اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | شعرِ غدیر شاعروں کی زبان پر جاری و ساری ہے؛ حسان بن ثابت سے لے کر رودکی تک، کسائی سے لے کر حافظ تک۔ ہر کسی نے اپنے انداز اور اسلوب میں اس اہم واقعے کی طرف رجوع کیا ہے۔ شاعر علی رضا قزوہ، بھی ان ہی افراد میں سے ہیں۔
قزوہ نے فارس نیوز کے نامہ نگار سے بات چیت کرتے ہوئے میں دینی / مذہبی شاعری کے بارے میں کہا: "رسوماتی شاعری ہمارے تمام مذہبی اور قومی رسومات، خوشی و غم کے مواقع پر محیط ہے۔ اسے صرف مذہبی تقاریب تک محدود نہیں کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر، نوروز اور سدہ جیسے قومی تہواروں پر بھی رسوماتی شاعری کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہمارے رسوم میں قومی اور مذہبی دونوں پہلو شامل ہیں۔ اس لحاظ سے، غدیر کی شاعری بھی دینی ۔ رسوماتی شاعری ہے، کیونکہ یہ ایک مذہبی رسوماتی تصور کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔"
انہوں نے شاعر کے دینی تجربے اور اس کے کلام پر اس تجربے کے اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "انسان، خاص طور پر ایرانی، فطرتاً دین و آیین کی طرف مائل ہیں۔ شاعری بھی انسانی فطرت کا حصہ ہے، اور وہ لوگ جو پاک دل و ذہن رکھتے ہیں، اس میدان میں تخلیقی صلاحیتیں دکھا سکتے ہیں۔"
قزوہ نے گذشتہ اور موجودہ دور کے "غدیریہ" اشعار کے فرق پر بات کرتے ہوئے کہا:
- اس فرق کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں ان ابتدائی اشعار کی طرف رجوع کرنا چاہئے جو براہ راست عید غدیر کے دن کہے گئے تھے۔ مثال کے طور پر، واقعہ غدیر کے دن بہت سے صحابہ کرام اور بزرگ شخصیات، جن میں حضرت فاطمہ زہرا اور امیرالمؤمنین (علیہما السلام) بھی شامل تھے، موجود تھے۔ مشہور شاعر حسان بن ثابت انصاری نے وہاں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے لئے ایک قصیدہ پڑھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے انہیں اپنی شاعری سنانے کی ہدایت کی اور ان کے حق میں دعا فرمائی کہ جب تک وہ حق کی حمایت کرتے رہیں گے، اللہ کی تائید ان کے ساتھ رہے گی۔ ان کے اشعار کا آغاز کچھ یوں تھا:
يُنَادِيهمُ يَومَ الغديرِ نبيُّهُمْ بخمٍّ وأسْمِعْ بالرسولِ مُنَادِياً
فقال فمن مولاکمُ ونبیُّکمْ فقالوا ولم یبدوا هناك التعاميا
- یہ اشعار بالخصوص غدیر کے واقعے اور اس دن پیش آنے والے واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ بعض مصادر میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے بھی اس روز اشعار کہے ہیں۔ یہ اشعار غدیر خم سے متعلق پہلی تخلیقات میں شمار ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے واقعہ کربلا کے روز ہی حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) اور امام حسین (علیہ السلام) کے بعض اصحاب نے اشعار کہے تھے۔ یہاں تک کہ امام حسین (علیہ السلام) کی فوج میں موجود ایک ایرانی شاعر نے بھی اسی روز اشعار کہے تھے۔
-غدیر کے موضوع پر حسان بن ثابت اولین شعرا میں سے ہیں جنہوں نے شاعری کی ہے، جبکہ ابونعیم اصفہانی اور قندوزی کی کاوشوں جیسے مصادر میں حضرت علی (علیہ السلام) سے منسوب اشعار بھی نقل ہوئے ہیں۔ اس کے بعد صدیوں تک عربی زبان میں بے شمار شعراء نے غدیر پر اشعار کہے ہین۔ دوسری صدی ہجری کے شیعہ شعرا میں کمیت بن زید اسدی جبکہ دوسری اور تیسری صدی ہجری میں دعبل خزاعی اور سید اسماعیل حِمیَری جیسے شعرا شاعری کرتے رہے ہیں۔
- تیسری صدی ہجری کے بعد سے، فارسی زبان کے پہلے شعرا اس میدان میں ابھر آئے؛ جن میں رودکی شامل ہیں، اور پھر چوتھی صدی میں کسائی مروزی، فردوسی اور فرخی جیسے شعرا سامنے آئے۔ اگرچہ ان میں سے بعض شاعروں نے صرف حضرت علی (علیہ السلام) کی طرف مختصر سا اشارہ کیا ہے، لیکن کچھ دیگر جیسے کسائی مروزی نے ان کی شان میں واضح اور با اثر کلام پیش کیا۔ یہ سلسلہ بعد کی صدیوں یعنی پانچویں، چھٹی اور ساتویں صدی ہجری میں بھی جاری رہا۔
- یہ بات قابل غور ہے کہ یہ تمام شعرا لازمی طور پر شیعہ نہیں تھے، بلکہ بہت سے اہل سنت شعرا نے بھی امام علی (علیہ السلام) کی مدح میں اشعار کہے ہیں۔
- مثال کے طور پر، سعدی (جو اہل سنت میں سے ہیں) نے امام علی (علیہ السلام) کو "سردار معصوم مرتضی" کے لقب سے یاد کرتے ہوئے کہا:
فردا که هر کسی به شفیعی زنند دست
ماییم و دست و دامن معصوم مرتضیٰ
کل جب ہر کوئی کسی شفیع کا دامن تھامے گا
تو ہم معصوم مرتضیٰ کا دامن تھام لیں گے
یا حافظ فرماتے ہیں:
مَردی ز کَنندهٔ دَرِ خیبر پرس
اسرار کرَم ز خواجهٔ قنبر پرس
بہادری اور جوانمردی کو خیبر کا دروازے اکھاڑنے والے سے پوچھو
کرم و سخاء کے اسرار قنبر کے آقا سے سے دریافت کرو
اور آگے کہتے ہیں:
گر طالب فیض حقّ به صدقی حافظ
سر چشمهٔ آن ز ساقی کوثر پرس
اگر سچے دل سے حق کا فیض چاہتے ہو تو حافظؔ!
اس کا سرچشمہ ساقی کوثر (علی) سے پوچھو۔
- عام طور پر، تمام عظیم شعرا نے قدیم زمانے سے لے کر ہمارے دور تک امام علی (علیہ السلام) کی شان میں اشعار کہے ہیں۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے: آج کے دور میں رسوماتی اشعار کمیت (تعداد) اور کیفیت (معیار) دونوں اعتباروں سے زیادہ مالامال ہو چکے ہیں۔
- معاصر شعراء کا واقعہ غدیر کے بارے میں نقطہ نظر زیادہ گہرا اور آگہی پر مبنی ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد، حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے دینی اور سماجی سوچ میں جو انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں، ان کے نتیجے میں شعراء اور عوام کی غدیر کے گہرے مفاہیم کے بارے میں آگہی بڑھ گئی اور اشعار زیادہ روحانی پختگی کے سے بہرہ ور ہوئے۔
- پچھلے 40-50 سالوں میں، خاص طور پر انقلابی شاعری کے دوران، دینی اور رسوماتی شاعری اپنے عروج تک پہنچی ہے۔ یہاں تک کہ وزن اور اہمیت کے اعتبار سے یہ دور فارسی ادب کے کسی بھی دوسرے دور کے ساتھ قابل موازنہ نہیں ہے۔
- کچھ شعراء گہرا مطالعہ نہیں رکھتے اور پرانے مضامین کو بار بار دہرانے پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف سے، کچھ مداحین بھی کم ذوق اور محدود علم کے ساتھ کمزور اشعار کا انتخاب کر لیتے ہیں، جس سے سامعین میں بد فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ البتہ اچھے مداحین اور شعراء کی بھی کمی نہیں ہے جو محنت اور بصیرت کے ساتھ عمدہ اور معیاری کلام پیش کرتے ہیں۔
علی رضا قزوه سے پوچھا گیا کہ "کیا دینی شاعری کو آج کے زبان ابلاغیاتی تقاضوں کے قریب جانا چاہئے یا اپنے روایتی راستے پر چلتے رہنا چاہیے؟" تو انھوں نے کہا: ہمیں رویات کا احترام کرتے ہوئے اسی روایت کے دامن میں جدت پیدا کرنی چاہئے۔ درحقیقت، جسے ہم آج 'روایت' کہتے ہیں، وہ اپنے زمانے کے شعراء کی جدت کا نتیجہ ہے۔ فردوسی، سعدی، بیدل اور دیگر بزرگ اپنے اپنے دور میں جدت پسند تھے۔ لہٰذا، روایت اور جدت ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ باہم مربوط ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ روایت سے وفاداری بھی برتیں اور اس میں جدت کو بھی شامل کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ