2 ستمبر 2025 - 01:08
پارلیمنٹ NPT سے الگ ہونے کا قانون منظور کیا تو حکومت کو نافذ کرنا پڑے گا، اسماعیل

تہران: ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک برطانوی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے علیحدگی کے مسودے کو منظور کردہ تو تو حکومت قانونی طور پر اسے روک نہیں سکتی۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) اسمبلی ـ ابنا ـ کے مطابق، برطانوی اخبار گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے اعلان کیا کہ یورپ امریکہ اور ایران کے درمیان ثالث کے طور پر اپنا کردار ترک کرنے کے راستے پر ہے اور اس کے بجائے ایرانی جوہری فائل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ویٹو پر چھوڑنے والا ہے۔

اسماعیل بقائی نے کہا کہ ایک بار جب یورپ کی درخواست پر اقوام متحدہ کی پابندیاں 30 دن سے بھی کم عرصے میں بحال ہوجاتی ہیں تو امریکہ دوبارہ سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا استعمال کرے گا جس میں پابندیوں کا تسلسل بھی شامل ہے۔

یورپ کا کردار گھٹ رہا ہے

انھوں نے کہا کہ ’’یورپی وہی کر رہے ہیں جو ٹرمپ نے انہیں کہا تھا۔ "یورپ کا کردار مسلسل گھٹتا جا رہا ہے۔ اگر آپ جوہری معاہدے میں کردار کے حوالے سے، یورپی خارجہ پالیسی کے رہنماؤں کی تاریخ پر نظر ڈالیں - ہاوئیر سولانا (Javier Solana)، کیتھرین ایشٹن (Catherine Ashton)، فیڈریکا موگیرینی (Federica Mogherini) سے لے کر جوزپ بوریل (Josep Borrell) تک - ان سب نے ایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی کرنے اور مذاکراتی شراکت دار کے طور پر اپنی ساکھ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اب یورپیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مکمل طور پر امریکہ اور اسرائیل کی نمائندگی کریں گے، اور اپنے سابق کردار سے دستبردار ہونگے، اور اس کردار کو امریکہ کے سپرد کرین گے، جو غیرذمہ دارانہ کردار ہے۔"

یورپ نے ایران پر اسرائیلی حملے کی حمایت کی

انھوں نے جرمن چانسلر فریڈرک مرٹز (Friedrich Merz) کے تبصروں کا حوالہ دیا کہ اسرائیل نے جون میں ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے "ہم سب کے لئے ایک 'گندا کام'" کیا ہے۔

بقائی نے مزید کہا کہ "ایک طرح سے، تمام یورپی ممالک نے اسرائیل کے کاموں کی منظوری دی ہے اور ممکنہ طور پر اسرائیلی ریاست کو معلومات فراہم کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمنٹ یورپ کی طرف سے اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بحالی کی وجہ سے اس سے دستبرداری کا قانون منظور کرتی ہے، تو یقینا ہمیں اسے نافذ کرنا چاہئے کیونکہ ایرانی حکومت قانونی طور پر پارلیمان کو جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) سے دستبرداری سے نہیں روک سکتی۔

انھوں نے کہا کہ اس معاہدے سے دستبرداری پارلیمنٹ کے اختیارات میں ہے۔ منگل کے روز این پی ٹی سے دستبرداری کے بل کے حامی اراکین کی تعداد کا اعلان کیا جائے گا، لیکن اراکین کے پیش گوئی کرتے ہیں کہ یہ بل پارلیمنٹ میں زبردست حمایت کے ساتھ فوری طور پر منظور ہو جائے گا۔ این پی ٹی سے دستبرداری کا مطلب ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر اقوام متحدہ کے نگرانی کے تمام استحقاقات ختم ہوکر رہ جائیں گے۔

اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم تیار ہیں

ایرانی پارلیمنٹ کے طاقتور گروپ اس بات کے قائل ہیں کہ اگر مغرب دوسرا حملہ کرے تو ایران اسرائیل کو بھاری نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

بقائی نے کہا: "ہم تیار ہیں، کیونکہ یہ معاملہ ہماری عزت اور خود مختاری سے متعلق ہے۔ میرے خیال میں آپ برطانیہ میں نازی حملے کے وقت کی 'بلیٹز سپرٹ' رکھتے تھے۔ ہمارے پاس بھی یہی جذبہ اور اسلحہ (سپرٹ) ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ جنگ جو مذاکرات کے دوران ہم پر مسلط کی گئی، بہت ناانصافی پر مبنی تھی۔"

جوہری معاہدے کے تین اصل دستخط کنندہ ممالک - فرانس، جرمنی اور برطانیا - نے گذشتہ جمعرات کو اقوام متحدہ کو مطلع کیا کہ وہ ستمبر کے آخر میں، سوائے اس کے کہ ایران تین شرائط پوری کرے، اقوام متحدہ کی پابندیاں بحال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں: اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے معائنہ کاروں کا ایران کے بمباری کا نشانہ بننے والی تنصیبات پر واپس آنا، 400 کلوگرام اعلیٰ درجے کے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کی جگہ کی تفصیلات فراہم کرنا، اور اپنے جوہری پروگرام کے مستقبل کے بارے میں امریکہ سے مذاکرات پر رضامندی ظاہر کرنا۔

یورپ کی شرائط غیر سنجیدگی کی علامت

یورپ کا کہنا ہے کہ ابھی بھی ان شرائط پر اتفاق رائے اور سفارتکاری کے لئے چار ہفتے کا وقت باقی ہے۔ بقائی نے ان یورپی شرائط کو "ان کی غیر سنجیدگی اور بدنیتی کی علامت" قرار دیا۔

ایران کا ایجنسی پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے

انھوں نے مزید کہا: "بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے معائنہ کار اور ایران کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان ہے۔ اصل تشویش یہ ہے کہ مقامات پر جمع کردہ معلومات ایجنسی کے ذریعے اسرائیل کو منتقل کی جاتی ہیں۔ یہ تشویش خاص طور پر اس وقت مزید بڑھ گئی ہے جب ایجنسی کے تکنیکی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں اعلانیہ طور پر ترک کی گئیں اور ایجنسی سیاسی رجحانات کا شکار ہوگئی۔ ہم نظر انداز نہیں کر سکتے کہ ایجنسی کی پچھلی رپورٹس کو امریکہ اور اسرائیل نے غلط استعمال کیا تاکہ ایجنسی کے بورڈ میں ایک قرارداد منظور کی جا سکے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ایران اپنے وعدوں کا پابند نہیں ہے۔"

انھوں نے کہا کہ اس قرارداد کو جون میں اسرائیل کے ایران پر حملے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا۔

ایرانی عوام اسرائیل کی غیرقانونی جارحیت پر غضبناک ہیں

بقائی نے تسلیم کیا کہ اگلے مہینے اقوام متحدہ میں ایران کے سفارتی حرکت پذیری کی گنجائش عوامی جذبات کی وجہ سے محدود ہے۔ انھوں نے کہا: "حقیقت یہ ہے کہ ہمارے عوام ہماری سہولیات پر غیرقانونی حملوں پر غصے میں ہیں اور ہمیں بحیثیت حکومت اپنے عوام اور پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہونا ہوتا ہے۔ مغربی میڈیا ہمارے ایجنسی کے ساتھ تعاون اور ہماری ذخائر کے بارے میں بات کرتا ہے، لیکن مغرب کے عوام کو اسرائیل اور امریکہ کے غیرقانونی اقدامات کی یاد دہانی کرانی چاہئے۔ انہوں نے سفارتی عمل کو تباہ کر دیا، بین الاقوامی قانون پر حملہ کیا، جبکہ ہماری تنصیبات پچھلی تین دہائیوں سے 24 گھنٹے زیر نگرانی رہی رہی ہیں۔"

ایرانی حکام کا اصرار ہے کہ اصل مقصد اگلے مہینے ایک سمجھوتے تک پہنچنا ہے، جس سے ہتھیاروں کے معائنہ کاروں کی واپسی ممکن ہو سکے۔ ایرانی سفارت کاروں نے ایجنسی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ذخیرے کو منتقل نہیں کیا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی اصرار ہے کہ وہ امریکہ سے بات کرنے کے لئے تیار ہیں، لیکن واشنگٹن کو بار بار آنے والے پیغامات کا اب تک کوئی جواب نہیں ملا۔

ملکی سطح پر افزودگی کے حق کو محفوظ رہنا چاہئے۔

بقائی نے کہا کہ ایران پرانے معاہدے کے تحت، یورینیم کی افزودگی کی سطح کو کم کر کے 3.67 فیصد کرنے کے لئے تیار ہے، بشرطیکہ ایک جامع معاہدہ طے پا جائے جو ایران کے اندرون ملک افزودگی کے حق کی ضمانت دے۔

انھوں نے سوال کیا کہ امریکہ ایران کے افزودگی کے حق کو ختم کرنے پر اتنا اصرار کیوں کر رہا ہے، جیسا کہ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے، ایران کی افزودگی کی صلاحیت کو امریکہ اسرائیل مشترکہ حملوں میں تباہ کر دیا گیا تھا! [وہ خود کہتے ہیں!]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha