بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، اس عہد نامے میں کہا گیا ہے: "ہم فلم سازوں، اداکاروں، فلم انڈسٹری کے کارکنوں اور سینمائی اداروں کی حیثیت سے فلم کی تصورات کی فہم و ادراک میں صلاحیت کو پہچانتے ہیں۔ اس ہنگامی اور بحرانی وقت میں جب کہ ہمارے بہت سی حکومتیں غزہ کے قتل عام کی حمایت کر رہی ہیں، ہمیں اس نہ رکنے والے مسلسل سانحے کا ساتھ نہ دینے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہئے۔"
اتوار (7 ستمبر 2025 کی) شام تک 1200 دستخطوں تک پہنچنے والے اس عہد نامے میں ایوا ڈیورنی، آصف کپاڈیا، بوٹس رائلی اور جوشوا اوپن ہائمر جیسے فلم سازوں کے ساتھ ساتھ اولیویا کولمین، ایو ایڈبری، ریز احمد، جوش اوکونر، سنتھیا نکسن، جولی کرسٹی، الانا گلائزر، ربیکا ہال، ایمی لو وڈ اور ڈیبرا ونگر جیسے اداکار بھی شامل ہیں۔
اس عہدنامے کے دستخط کنندگان کا کہنا ہے کہ وہ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کو ختم کرنے والے ثقافتی بائیکاٹ کے تجربے سے متاثر ہؤئے ہیں اور انہوں نے عہد کیا ہے کہ عالمی فلمی صنعت "نسل پرستی اور غیر انسانی سلوک" کے سامنے خاموش نہیں رہے گی اور کسی بھی "ظلم میں ملوث ہونے" کے امکان کو ختم کرنے کے لئے "اپنی طاقت کی حد تک سب کچھ" کرے گی۔
سنہ 1987 میں، جوناتھن ڈیمے، مارٹن سکورسی اور کئی دیگر ممتاز فلم سازوں نے فلم سازوں کی یونائیٹڈ اگینسٹ اپرتھائیڈ کی بنیاد رکھی اور اپارتھائیڈ کی حکمرانی کے دوران جنوبی افریقہ میں اپنی فلمیں پیش کرنے سے انکار کر دیا۔
اسرائیل کے ساتھ تعاون کے خلاف عہد پر دستخط کرنے والوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ تہواروں، تھیٹروں، براڈکاسٹ نیٹ ورکس اور پروڈکشن کمپنیوں کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کے کاموں کو جاری کریں گے جو "نسل کشی اور نسل آپارتھائیڈ کو وائٹ واش کرنے یا اس کو جواز دینے" میں ملوث ہیں یا وہ کمپنیاں جو ان کارروائیوں کا ارتکاب کرنے والی حکومت کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں۔
سینما ورکرز فار فلسطین نامی گروپ کی طرف سے شائع کیے گئے عہد کے متن میں کہا گیا ہے کہ کال میں سینما کارکنوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیلی اداروں کے ساتھ تعاون نہ کریں جو "فلسطینی عوام کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں" میں ملوث ہیں۔ اس عہد میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ یہ عہدنامہ افراد کی ذاتی شناخت کو نشانہ نہیں بناتا ہے اور یاددہانی کراتا ہے کہ "کم ہی سنیما ادارے" ایسے ہیں جو اسرائیلی ریاست کے ساتھ تعاون اورگٹھ جوڑ نہیں کرتے ہیں۔
یہ بیان اس وقت میڈیا میں شائع کیا جا رہا ہے جب اسرائیل کے ہاتھوں محصور غزہ پٹی میں نسل کشی کی جنگ کو 23 ماہ گذر چکے ہیں۔
اکتوبر 2023 سے صیہونی ریگیں نے زمینی اور فضائی حملوں میں تقریباً 64 ہزار چار سو فلسطینیوں کو شہید اور ایک لاکھ 62 ہزار 770 سے زائد افراد کو زخمی کر دیا ہے۔ نیز اسرائیل نے فلسطینی شہریوں کے خلاف خوراک، صحت اور ادویات کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے، خوراک اور انسانی امداد کئی مہینوں سے بند ہے، جس کی وجہ سے علاقے میںڑ مصنوعی قحط کی کیفیت ہے اور جبری بھکمری میں سینکڑوں افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد بچوں کی ہے اور اس صورت حال نے صہیونی ریاست کے خلاف عالمی غم و غصہ پیدا کیا ہے۔
ڈیوڈ فار، اس عہد نامے کے دستخط کنندہ اور ہولوکاسٹ سے بچنے والوں کی اولاد میں سے ایک، نے ایک بیان میں زور دے کر کہا کہ صہیونی ریاست "دہائیوں سے فلسطینی عوام پر نسلی امتیاز کا نظام مسلط کر چکی ہے اور ان کی زمینیں چھین رہی ہیں۔"
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل اب غزہ میں "نسل کشی اور نسلی صفائی" کر رہا ہے اور کہا کہ وہ صہیونی ریاست کے ان اقدامات سے "پریشان اور غصے میں" ہیں۔
ڈیوڈ فار، جنہوں نے "آہنی دل والا انسان" کے لئے اسکرین پلے لکھا، نے مزید کہا: "میں اپنے کام کو اسرائیل میں شائع یا پرفارم کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ ثقافتی بائیکاٹ نے جنوبی افریقہ میں مؤثر کام کیا، یہ اس بار پھر کام کرے گا، اور مجھے یقین ہے کہ تمام باضمیر فنکار اس تحریک کی بھرپور حمایت کریں گے"۔
فلم سازوں کا یہ اقدام غزہ پر صہیو-امریکی جارحیت شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل کے سب سے نمایاں ثقافتی مقاطعوں میں سے ایک ہے، اور یہ مقاطعہ 1000 سے زائد مصنفین کے اسی قسم کے عہد پر دستخط کرنے کے تقریباً ایک سال بعد سامنے آیا ہے۔
جیسے جیسے غزہ پر اسرائیلی حملے کی دوسری برسی قریب آ رہی ہے، تفریحی صنعت کی جانب سے جنگ کے خلاف احتجاج کرنے کے اقدامات بڑھ رہے ہیں۔ اس موسم گرما کے شروع میں، سیکڑوں اداکاروں اور فلم سازوں نے، جن میں جوکوئن فینکس، پیڈرو پاسکل، رالف فینیس، اور ہدایت کار گیلرمو ڈیل ٹورو شامل ہیں، ایک کھلے خط پر دستخط کئے جس میں غزہ میں اسرائیل کی مہلک فوجی مہم پر فلم انڈسٹری کی خاموشی کی مذمت کی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ