8 ستمبر 2025 - 21:28
امریکہ کے اندر سے 'اسرائیلی' ریاست کی تبدیلی کے اشارے

فارن پالیسی نے لکھا ہے کہ بھوکے فلسطینی بچوں کا اسرائیلی فوجیوں کی گولیوں سے قتل ہونا، اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ کیا عالمی برادری کو ہنوز اسرائیل کے ساتھ ایک جائز ریاست سمجھنا چاہئے، یا نہیں۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ابنا ـ کے مطابق، غزہ کی جنگ اور صہیونی ریاست کے جرائم کے ہر گذرتے دن کے ساتھ، زیادہ سے زیادہ افراد اور یہاں تک کہ دنیا بھر کے ممالک اس ریاست کی اصلیت کا ادراک کر رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں یہ ریاست عالمی برادری میں مزید نفرت اور تنہائی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف صہیونی جرائم کے اس دور کا ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ 'صہیونی ریاست کے اہم حامی' کے طور پر 'امریکہ کے اندر سے' بھی اسرائیل کے خلاف احتجاج کی ایک بلند آواز ابھر چکی ہے؛ اس حد تک کہ "فارن پالیسی" کی اشاعت، جو کہ سب سے نمایاں امریکی رسالوں میں سے ایک ہے، نے حال ہی میں "اسرائیل کے وجود کے حق کا مسئلہ ایک گمراہ کن تجویز ہے[1]" کے عنوان سے ایک رپورٹ میں مقبوضہ فلسطین میں ریاست کی تبدیلی کا سرکاری طور پر مطالبہ کیا ہے۔

مضمون کے مصنف، "ایان ایس لسٹک" (Ian S. Lustick)، جو یونیورسٹی آف پنسلوانیا ایک ریٹائرڈ پروفیسر ہیں، اس رپورٹ میں بتاتے ہیں کہ مقبوضہ فلسطین پر حکمران ریاست اپنے "وجود کا حق" کیونکر کھو چکی ہے اور اسے کیوں تبدیل ہونا چاہئے۔

بلاشبہ فارن پالیسی کی یہ رپورٹ خامیوں سے خالی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، "ریاست اسرائیل" کے وجود کے حق کو ثابت کرنے کی کوشش میں مصنف نے دلیل دی کہ جو چیز کسی "ملک" کو 'وجود کا حق' دیتی ہے وہ اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم کیا جانا ہے!

امریکہ کے اندر سے ریاست کی تبدیلی کے اشارے

تاہم، "لسٹک" اس بات کا ذکر نہیں کرتے کہ اقوام متحدہ نے فلسطینیوں سے فلسطین کی ریاست کے طور پر وجود کا حق کیوں اور کیسے چھینا اور اسے "یہودیوں" کو دے دیا ہے اس طرح گذشتہ کئی دہائیوں کی تباہ کاری کو جنم دیا ہے؟ مزید برآں، اقوام متحدہ کے اہم فیصلہ سازوں نے بارہا ثابت کیا ہے کہ وہ "ریاستوں کے وجود" سے چھوٹے معاملات پر بھی بین الاقوامی برادری کے لئے فیصلے کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔

اسلامی جمہوریہ ایران (جو کہ عدم پھیلاؤ کے معاہدے [NPT] کا رکن ملک ہے) پر 'جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش' کے جھوٹے بہانے پر بین الاقوامی پابندیاں عائد کرنا اس نااہلی کا ایک واضح ثبوت ہے۔ اس کے برعکس، صہیونی ریاست (جو کہ عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا رکن تک نہیں) پہلے ہی جوہری ہتھیاروں سے مسلح ہو چکی ہے اور اس نے ـ بین الاقوامی قانون کے ماہرین کے متفقہ طور پر تسلیم شدہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ـ کرکے ایک غیر جوہری ریاست پر فوجی حملہ کیا؛ جبکہ مغربی ممالک نے اس غیر قانونی جارحانہ اقدام کی تعریف و ستائش کی اور یہی نہیں بلکہ امریکہ نے نہ صرف اس حملے کی حمایت کی بلکہ براہ راست مداخلت کرکے ایران کی پرامن ایٹمی تنصیبات پر بمباری کی۔ اس سب کے باوجود، اقوام متحدہ نے اس ریاست کے خلاف ایک بھی پابندی عائد نہیں کی۔

تاہم فارن پالیسی کی رپورٹ اس لئے اہم ہے کہ اس بااثر امریکی جریدے نے اعلانیہ طور پر مقبوضہ فلسطین میں ریاست کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے جو کہ دنیا کی سطح سے صہیونی ریاست کی برائی کو ختم کرنے کے لئے ایک قدم ہے۔

مزید برآں، رپورٹ کے مصنف کا استدلال فلسطینی تنازعہ کو حل کرنے کے لئے اسلامی جمہوریہ کی منطق سے کسی حد تک مطابقت رکھتا ہے: "دو ریاستی حل کی تجویز پیچھے چھوڑنا اور ایک ریاست کو تشکیل دینا، اور پورے فلسطین کے انتظام و انصرام کے لئے ایک نظام حکومت اور نئی ریاست کے انتخاب کے لئے ریفرنڈم منعقد کرنا۔" فارن پالیسی رپورٹ کے منتخب نکات کا مجموعہ درج ذیل ہے:

دنیا بھر میں کچھ لوگ، جن میں یہودی بھی شامل ہیں ـ جو روایتی طور پر اسرائیل کی حمایت کرتے رہے ہیں، ـ اب پوچھ رہے ہیں (یا پھر ان سے پوچھا جا رہا ہے) کہ کیا اسرائیل کو اب بھی [2] 'وجود کا حق' (Right of Existence) حاصل ہے [3] یا نہیں؟ [4]۔ "ان نجی اور عمومی مذاکروں کا رواج، غزہ کی جنگ کے دوران نسل کشی کی سطح پر تشدد اور تباہ کاری، اسرائیل کا ایران پر حملہ اور شام میں اس کی جارحیت، اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن کے کسی بھی منصوبے کو آگے بڑھانے سے اسرائیل کے انکار، اور ایک 'جم کرو' (Jim Crow) طرز [5] کے آپارتھائیڈ (نسلی امتیاز) [6] کے نظام کے تحت ویسٹ بینک میں مقیم فلسطینیوں پر اس کے مظالم، کا نتیجہ رہا ہے [7]۔"

اس سوال کے لئے میرا جواب یہ ہے کہ: 'جی ہاں، ریاست اسرائیل کو اپنے وجود کا حق حاصل ہے، لیکن اسرائیل میں [عربوں کے مقابلے میں] یہودی صہیونی بالادستی پر مبنی ریاست کو شاید وجود کا حق حاصل نہ ہو۔

چرا آتش‌بس شد؟/ کارشناسان نظامی: اسرائیل قادر به آغاز جنگ جدید با ایران بدون پرداخت هزینه‌های سنگین نیست

ایران کے خلاف 12 روزہ جارحیت کے دوران دارالحکومت تہران کے علاقے کشاورز بلیوارڈ پر صہیونی ریاست کے حملے میں زخمی ہونے والے کئی افراد؛ گویا صہیونیوں کی طفل کشی صرف غزہ تک محدود نہینں ہے، بلکہ جہاں وہ پہنچتے ہیں شیرخواروں کا شکار شروع کر دیتے ہیں۔

زیادہ تر لوگ ماہرین سیاسیات کی طرح نہیں سوچتے؛ یعنی وہ سوچے سمجھے بغیر سیاسی زندگی کے زمروں کو باہم مخلوط کر دیتے ہیں:

  • ریاست ایک متعینہ [سرحد بند] علاقے میں قائم ایک معاشرہ ہے، جسے اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے پر، تسلیم کیا جاتا ہے۔
  • حکومت ایک ملک کے اندر ایک قانونی نظام ہے جو یہ بتاتا ہے کہ ملک کے اداروں کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے اور ان اداروں میں سیٹیں بھرنے اور حکومت کی طرف سے مجاز کام انجام دینے کے لئے افراد کو کس طرح منتخب کیا جانا ہے۔
  • حکومت افراد کا ایک مخصوص گروہ ہے جو وقت کے ایک مقررہ مدت کے لئے ان نشستوں کو بھر دیتے اور سیاسی فیصلے کرتے ہیں۔

فرانس ایک ملک ہے۔ "پانچویں جمہوریہ" وہ حکومت ہے جو 1958 سے فرانس پر حکومت کرنے والا قانونی نظام ہے۔ ایمانوئل میکرون فرانسیسی حکومت کے سربراہ ہیں۔ یعنی، حکام اور فیصلہ سازوں کے ایک سیٹ کا سربراہ جو پانچویں جمہوریہ کے قائم کردہ طریقہ کار اور قوانین کے فریم ورک کے اندر پالیسی بنانے کے مجاز ہیں۔

فارن‌پالسی: رژیم اسرائیل حق موجودیت ندارد/ جنایات تل آویو جهان را بیدار کرد؛ زمزمه‌های تغییر رژیم حتی از درون آمریکا +تصاویر

غزہ کی رہائشی فلسطینی ماں ہدایۃ المطوق نے 21 جولائی 2025 کو اپنے 18 ماہ کے بچے محمد زکریا ایوب المطوق کو اپنی آغوش میں لیا ہؤا ہے جو شدید غذائی قلت کا شکار اور موت کے خطرے سے دوچار ہے۔ یہ تصویر صہیونی ریاست کے جرائم اور مظالم سے ریکارڈ ہونے والی صرف ایک تصویر ہے، لیکن اس ای تصویر نے دنیا پر سکتہ طاری کیا ہے۔ 

ملک، حکومت، ریاست کی ان تین تعریفوں سے ہی ہم ان ممالک کی انجام کو سمجھ سکتے ہیں جن کے رویے نے انہیں بین الاقوامی سطح پر نفرت انگیز اداکار بنا دیا ہے۔ اور اس کے بعد ہی ہم واضح طور پر اسرائیل کے بارے میں اس اصل اور بنیادی سوال کا جائزہ لے سکتے ہیں جو اس وقت لوگوں کے ذہنوں پر مسلط ہو چکا ہے۔

(ریفرنسز آخری قسط کے آخر میں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha