بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، مصری صحافی اور تجزیہ نگار محمود سلطان نے اپنے مضمون میں لکھا ہے:
تہذیبی جنگ:
- ایران کے جوہری پروگرام پر مغربی مخالفت درحقیقت ایک وسیع تر تہذیبی کشمکش کا حصہ ہے، جس کا تعلق اسلاموفوبیا سے ہے۔
مغرب کا اصرار ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی حاصل نہیں ہونی چاہئے، جبکہ اس نے اسرائیل کو غیر اعلانیہ جوہری طاقت بننے دیا ہے۔
مغرب کا دوہرا معیار:
اسرائیل، جس کا جوہری پروگرام کبھی بھی بین الاقوامی پابندیوں کا شکار نہیں ہؤا، مغربی ممالک (فرانس، برطانیہ، امریکہ اور جرمنی) کی مدد سے جوہری صلاحیت حاصل کرچکا ہے۔
دوسری طرف، عراق، لیبیا اور ایران جیسے ممالک کے جوہری منصوبوں کو زبردستی سے کچل دیا گیا۔
مذہبی تفریق:
- مغرب کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مسلم ممالک کو جوہری ٹیکنالوجی سے دور رکھنے کے لئے مذہبی تعصب کا شکار ہے، جبکہ غیر جمہوری ممالک جیسے چین، روس اور شمالی کوریا کو اس حوالے سے کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے۔
- بعض عیسائی انتہا پسند گروہوں کا ماننا ہے کہ اسرائیل کی بقا مسیح کی واپسی کے لئے ضروری ہے، اور اسرائیل کے تئیں مغربی حمایت کی ایک وجہ بھی ہے۔
نتیجہ:
یہ تنازع محض جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی کا معاملہ نہیں، بلکہ ایک تہذیبی جنگ ہے جس کا مقصد مسلم دنیا کو اسٹریٹجک طور پر کمزور رکھنا ہے؛ یعنی یہ کہ مجموعی طور پر، ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق واقعات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ نہ صرف جوہری توانائی پر جنگ، جغرافیائی-سیاسی مفادات سے کہیں بڑھ کر ہے؛ بلکہ یہ در حقیقت ایک مذہبی تہذیبی جنگ کا حصہ ہے جس کا مقصد اسلام دشمنی اور اسلامی دنیا کو ایک مؤثر تسدیدی حکمت عملی اور تزویراتی ٹیکنالوجی تک رسائی سے محروم رکھنا ہے، حتیٰ کہ مغرب اس مقصد کے حصول کے لئے جنگ کا سہارا بھی لے سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ