اندر چھپائے ہوئے نفاق پر نادم ہوں گے۔ المائدہ- 52)، یا "اللہ تعالیٰ اسے ان کے دلوں میں ندامت کا سبب بنا دے" (اے ایمان والو! کافروں کی طرح نہ ہونا جو اپنے عزیز و اقارب سے، جب وہ سفر یا جنگ پر جاتے ہیں تو کہتے ہیں : اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے، اللہ ایسی باتوں کو ان کے دلوں میں حسرت پیدا کرنے کے لیے سبب بنا دیتا ہے، ورنہ حقیقتاً مارنے اور جلانے والا تو اللہ ہی ہے۔ آل عمران- 156)
یا "ان کے لئے ندامت ہو اور پھر وہ شکست کھا جائیں" (جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ اپنے اموال (لوگوں کو) راہ خدا سے روکنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، ابھی مزید خرچ کرتے رہیں گے پھر یہی بات ان کے لیے باعث حسرت بنے گی پھر وہ مغلوب ہوں گے اور کفر کرنے والے جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔ انفال- 36)
یا وہ کہتے ہیں کہ ہائے افسوس ہماری اس چیز پر جو ہم کھو گئے (جب ان پر اچانک قیامت آ جائے گی تو (یہی لوگ) کہیں گے: افسوس ہم نے اس میں کتنی کوتاہی کی اور اس وقت وہ اپنے گناہوں کا بوجھ اپنی پیٹھوں پر لادے ہوئے ہوں گے،دیکھو کتنا برا ہے یہ بوجھ جو یہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ الانعام- 31)۔
یا جس طرح کہ پطرس رسول نے کہا تھا: "ہوشیار رہو اور بیدار، کیونکہ تمہارا دشمن شیطان، گرجنے والے شیر کی طرح، ڈھونڈتا پھرتا ہے کسی کو نگلنے کے لئے۔"
پھر ان گلوں، گھروں اور دروازوں پر صلیب لٹکانے کا کیا فائدہ، اگر ہم اسے غزہ، بیت المقدس، شام، لبنان، عراق اور یمن کے مظلوموں، ستم رسیدہ انسانوں، محروموں، لٹے پٹے اور صلیب پر چڑھائے گئے لوگوں کے ساتھ نہ لے کر جائیں گے، تاکہ ایک بار پھر خون تلوار پر فتح پا جائے؟
مسیح نے خون کی قیمت ادا کی اور انہیں [یہودی سازشیوں کے ہاتھوں ظاہری طور پر] صلیب پر شہید کیا گیا۔ کیونکہ وہ کاتبوں، فریسیوں اور کاہنوں (یعنی یہودی رہنماؤں) کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ان پر بدعنوانی کا الزام لگایا۔ انھوں نے ان کے قانون کو ـ محبت، عاجزی، سماجی انصاف اور ـ دوسروں کے لئے قربانی پر مبنی قانون سے بدل دیا۔
مسیح کی شہادت (یعنی معراج) یہودی نسل پرستی کی تباہی اور ان قوانین کے خاتمے کا آغاز تھی جو "خون کی پاکیزگی" اور "خدا کی منتخب قوم" کے دعوے پر مبنی تھے؛ جبکہ آج کی "جھوٹی ہستی" میں خون کے رشتوں (کسی بھی خون) اور قوم (کسی بھی قوم) کے عناصر کا فقدان ہے۔
توبہ نہ کرو اور افسوس کا اظہار نہ کرو۔ انجیر کے سبز درخت کی طرح نہ بنو جس کے پتے ہوں لیکن پھل نہ ہوں۔ وہی درخت جس پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ـ اس کی دھوکہ دہی کی وجہ سے ـ لعنت بھیجی تھی اور اس کے ساتھ وہ تمام لوگ جو عبادات کی پابندی کرتے ہیں لیکن پھل نہیں لا سکتے: انصاف کا پھل، رحم اور سچائی کا پھل۔
جو چرچ غزہ کے لئے کھڑا نہیں ہوتا وہ عیسیٰ کا چرچ نہیں ہے
ایک چرچ جو جائز مزاحمت کے لئے کھڑا نہیں ہوتا، غزہ کے لئے، فلسطین کے لئے، اور تمام مظلوم مصلوبین کے لئے، مسیح کا کلیسا نہیں ہے۔ یہ اسی ہیکل کی توسیع ہے جس کی میزیں مسیح نے الٹ دی تھیں۔ کیونکہ "ظلم کے مقابلے میں غیر جانبداری، غداری ہے" اور یہ وہی تھے جنہوں نے ہمیں سکھایا: "حق اور سچائی کی گواہی دو، اور حق تمہیں آزاد کر دے گا۔"
اردنی مصنف یاددہانی کراتے ہیں کہ مسیح یہودیوں کی مذہبی بدعنوانی کے خلاف طاقت اور مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے عبادت گاہ کو تجارت اور لالچ میں تبدیل کرنے پر پادریوں کی سرزنش کی، اور انھوں نے انہیں کوڑے مار کر ہیکل سے باہر نکال دیا۔ یہ کارروائی مذہب کی تحریف اور تسلط کی خواہش کے خلاف مزاحمت کی علامت تھی۔
انھوں نے فریسیوں اور صدوقیوں پر بھی تنقید کی، جنہوں نے قانون کو طاقت و اقتدار کا ذریعہ بنا دیا اور انصاف اور محبت کے جذبے کو مذہبی رسم پرستی یا ہیئت پرستی (Formalism) پر قربان کر دیا۔
مسیح نے بیابان میں شیطان کا مقابلہ کیا اور چالیس روز تک روزہ داری کے ذریعے انسانیت کے لئے روحانی فتح حاصل کی۔ یہ روزہ برائی اور غلاظت کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گیا جس طرح آج غزہ اور فلسطین کے لوگ روٹی کے ایک ٹکڑے کے ساتھ، مستقل روزے کی حالت میں، ظلم کے خلاف کھڑے ہیں۔
اپنے جی اُٹھنے کے ساتھ، مسیح نے جدوجہد کا ایک نیا مرحلہ شروع کیا؛ بدعنوانی، بغاوت اور دین کی تحریف کے خلاف جدوجہد۔ جرات، منطق اور حکمت سے انھوں نے باغیوں کو شکست دی اور انسانیت کو اقتدار کے متلاشیوں کے تسلط سے آزاد کرنے کا راستہ کھولا۔
فاخوری نے اس بات پر زور دیا کہ اس راہ میں، اللہ اپنے خوبصورت ناموں اور کامل اعمال کے ساتھ پہلے مزاحمت کار کے طور پر، ظلم اور استبداد کے خلاف لڑنے کا نمونہ ہے۔ اللہ کی جماعت فاتح جماعت ہے۔ اور انسان خدائی صفات سے چمٹے رہ کر ظالموں کا مقابلہ کرنے کی طاقت پاتا ہے۔
قرآن کی آیات اور احادیثِ نبوی مظلوم کے دفاع اور جارحین کا مقابلہ کرنے کے جواز کی تصدیق کرتی ہیں۔ خدا کی راہ میں جہاد سے لے کر مال، دین، خون اور خاندان کے دفاع تک، ہر کوئی جائز مزاحمت کی راہ پر گامزن ہے۔ لہٰذا ظلم کے خلاف جنگ کی دعوت دینا نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ سب سے بڑی برائیوں کے خلاف انسانی ردعمل بھی ہے۔ اور اس کے سامنے غیر جانبداری 'حقیقت و سچائی، انصاف اور ایمان کے ساتھ غداری' ہے۔
اللہ کا اپنا حزب اور اپنے اتحادی ہیں۔
مصنف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ حتمی فاتح غزہ اور فلسطین کے مظلوم لوگوں کے لئے ہے، اور اپنی تحریر کا خاتمہ 'مسلمانوں سے خاص طور پر غزہ، قدس، شام، لبنان، عراق اور یمن کو ترک نہ کرنے پر زور دے کر' کیا۔
جابر بن عبداللہ اور ابو طلحہ انصاری (رضی اللہ عنہما) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "کوئی شخص کسی مسلمان کو ایسی جگہ نہ چھوڑے جہاں اس کی حرمت پامال ہو اور اس کی عزت مجروح ہو، ورنہ اللہ تعالیٰ اسے ایسی جگہ تنہا چھوڑے گا جہاں اسے مدد کی امید ہو؛ جو شخص کسی مسلمان کی ایسی حالت میں مدد کرے گا، اللہ تعالیٰ بھی اس کی ایسی جگہ مدد کرے گا جہاں اس کو مدد کی ضرورت ہو۔
قبر کا عذاب اس کا منتظر ہے جو مظلوم کے پاس سے گذرتا ہے اور اس کی مدد نہیں کرتا۔
اور جو شخص جہاد کو ترک کرے گا، اللہ تعالیٰ اس پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جو اس سے کبھی دور نہ ہو گی۔
جائز مقاومت وہ ہے جسے ہمارے فقہاء "دفاعی جہاد" کہتے ہیں؛ یعنی بے گھر اور صلیب پر چڑھائے جانے والے مظلوموں، ان کے گھروں، املاک اور بچوں کا دفاع، ظلم اور جارحیت کی ابتدا کرنے والوں کے خلاف، جس طرح فلسطین، شام، لبنان، عراق اور یمن کے میدانوں میں اللہ کے مرد اور عورتیں، کھڑے ہیں۔
فرانسوا بورگا کہتے ہیں: "ٹرمپ عنقریب اعلان کرے گا کہ وہ خدا ہے!"
لیکن میں کہتا ہوں: خدا سب سے پہلا مقاومت کرنے والا ہے، بہترین ناموں اور کامل ترین اعمال کے ساتھ؛ اور اللہ کا اپنا حزب ہے اور اپنے اتحادی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ