عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے
مطابق، روزنامہ کیہان کے ایڈیٹر انچیف نے عید غدیر کی آمد پر اپنے مضمون میں لکھا:
1۔ سنہ 10ھ کا سال ہے، موسم حج کے اختتام سے چند ہی روز گذرے ہیں، اور اب مسلمان گروہ در گروہ اپنے شہروں کی طرف رواں دواں ہیں۔ رسول اللہ (صلی الہل علیہ و آلہ) بھی ان کے درمیان ہیں۔ حج کے لئے آنے والے مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ حج بجا لانے کی خوشی اور عنقریب گھر والوں سے ملنے کا اشتیاق میں ایک بھاری غم بھی گھل مل گیا ہے؛ کیوں؟ اس سلسلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنے وصال کی خبر دی تھی اور ایک تشویش کی ایک عجیب کیفیت دلوں اور ذہنوں پر طاری تھی، کہ آپ کے کے بعد اسلام کا انجام کیا ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) دعوت ذوالعشیرہ سے اب تک بارہا امامت و ولایت اور اپنے جانشین کا صریح تعارف کرانے کا اہتمام کرتے آئے تھے، اور مسلمانوں کی جماعت کے ایک بڑے حصے کو یہ واضح اعلانات نیز اشارے کنایے سب یا تھے مگر انہیں تشویش تھی کہ کہیں ان تصریحات و اشارات تجاہل عارفانہ کا شکار نہ ہو جائيں اور نظر انداز نہ کئے جائیں۔ حجاج کا عظیم قافلہ چند وادیاں طے کرنے کے بعد ایک لق و دق اور بے آب و گیاہ صحرا میں میں داخل ہوچکا تھا جس کا نام "جحعفہ"تھا، جہاں چند ہی تناور صحرائی درختوں اور صحرائی ریت کے سوا دور دور تک کچھ بھی نہیں دکھائی دے رہا ہے؛ کہ اسی وقت رسول اللہ الاعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرمان جاری کرتے ہیں کہ جو حاضر ہیں، وہ رک جائیں، جو آگے چلے گئے ہیں، وہ پلٹ آئیں اور جو پیچھے رہ گئے ہیں، وہ پہنچ جائیں۔ ایک بڑا سوال تمام مسلمانوں کو درپیش ہے، "کیا ہؤا ہے؟ لیکن کوئی کچھ نہیں جانتا۔
2۔ جو قریب ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہے اور آپ کی جبین مبارک پر پسینے کے چند قطرے دکھائی دے رہے ہیں؛ یہ وہ کیفیت ہے جو نزول وحی کے موقع پر اللہ کے آخری رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر طاری ہؤا کرتی تھی۔۔۔ "يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ۖ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ؛
اے رسول! پہنچا دیجئے، جو کچھ آپ کے رب کی جانب سے آپ پر اتارا گیا ہے؛ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا ہے۔ اور ہاں! اللہ "لوگوں" [کی گزند] سے محفوظ رکھے گا؛ یقیناً کافروں کے گروہ کے منزل مقصود تک نہیں پہنچایا کرتا"؛ (المائدہ، آیت 67)۔
کون سا پیغام پہنچانا قرار پایا ہے، کہ اگر نہ پہنچایا جائے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے 23 سالہ مصائب اور مسائل برداشت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور آپ کی رسالت ادھوری رہ جائے گی؟!
اونٹوں کے پالانوں کا منبر [اسٹیج] تیار کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں اور اپنے ساتھ منبر پر لے جاتے ہیں، اور اللہ کا پیغام لوگوں کو پہنچا دیتے ہوئے فرماتے ہیں: "أَلَسْتُ أَوْلَى بِكُمْ مِنْكُمْ مِنْ أَنْفُسَكُمْ قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اَللَّهِ؛ کیا میں تم پر تم سے مقدم نہیں ہوں؛ [کیا میں تم پر تم سے زیادہ جق نہیں رکھتا]! سب نے کہا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! اور تین مرتبہ فرمایا: "[أَيُّهَا النَّاسُ] مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ؛ [اے لوگو! میں جس کا مولا اور رہبر و راہنما ہوں یہ علی اس کے مولا اور رہبر و راہنما ہیں، اور پھر فرمایا: "اللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ واخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ؛ اے معبود! دوست رکھ اسے جو ان کو دوست رکھے اور ان کی سرپرستی قبول کرے اور دشمن رکھ اسے جو ان سے دشمن کرے اور جو انہیں تنہا چھوڑے اسے تنہا چھوڑ دے"۔ (1)
3۔ مسلمانوں کی جماعت جَوق دَرْ جَوق اگے بڑھتی ہے اور لوگ امامت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی جانشینی پر مبارک باد کہتے ہیں؛ لیکن بات ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی جانشینی کا اعلان ہونے کے بعد، اللہ کی طرف کی وحی کے ذریعے ایک پیغام اور بھی نازل ہوتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اسے مسلمانوں کو پڑھ کر سناتے ہیں:
"الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً؛ آج کافر لوگ تمہارے دین [کے زوال] سے مایوس ہوگئے، چنانچہ ان سے مت ڈرو، اور مجھ سے [یعنی میرے احکام و ارشادات کی مخالفت کرنے] سے ڈرو! آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کردیا اور اسلام کو راضی و خوشنود ہؤا کہ میں نے مہارے لئے تمہارے لئے بحیثیت دین کے، پسند کر لیا ہے"۔
سوال: خدا نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے جانشین کی حیثیت سے امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کے تعین کے بعد کیوں فرمایا کہ "آج میں نے تمہارے دین کو مکمل اور تمہارے اوپر اپنی نعمت کو پورا، کردیا اور راضی و خوشنود ہؤا کہ اسلام تمہارا دین ہو؟ اس کے معنییہ ہیں کہ اگر علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کو پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے جانشین اور امت اسلامیہ کی امام مقرر نہ کیا جاتا، تو دین خدا نہ صرف کامل نہ ہوتا بلکہ اس کے قائم و دائم رہنے کی بھی کوئی امید نہ ہوتی، کیوں؟
4۔ اب ایک انتہائی بدیہی سا نکتہ ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر طے ہے کہ معاشرے کا انتظام و انصرام اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہو ـ کہ ہونا بھی یہی چاہئے ـ تو اسلام کے الٰہی کی بنیاد پر حکومت تشکیل دینا ضرورت ہے، بصورت دیگر، ایک مسئلے کا سامنا ہوتا، وہ یہ کہ "گویا اسلام اور بعثت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور طلوع اسلام جیسے واقعات صرف تاریخ کے صفحات پر ثبت کرنے کے لئے رونما ہوئے تھے اور ان کا قائم اور باقی رہنا مقصود ہی نہیں تھا! اور دوسری طرف سے اسلام کی بنیاد پر حکومت کے قیام کے لئے ایک ایسے حاکم کی ضرورت ہے جو: "الف) اسلام کے اصولوں سے مکمل آگہی رکھتا ہو؛ ب) صحیح معنوں میں عادل ہو"۔
یہ دو خصوصیات یعنی "مکمل آگہی" اور "مکمل عدالت (عدل)" انبیاء اور ائمہ (علیہم السلام) کی خضوصیات ہیں اور ان دو خصوصیات کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی تائید و تصدیق کی ضرورت ہے، کیونکہ، اگر ایسا نہ ہو تو لوگ امام کی پہچان میں کج فہمی اور کج روی کا شکار اور انتشار و اختلاف سے دوچار ہونگے۔
5۔ یوم غدیر کا تقدیر ساز واقعہ ـ جو اگر نہ ہوتا تو بقائے اسلام کا تحفظ ممکن نہ رہتا، ـ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا ولایت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی جانشینی پر تعین کا واقعہ تھا۔ امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) فرمایا کرتے تھے: "جو ولایت حدیث غدیر میں ہے، اس کے معنی "حکومت" کے ہیں، نہ کے روحانی منصب کے معنی میں"، اور زور دے کر کہتے ہیں کہ "چنانچہ حدیث غدیر سے یہ مطلب نہیں لینا چاہئے کہ اس کے ذریعے حضرت امیر (علیہ السلام) کے لئے ایک روحانیت یا [اس طرح کی ] کوئی شان و مرتبت معرض وجود میں لانا مقصود ہے، بلکہ غدیر کو حضرت امیر (علیہ السلام) نے وجود بخشا ہے، یہ ان کی اعلیٰ شان و منزلت ہے جس کے بموجب اللہ تعالیٰ نے آپ کو حاکم بنایا ہے"۔
رہبر انقلاب امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے بھی فرمایا ہے کہ "مسئلہ غدیر دو حقیقتوں پر مشتمل ہے: ایک، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ہاتھوں حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا آنحضرت کے بعد کے لئے امام کے طور پر تعین کا مسئلہ؛ اور دوسرا، رسول االلہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بعد امت کی حکومت، سیاسی، امامت، انتظام و انصرام کا مسئلہ ہے۔
واضح رہے کہ غدیر کا واقعہ تمام اسلامی مذاہب نے نقل کیا ہے اور کسی نے بھی حضرت امیر (علیہ السلام) کے ـ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بعد کے زمانوں کے لئے ـ بطور امامت و خلیفہ متعین ہونے کی نفی نہیں کی ہے۔
6۔ واقعۂ غدیر ایسا واقعہ نہیں ہے جو 18 ذوالحجۃ الحرام سنہ 10ھ کو وقوع پذیر ہوکر، ختم ہو چکا ہو۔ غدیر ہمیشہ کے لئے اسلام کا نقشۂ راہ (Road map) ہے۔ امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) فرماتے ہیں: "یہ عید محض چراغانیوں، قصیدہ خوانیوں اور مدخ سرائیوں کا دن نہیں ہے، یہ سب اچھا ہے، لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے ۔۔۔ [مقصد] عدل کا قیام ہے" اور امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) فرماتے ہیں کہ "مسئلہ غدیر ان عمدہ مشمولات کے ساتھ، تمام مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ یہ عدل کی حکمرانی، فضیلت کی حکمرانی اور ولایت اللہ کی حکمرانی ہے"۔ موصوف ہی کا کلام ہے کہ "کلام الٰہی میں معصومین (یعنی پیغمبروں اور ائمہ) (علیہم السلام) کی حکمرانی پر تصریح اور تاکید ہوئی ہے؛ بطور مثال سورہ مبارکہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ؛ اور اے ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں [تم پر] فرماں روائی [اور حکمرانی] کا اختیار رکھتے ہیں [اور اولیائے امور ہیں]"۔ (النساء ـ 59)۔
چنانچہ:
الف) اولی الامر کو ـ جن کی اطاعت کا حکم اللہ نے جاری کیا ہے، ـ معصوم اور ہر خطا اور گناہ سے محفوظ ہونا چاہئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی اطاعت اور فرمانبرداری کا حکم نہیں دیتا جو گنہگار اور خطاکار ہیں اور ان سے گناہ و خطا سرزد ہونے کا امکان ہو۔ خدائے متعال کا ارشاد ہے: "إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ؛ اللہ تعالیٰ عدل کا اور بھلائی کا [ہی] حکم دیتا ہے"۔ (النحل ـ 90) اور خدائے سبوح و قدوس سورہ اعراف کی آیت 28 میں ارشاد فرماتا ہے: " "قُل إِنَّ اللّهَ لاَ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء أَتَقُولُونَ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ؛ کہئے کہ اللہ بدکاری کا حکم نہیں دیا کرتا، کیا تم اللہ پر ایسی بات کی تہمت لگاتے ہو جس کی تم سند نہیں رکھتے ہو؟"۔
ب) اوالو الامر یعنی معصوم ائمہ (علیہم السلام)، جن کا لوگوں سے تعارف کرایا گیا ہو۔ [عقل و منطق کے مطابق] یہ کیسے ممکن ہے کہ خدائے منّان کسی کی اطعات کا فرمان تو جاری کرے لیکن ان کا لوگوں سے تعارف نہ کرائے؟ خدای مہربان نے ائمہ (علیہم السلام) کو ہمیشہ کے لئے ـ نام و نشان کے ساتھ ـ لوگوں سے متعارف کرایا ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی سوال پوچھے کہ "تو پھر ان کے نام کلام خدا میں نہیں آئے ہیں؟ جواب کلام خدا میں نہ آیا ہو؟ جواب امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے دیا ہے:
ابو بصیر نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے عرض کیا: لوگ کہتے ہیں کہ علی اور آل علی (علیہم السلام) کے نام قرآن میں کیوں نہیں آئے ہیں؟ فرمایا: ان سے کہہ دو کہ نماز کی آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر نازل ہوئی ہے، لیکن تین رکعتی اور چار رکعتی نمازوں کا تذکرہ نہیں ہؤا ہے [آیت میں]، یہاں تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے لوگوں کے لئے نمازوں کی تشریح فرمائی؛ اور زکٰوۃ کی آیت آنحضرت پر نازل ہوئی، لیکن یہ بیان نہیں ہؤا تھا کہ ہر چالیس میں سے ایک زکٰوۃ کے طور پر ادا ہوگا؛ یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے لوگوں کے لئے اس کی تشریح فرمائی؛ اور حج کا حکم نازل ہؤا اور لوگوں کے لئے بیان نہیں ہؤا کہ طواف میں کعبہ کے گرد سات چکر لگاؤ؛ یہاں تک کہ خود پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے وضاحت فرمائی۔ اور آیت "أَطِيعُوا اللّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِى الْأَمْرِ مِنْكُمْ؛ اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں [تم پر] فرماں روائی [اور حکمرانی] کا اختیار رکھتے ہیں [اور اولیائے امور ہیں]"؛ (النساء ـ 59) علی اور حسنین (علیہم السلام) کے بارے میں نازل ہوئی؛ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ"، اور پھر فرمایا: "أُوصِيكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ وَأَهْلِ بَيْتِى فَإِنِّى سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا حَتَّى يُورِدَهُمَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَعْطَانِي ذَلِكَ؛ میں تمہیں کتاب اللہ اور اپنے اہل بیت کی پیروی کی تلقین کرتا ہوں، یقیناً میں نے اللہ عز وجل سے التجا کی کہ ان دو کو ایک دوسرے سے جدا نہ کرے یہاں تک کہ حوض کے کنارے مجھ سے آ ملیں، تو اللہ نے مجھے یہ بھی عطا کردیا"، اور پھر فرمایا: "لَا تُعَلِّمُوهُمْ فَهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ؛ اے لوگو انہیں کچھ سکھانے کی کوشش مت کرو، کیونکہ وہ تم سے زیادہ علم و دانش کے مالک ہیں"، اور پھر فرمایا: "إِنَّهُمْ لَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ بَابِ هُدًى وَلَنْ يُدْخِلُوكُمْ فِى بَابِ ضَلَالَةٍ؛ یقیناً اہل بیت تمہیں ہدایت کے دروازے سے نکالتے نہیں ہیں اور تمہیں گمراہی کے دروازے میں داخل نہیں کرتے"۔۔۔۔ (کلینی، الکافی، ج1، ص286-287) تو اگر اللہ نے قرآن کریم میں نماز کی رکعتوں کی تعداد، زکٰوۃ کا نصاب اور طواف حج کے چکروں کی تعداد اور دوسرے اعمال کا تذکرہ نہیں کیا ہے تو کیا نماز اور دوسری عبادات کا انکار کیا جا سکے گا؟
ج) امامت کا لافانی اور لازوال اصول تاریخ میں ہمیشہ سے، ہمیشہ کے لئے جاری و ساری ہے اور اصولاً، یہ کیونکر ممکن ہے کہ خدائے مہربان نے لوگوں کو معصوم امام اور گناہ و خطا سے پاک ہادی و رہبر کے بغیر، اپنے حال پر، چھوڑا ہو؟! شاید یہ سوال اٹھے کہ غیبت کبریٰ کے دوران امامت کے اصول کو عملی صورت دینا کیسے ممکن ہے؟ ہم نے برسوں قبل "سفیدی کا چشم براہ" کے عنوان سے اپنے امام غائب سے مخاطب ہو کر ایک مضمون تحریر کیا تھا جس کی طرف یہاں اشارہ کرتے ہیں جو اسی سوال کا جواب ہے:
"آپ کو غائب کا نام دیا گیا، کیونکہ آپ "ظاہر" نہیں ہیں، جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ "حاضر" نہ ہوں؛ اگر کوئی "غیبت" (اور غائب ہونے) سے "حاضر نہ ہونے" کا مطلب لے تو یہ ایک ناجائز الزام ہے، جو آپ پر لگایا جاتا ہے؛ اور جو اس گمان سے دوچار ہیں، وہ "ظہور" اور "حضور" کے درمیان فرق نہیں کر سکتے، آپ کی آمد ـ جس کا ہمیں انتظار ہے ـ کا مطلب "ظہور" ہے نہ کہ "حضور"، اور اگر آپ کے عاشق اور شیدائی ہر صبح و شام خدا سے آپ کا ظہور چاہتے ہیں؛ جب آپ ظہور کریں گے، تو انگشت بدنداں رہ جائیں گے، اور حیرت زدہ ہوکر کہیں گے: "ہم نے آپ کو دیکھا تھا اس سے پہلے"، اور وہ سچ بولتے ہیں، کیونکہ آپ ہمارے درمیان ہیں، کیونکہ آپ ہمارے امام ہیں، نام جب آتا ہے باتو باتوں میں تو صاحبان دل "دل" اور چین و سکون کھو دیتے ہیں، اور بے چین دلوں کے قافلے قبلہ رخ ہوکر آپ کا انتظار کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔"۔
معاشرے کی زعامت کے حوالے سے ولایت فقیہ کا استناد و اعتبار بھی غیبت امام زمانہ (علیہ السلام) کے حوالے سے اسی طرف فکر سے ماخوذ ہے۔۔۔ ولایت فقیہ کی حکمرانی امام زمانہ (علیہ السلام) کی نیابت میں انجام پاتی ہے۔۔۔ اور ابھی بہت کچھ کہنا باقی ہے۔۔۔
7۔ جو کچھ کہا گیا اور جو ابھی نہیں کہا گیا، اگر مد نظر رکھا جائے تو وضوح کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ غدیر اسلام عزیز کی شناختی دستاویز اور نقشۂ راہ ہے، چنانچہ ہم [شاعرہ محترمہ فاطمہ نانی زاد کے] ان دو اشعار کو غدیر کی عظمت کے بیان کے طور پر پیش کرتے ہیں:
آسمان پای پیاده به غدیر آمده بود
زودتر از همه با این همه، دیر آمده بود
چه خبر بود؟ ! زمان لحظه حساسی بود
عرش با آن عظمت نیز به زیر آمده بود
۔۔۔۔۔۔۔
آسمان پیدل آیا تھا میدان غدیر میں
سب سے پہلے، مگر اس کے باوجود دیر سے آیا تھا
بات کیا تھی؟ بہت حساس لمحہ تھا
عرش اپنی عظمت کے باوجود اتر آیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ یہ موضوع اپنی جگہ قابل بحث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اللہ کا پیغام پہنچانے سے پہلے لوگوں سے ان پر اپنے مقدم اور اولیٰ ہونے کا اقرار کیوں لیا؟ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جن کی ولایت و خلافت کا اعلان ہو رہا ہے وہ بھی لوگوں پر ان سے زیادہ تصرف اور تقدم رکھتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حسین شریعتمداری
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110