21 جون 2023 - 17:39
اکمال دین، اتمام نعمت اور خدا پر بدگمانی

ایک اہم اور نیا سوال یہ ہے کہ جو لوگ آیات اور احادیث کے حقیقی معانی کو ـ صرف اس لئے کہ بعض لوگوں کی مرضی کے مطابق نہ ہوں اور ان سے ان کے بعض ذاتی عقائد کی تأئید نہ ہورہی ہو ـ توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں تو کیا وہ (معاذاللہ) آیات الہی اور احادیث رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا مذاق نہیں اڑا رہے ہیں؟ کیا ان کا یہ عمل (معاذاللہ) خدائے عزّ وجلّ اور رسول (صلی للہ علیہ و آلہ) پر بدگمانی کے زمرے میں نہیں آتا؟

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

قرآن مجید کی سورہ مائدہ کی آیت 55 میں رب متعال کا ارشاد ہے:

"إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ؛ تمہارا حاکم و سر پرست بس اللہ ہے اور اس کا پیغمبر اور وہ ایمان رکھنے والے جو نماز ادا کرتے ہیں اور زکٰوۃ (و خیرات) دیتے ہیں اس حالت میں کہ وہ رکوع میں ہیں"۔

یہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ مسجد مدینہ میں؛ جب ایک ضرورتمند سائل مسجد میں داخل ہؤا اور مسجد یقیناً مسلمانوں سے بھری ہوئی ہوگی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھی موجود تھے اور مسلمان بھی نماز کی نیت سے مسجد میں ہی تھے۔ لیکن کسی کو شاید سائل کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی یا تجاہل عارفانہ سے کام لیا جا رہا تھا، مگر وہاں ایک عظیم شخصیت کے مالک انسان کامل امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) نافلہ ادا کررہے تھے؛ اور رکوع کی حالت میں تھے کہ سائل قریب پہنچا اور آپ نے اپنی انگوٹھی اس کی طرف بڑھا دی اور سائل انگوٹھی اتار کر چلا گیا؛ یہ ایک واقعہ تھا اہل بیت رسالت کے جود و سخا اور عظمت و کرامت کے بے شمار دیگر واقعات کی مانند، جو لمحوں میں ختم ہؤا، تا ہم یہ لمحوں میں ختم ہونے والا واقعہ ایک عظیم اعلان کا پیش خیمہ ثابت ہؤا اور وہ اعلان اللہ تعالی کی جانب سے تھا:

مذکورہ آیت کریمہ اللہ کا کلام ہے لیکن کیونکہ اس کا مصداق علی (علیہ السلام) ہیں اسی لئے اس کی تأویلات کا سہارا لیا گیا اور کیفیتِ دلالت میں تأویلات کا سلسلہ شروع ہؤا۔

مسجد میں نماز علی (علیہ السلام) ادا کررہے تھے؛ اس میں شک ممکن نہیں تھا اور تأویل بھی ممکن نہیں تھی؛ سائل آیا تو علی (علیہ السلام) نے ہی سائل کو رکوع کی حالت میں زکوٰة کے طور پر انگوٹھی عطا فرمائی؛ یہ بھی متواتر حدیث کی شکل میں موجود ہے اور اس وقت بھی کوئی اس میں شک نہیں کرسکتا تھا؛ آج بھی کوئی شک نہیں کرسکتا؛ گو کہ معاصر تاریخ میں ولایت کے دشمن ابھر آئے جبکہ اس سے پہلے صرف مخالفین تھے جو دشمنی نہیں کرنا چاہتے تھے اور اہل بیت (علیہم السلام) کی دشمنی کو اپنے لئے عیب سمجھتے تھے؛ تا ہم نئے زمانے میں ابھرنے والے غدیر کے دشمنوں نے تمام حقائق کا انکار آسان کرنے کے لئے حدیث و تاریخ و تفسیر کی نئی اشاعتوں سے فضائل اہل بیت (علیہم السلام) کو حذف کر رہے ہیں، گوکہ پہلے بھی کچھ لوگ اس عمل کو اپنا فرض سمجھ کر کچھ کتابوں سے فضائل اہل بیت (علیہم السلام) مٹاتے رہے ہیں! لیکن وسیع پیمانے پر یہ کام معاصر تاریخ میں شروع ہؤا ہے؛ اور اگر ان کے اسلاف آج سے ایک دو صدیاں قبل اس کام کو وسیع پیمانے پر انجام دیتے تو انہیں بہت آسانی ہوتی جبکہ موجودہ زمانے میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ تمام پرانے نسخے علم و دانش کے متوالوں نے محفوظ کر لئے ہیں۔

بہرصورت آیت نازل ہوئی ہے؛ آیت علی (علیہ السلام) کی اسی فضیلت کے بارے میں ہے اور اس کا مصداق امیرالمؤمنین (علیہ السلام) ہیں۔ لیکن مخالفین نے اس میں تأویل کرکے کہا کہ نہیں جناب "ولی" کا مطلب "حاکم و سرپرست" نہیں بلکہ اس کا مطلب "دوست" ہے۔

آیت قرآن مجید کی ہے اور فرمان اللہ کا ہے اور مخالفین ولایت کا دینی اور اعتقادی اصول یہ ہے کہ آیت قرآنی کی تأویل نہ کی جائے بلکہ اس کے ظاہری مفہوم پر ہی اکتفا کیا جائے کیونکہ اس عقیدے کے مطابق قرآن کی تأویل ممکن نہیں ہے اور اس کے باطنی معانی کا ادراک بھی ممکن نہیں ہے یہاں تک کہ جب سورہ طٰہٰ کی پانچویں آیت "الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى" (طہ – 5) = وہ سب کو فیض پہنچانے والا ہے اس کا عرش پر اقتدار قائم ہے" نازل ہوئی تو حضرات نے کہا کہ اور خدائے مہربان عرش پر رونق افروز ہؤا (بیٹھ گیا) اور اس آیت کو تجسیم پروردگار کی دلیل قرار دیتے ہوئے خدا کو صاحب جسم قرار دیا۔ مگر جو بھی آیت اہل بیت (علیہم السلام) کے بارے میں اتری ان ہی حضرات نے اس کی تأویل کو جائز قرار دیا!

اور ہاں! یہ بات میں نے ایسے ہی نہیں کہی کہ ولایت کے مخالفین خدا کو تجسیم کے بھی قائل ہیں اور اللہ کو جسم سمجھتے ہیں بلکہ یہ 1987 کی بات ہے جب اللہ تعالی نے حج بیت اللہ کی توفیق عطا فرمائی؛ جہاں بھی پہنچتے وہابی تعلیمات سے محروم نہیں رہتے تھے اور ہر مقام پر اسی مقام کے موقع و مناسبت سے وہابی تبلیغی مواد سے نوازا جاتا تھا اور وہابی ہر ملک کے حجاج کو ان کی زبان میں یہ مواد فراہم کرتے تھے۔ عرفات پہنچے تو یہ حضرات پہنچ آئے اور کوئی تین کتابچے مجھے بھی تھما دیئے؛ عجیب بات یہ تھی کہ جب ایک کتابچہ کھولا تو جو کچھ سب سے پہلے نظر آیا وہ کچھ یوں تھا: "آج یوم عرفہ ہے اور یہ میدان عرفات ہے؛ آج یوم دعا ہے اور جان لو کہ الله تعالیٰ آج کے دن "زمین والے آسمان" پر اتر کر آ بیٹھا ہے اور تمہاری دعائیں سنی جا رہی ہیں اور اللہ انہیں قبول فرماتا ہے". اور ان کی اس بات سے یہی ثابت ہو رہا تھا کہ وہ الله کے لئے جسمانیت کے قائل ہیں جو کسی وقت کسی خاص مقام پر جا کر بیٹھتا ہے اور بندوں کا مشاہدہ کرتا اور ان کی باتیں سنتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اگر اللہ کو (معاذاللہ) جسمانیت کے وصف سے متصف کیا جائے تو ایسی صورت میں اگر وہ کہیں پہنچتا ہے تو دوسرے مقامات سے غائب ہوگا اور یہ بہت بڑی خامی ہے جبکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ پوری کائنات میں موجود ہے اور وہ الله کی ذات اس باطل تصور سے بہت بالاتر اور جسمانیت اور کلی طور پر مادی اوصاف سے پاک و منزہ ہے؛ جگہ نہیں گھرتا بلکہ نور مطلق اور شعور مطلق ہے۔

بہر صورت جب یہ آیت اتری تو حضرات نے آیت کے مصداق اور اس کی دلالت کو پسند نہ کیا؛ انہیں اللہ کا فرمان پسند نہ آیا چنانچہ اللہ پر بدظنی کا اظہار کرنے لگے ـ شاید وہ ایسا کرنا نہیں چاہتے تھے مگر وہ اس بدگمانی میں مبتلا ہوگئے تھے چنانچہ ـ خدا کے فرمان کا سیدھا مفہوم چھوڑ کر اس کی تأویل میں لگ گئے اور کہنے لگے کہ اس آیت میں "ولی" کا مطلب "حاکم" نہیں ہے بلکہ "دوست" ہے!۔

اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور قرآن کریم اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا اعتبار خدا سے اور مسلمانوں کا اعتبار اسلام سے ہے تو پھر خدا کی بات کیوں نہیں مانی گئی اور اس میں تأویل کیوں ہونے لگی؟

ہم پوچھتے ہیں: اللہ تعالی لوگوں کو اپنی حاکمیت ماننے کا حکم دیا لیکن یہ کونسی بات ہوئی کہ اللہ خود آجائے اور لوگوں سے اپنی دوستی جتانا شروع کردے کہ بھئی سنو! میں تمہارا دوست ہوں! میرے رسول (صلی اللہ و آلہ) بھی تمہارے دوست ہیں اور میرے یہ خاص بندے ـ جنہوں نے حالت رکوع میں زکوٰة دی ہے ـ بھی تمہارے دوست ہیں! اگر کہا جائے ـ اور کہا بھی گیا ہے ـ کہ تم اللہ کے دوست بنو تم اللہ والے ہو جاؤ (آل عمران آیت 79) اور اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرو (آل عمران 132) تو یہ بالکل درست ہے لیکن یہاں اللہ کے عمومی رویئے اور خطاب کے برعکس کہا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ "میں اور میرے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور مدینہ کی مسجد میں زکوٰة دینے والے انسان کامل تمہارے دوست ہیں؛ لیکن یہ بات قرآن سے تھوڑی سے آگہی رکھنے والے کسی بھی انسان کو ہضم نہیں ہوتی، آخر قرآن کی اتنی بے حرمتی کیوں ہوتی ہے؟ کیا قرآن تمام مسلمانوں کی کتاب نہیں ہے؟ کیا سب پر اس کی تکریم واجب نہیں ہے؟ بہرحال اس طرح کی تأویلات سے یہ بات بڑی شدت سے محسوس ہورہی ہے کہ اللہ کے کلام کو غیر معتبر سمجھا گیا ہے اور جتایا گیا ہے کہ خدا کے کلام کے وہی معنی درست ہیں جو ولایت کے مخالفین نے بیان کئے ہیں! یہ بڑی عجیب بات ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

اللہ تعالیٰ نے دوستی اور اخوت کے بارے میں پہلے ہی تأکید فرمائی ہے: " إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ" بے شک مؤمنین آپس میں بھائی بھائی ہیں" (حجرات آیت 10) "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ = اے ایمان لانے والو!اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو حوالے موالی نہ بناؤ۔" (سورہ نساء آیت 144) ۔ اس طرح کی کئی آیات قرآن مجید میں موجود ہیں اور کئی احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بھی مؤمنین کو ایک دوسرے کا دوست قرار دیا ہے اور پھر سورہ فتح کی آیت 29 میں ایک بہت مشہور آیت میں ارشاد ہؤا:

"مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ؛ محمد اللہ کے پیغمبر ہیں اور وہ جو ان کے ساتھی ہیں، کافروں کے مقابلے میں سخت، آپس میں بڑے ترس والے اور مہربان ہیں"۔

تو سوال یہ ہے کہ اس "انما ولیکم اللہ" والی آیت نازل کرنے کی ضرورت کیوں پڑی جبکہ یہ آیت نزول کے اعتبار سے قرآن مجید کی آخری آیات میں سے ہے، جب مسلمانوں کے درمیان تمام رشتوں کی تشریح ہو چکی تھی اور اس سے بہت پہلے مدینہ ہجرت کرتے ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مسلمانوں کو بھائی بھائی بنایا تھا اور یہ بھی ولایت کے مخالفین اور دشمنوں کے لئے بڑی سخت بات ہوگی کہ اس دن جب علی (علیہ السلام) نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) آپ نے مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا مگر میرا کسی کے ساتھ اخوت کا رشتہ قائم نہیں فرمایا؛ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ہاتھ بڑھا کر ارشاد فرمایا: اے علی! "أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ؛ تم میرے بھائی ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی"۔ (سنن الترمذی، (مطبوعہ بیرت 1998) ج6، ص80) گو کہ اس عظیم فضیلت کو بھی علی (علیہ السلام) کے لئے امتنیازی فضیلت نہیں سمجھا گیا؛ جبکہ یہ کسی اور کے بارے میں ہوتی تو ظاہر ہے کہ کیا سے کیا کہا اور لکھا جاتا!

چلئے صرف ایک لمحے کے لئے مان لیتے ہیں کہ مخالفین کی بات صحیح ہے اور یہاں اللہ نے اپنے اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو عوام کا دوست قرار دیا ہے لیکن پھر بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ "اس آیت کے مطابق پہلا درجہ اللہ کا ہؤا، دوسرا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ہؤا اور تیسرا امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا؛ یعنی اس تأویل کی روشنی میں بھی آپ کو خدائے متعال اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بعد سب پر مقدم فرمایا اگر ایسا ہے تو پھر دوسرے ان پر مقدم کیوں ٹہرے جبکہ خدا نے انہیں مقدم ٹہرایا ہے!!؟

حدیث غدیر

حدیث کا مرتبہ اعلیٰ ترین ہے، یعنی یہ حدیث متواتر ہے۔ اسی لئے حدیث غدیر کی سند کا ذکر نہیں کرنا چاہتے کیونکہ یہ متواتر حدیث ہے اور ابتدائی طور پر 110 صحابہ سے نقل ہوئی ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے روز غدیر ارشاد فرمایا: "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ وَاحِبَّ مَنْ أحِبَّهُ وَأَبْغِضْ مَنْ أَبْغَضَهُ وَأَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيثُ دَارَ؛

ذرا نکتے دیکھئے اس حدیث میں:

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

* میں جس کا مولا ہوں یہ علی اس کے مولا ہیں

* یا اللہ! محبت کر اس سے جو علی سے محبت کرے

* یا اللہ! تو دشمنی کر اس سے جو علی سے دشمنی کرے

* یا اللہ! مدد فرما اس کی جو علی کی مدد کرے

* یا اللہ! تو اس شخص کی مدد کرنا ترک کردے جو علی کی مدد کرنا ترک کردے

* یا اللہ! تو محب بن اس کا جو علی کا محب ہو

* یا اللہ! تو بغض فرما اور ناراض ہو جا اس سے جو علی کا بغض دل میں بسائے اور علی کو ناراض کرے

اور یہاں ایک خاص دعا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) علی کے حق میں دے رہے ہیں:

* یا اللہ! تو حق اسی جانب موڑدیا کر، جس طرف علی (علیہ السلام) مڑتے ہیں!!

ان نکات میں سے ہر ایک نکتہ قابل غور و تأمل ہے لیکن ہماری بحث کا موضوع یہ نکات نہیں ہیں بلکہ مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ یہ حدیث 110 سنی محدثین نے نقل کی ہے۔ لیکن اس حدیث کے ساتھ بھی سورہ مائدہ کی آیت 55 کا سا سلوک روا رکھا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد چار آیتیں نازل ہوئی ہیں اور کئی دوسرے قرائن بھی ہیں جو اس بارے میں موجودہ باطل خیالات کی تردید کردیتے ہیں۔

مرحوم علامہ عبدالحسین امینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) نے 11 جلدوں پر مشتمل ایک کتاب "الغدیر" کے عنوان سے لکھی ہے جس میں انھوں نے حدیث غدیر کا ہر لحاظ سے احاطہ کیا ہے۔

جب نجف اشرف میں کسی مولوی صاحب نے خط بھیج کر کہا کہ "تم حدیث غدیر سے استناد و استدلال کرتے ہو جبکہ اس حدیث کی کوئی سند نہیں ہے" اور یہ کہ "اگر یہ حدیث صحیح ہے تو آپ (شیعہ علماء) سنی کتب سے اس کا ثبوت کیوں نہیں دیتے" اور اسی خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ "شیعہ علماء نے تاریخ پر کوئی کتاب نہیں لکھی ہے اور شیعہ علماء سنی علماء کی کتابوں سے استفادہ کررہے ہیں" تو دو دوستوں محمدمحسن بن علی منزوی المعروف بہ "آقا بزرگ طہرانی" عبدالحسین بن احمد امینی المعروف بہ "علامہ امینی" (رضوان اللہ علیہما) نے درس و تدریس کا سلسلہ چھوڑ کر ان دو کاموں کی تکمیل کا عہد کیا۔ علامہ آقابزرگ طہرانی نے تاریخ میں شیعہ مؤلفین و مصنفین اور ان کی کاوشوں کی فہرست جمع کرنے اور علامہ امینی نے صرف اور صرف سنی کتب سے حدیث غدیر کو اکٹھا کرنے اور ان کے سنی ثبوت فراہم کرنے کا عہد کیا۔

علامہ امینی نے عہد کیا تھا کہ کسی بھی شیعہ کتاب سے استناد نہیں کریں گے اور انھوں نے اس عہد کو نبھاتے ہوئے لبنان و مصر و حجاز و عراق و ایران و ہند تک کے تمام کتب خانوں میں پہنچ کر وہاں کچھ عرصہ قیام کرکے حدیث غدیر کے ثبوت اکٹھے کئے اور جب 20 سال کا عرصہ گذرا تو دو دوستوں نے دو عظیم مجموعے اور انسائیکلوپیڈیاز تیار کررکھے تھے۔

علامہ طہرانی نے ایک مجموعہ تیار کیا جس کا نام تھا: "الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ" جو 20 جلدوں پر مشتمل تھا۔ یہ 20 جلدیں در حقیقت ایک قسم کی فہرست اور ایک قسم کی تاریخی تصنیف و تألیف ہے۔

علامہ امینی نے بھی الغدیر نامی دائرةالمعارف تیار کرلیا جس کی 11 جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ اس کتاب نے انکار کے تمام راستے بند کردیئے۔

اور ہاں! جس طرح کہ کوئی آیت انّما ولیُّکم اللہ ... کا انکار نہیں کرسکا ہے، کوئی بھی سنی عالم ـ خواہ وہ دشمن ہو یا دوستی کا اظہار کرنے والا اور ولایت کا انکاری ہو ـ نے کبھی بھی حدیث غدیر کا انکار نہیں کیا کیونکہ ایسا کرنا ممکن ہی نہیں ہے بلکہ کئی سنی علماء نے اس کے بارے میں مستقل کتابیں لکھی ہیں؛ کیونکہ غدیر کا واقعہ اہل تشیع کے لئے محدود و مختص نہیں ہے یہ اسلام کی عظیم امانت ہے جس کا تحفظ سنی علماء بھی ضروری سمجھتے آئے ہیں گو کہ یہ باتیں وہابیت کے ظہور سے قبل کے زمانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کتابوں کے قلمی نسخے بعض ممالک میں موجود ہیں جنہیں چھپوانے کی بجائے چھپایا گیا ہے! لیکن اس حدیث کی دلالت و مصداق میں امامت کے مخالفین نے بلا استثنا تأویل جائز گردانی ہے کیونکہ انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا یہ کلام پسند نہیں آیا تھا!! چنانچہ اہل بیت (علیہم السلام) کی فضیلت میں اترنے والی آیات کی تأویل جائز قرار دینے والوں نے جب اللہ سے (معاذاللہ) زیادہ جاننے کا ضمنی اور عملی دعویٰ کرتے ہوئے آیات کی تأویل جائز قرار دیا ہو تو ان سے حدیث پر رحم کرنے کی توقع کرنا بے جا ہوگا۔

جب ایک قوم اپنے بنیادی عقیدے کے خلاف ورزی کرکے خاص قسم کی آیتوں کی تأویل کرکے ان کے معانی و مفاہیم کو بگاڑنے کی جسارت کرسکتی ہے وہ حدیث پر کیونکر رحم کرے گی؟ جبکہ ان کے ماضی قریب اور آج کی نسبت ماضی بعید میں حدیث سوزی کا عظیم واقعہ ہو گذرا ہے جب خلیفہ نے احادیث اکٹھی کروا کر نذر آتش کردیں اور بہانہ یہ بنایا گیا کہ "ممکن ہے کہ کوئی شخص حدیث کو قرآن سمجھ لے، چنانچہ حدیث کو جلا کر دینا چاہئے"۔ ام المؤمنین عائشہ نقل کرتی ہیں: "میرے والد نے 500 حدیثیں جمع کر دیں، انہیں رات کو بستر پر چین نہیں آ رہا تھا، میں فکرمند ہوئی اور پوچھا: کیا آپ بیمار ہیں یا فکرمندی کی وجہ سے نہیں سو رہے ہیں؟ دوسرے روز بوقت صبح کہنے لگے: وہ حدیثیں میرے پاس لاؤ جو تمہارے پاس ہیں، میں لے کر آئی تو انھوں نے انہیں جلا کر راکھ کر دیا۔ میں نے پوچھا: آپ نے احادیث کو کیوں جلایا؟ کہا: مجھے خوف ہے کہ مر جاؤں اور یہ احادیث میرے پاس رہیں، اور اس طرح سے نہ ہوں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مجھ سے فرمایا تھا اور میں نے انہیں نقل کیا ہو"۔ (تذکر‍ۃ الحفاظ، الذہبی، ج1، ص10-11)

البتہ اگر دیکھا جائے کہ حدیث سوزی کا فائدہ کس کو پہنچ سکتا تھا اور اس کا اصل فلسفہ کیا تھا تو یہ امکان بھی ہے کہ حدیث غدیر جیسی احادیث کو ـ جنہیں لوگوں نے لکھ کر محفوظ کرلیا تھا ـ مسلمانوں کے سامنے سے ہٹایا جاسکے! اور اسی طرح امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی خلافت اور اہل بیت (علیہم السلام) کی امامت اور فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیثوں سے حکام کی گلو خلاصی ممکن ہوسکے۔

یہ سلسلہ عمر بن العزیز کے دور تک جاری رہا تھا اور اس دور میں حدیث کو جلانے کے ساتھ ساتھ حدیث بگاڑنے کا سلسلہ بھی شروع ہؤا تھا؛ حدیث نگاری بالکل ممنوع ہوچکی تھی؛ گو کہ آج کے زمانے میں بعض ممالک میں حدیث سوزی توہین رسالت کے زمرے میں آتی ہے، اور حدیث جلانے  والے شخص کو مجرم ٹہرا کر پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے؛ چاہے اس نے اپنے اجتہاد کی رو سے ہی ایسا کیوں نہ کیا ہو! یہ البتہ درست اقدام ہے لیکن صحیح اور متواتر احادیث کی تحریف درست عمل نہیں ہے۔

احادیث جلائی گئیں اور جب علی (علیہ السلام) کو دس میں سے نو درجے کے ایمان پر فائز سلمان، اور بعد کے زمانوں میں حق و باطل کا معیار ٹہرنے والے عمار یاسر اور مقداد بن اسود نیز زبیر بن عوام نے لوگوں کو غدیر خم کا واقعہ یاد دلایا تو تحریر موجود نہ تھی اور بہت سوں نے تو حکام کے خوف سے، اور مخالفین ولایت نے بغض آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بنا پر کہا: "ہمیں یاد نہیں رہا" جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا وصال شیعہ روایت کے مطابق حَجَّۃ الوداع کے 70 دن بعد اور سنی روایت کے مطابق 84 دن بعد ہؤا اور اتنے قلیل عرصے میں اتنا عظیم واقعہ بھلانا ایک غیر فطری عمل ہے اور اگر حجۃ الوداع کے حاجیوں کے اس بھلکڑپن کا یقین کیا جائے تو بہت سی حدیث کی کتابوں کو ممنوع الاشاعت کرنا پڑے گا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے وصال کے کئی عشرے بعد نقل حدیث کرنے کے قابل ہوئے تھے۔

بہرصورت منکرین ولایت و امامت ایک صحیح اور متواتر حدیث کا تو انکار نہ کرسکے لیکن اس کی تأویل کو جائز قرار دیا کیونکہ ان کے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے فرمان کا وہ مطلب نہیں ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سمجھتے تھے یا لوگ سمجھتے ہیں بلکہ اس کا مطلب وہی ہے جو منکرین ولایت سمجھتے ہیں! وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے ناراض تھے چنانچہ دوسرے مقامات پر بھی انھوں نے ایسا ہی کیا بہت سی حدیثیں گڑھ لیں اور کئی مقامات پر عام مسلمانوں کے ذمے اہل بیت (علیہم السلام) مسلمہ حقوق کا بھی انکار کر دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: کہ جس کا میں مولا ہوں یہ علی (علیہ السلام) بھی اس کے مولا ہیں؛ تو اس میں مولا سے مراد دوست ہے! جیسا کہ انہوں نے سورہ مائدہ کی آیت 55 (إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ ...) میں لفظ "ولی" کی من مانی تاویل کے ضمن میں کہا تھا۔

جبکہ اس سے قبل اللہ تعالی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو ایک عجیب حکم دیا تھا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی؛ فرمایا:

"یَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللہ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللہ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ؛ اے پیغمبر ! جو اللہ کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا کچھ پیغام پہنچایا ہی نہیں اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا، بلاشبہ اللہ کافروں کو منزل تک نہیں پہنچایا کرتا"۔ (سورہ مائدہ آیت 67)

یہ حدیث کئی اہم نکتوں پر مشتمل ہے:

اللہ تعالی حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو اپنا حبیب قرار دیتا ہے لیکن یہاں اللہ تعالی نے سخت لب و لہجہ اپنایا ہے؛

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو کچھ میں نے آپ پر نازل کیا اسے لوگوں تک پہنچا دو۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے رسالت کا کام انجام ہی نہیں دیا۔

چوتھا نکتہ یہ ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اس حکم الٰہی کا ابلاغ کرنے کے حوالے سے مسلمانوں کے بعض افراد سے تحفظات رکھتے تھے چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا: اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا۔ اللہ تعالی نے ان کو "ناس" کہا جن سے تحفظات تھے اور ساتھ فرمایا کہ کفار کی گمراہی سے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

پانچواں نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: میں کافرین کے گروہ کو کبھی ہدایت نہیں عطا کرتا۔

چھٹا نکتہ یہ ہے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اب آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی رسالت کا دور مکمل ہونے والا ہے اور اس حکم کا ابلاغ فرما کر آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی رسالت کا بڑا حصہ مکمل ہوجائے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ:

* یہ کیسی دوستی تھی جس کے اعلان کے لئے اللہ تعالی نے اپنے حبیب سے اس لہجے میں بات کی،

* یہ کیسی دوستی تھی کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس کا اعلان نہ کیا تو گویا آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے رسالت کی ذمہ داری نبھائی ہی نہیں ہے!

* یہ کیسی دوستی تھی جس کا اعلان کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو تحفظات کا سامنا تھا؟

* یہ کیسی دوستی تھی جس کا اعلان کرتے وقت اللہ تعالیٰ کو فرمانا پڑا کہ "میں لوگوں سے آپ کی حفاظت کروں گا؟

٭ ان سوالات کا جواب نہ ملنے کی صورت میں کیا ہمیں اس سادہ سی بات کی طرف نہیں لوٹنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر جو کچھ نازل فرمایا تھا وہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولایت و خلافت کا اعلان تھا؟

اب ایک بار پھر خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے کلام کی تأویل کی طرف لوٹ آتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ:

چلئے مان لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہوگا کہ "اے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ)! مسلمانوں سے کہہ دیجئے کہ میں جس کا دوست ہوں یہ علی (علیہ السلام) بھی اس کے دوست ہیں لیکن اس سے قبل معترضین و معارضین و مخالفین اور منکرین ولایت کو بعض بنیادی سوالات کا جواب دینا پڑے گا؛

سوالات کچھ یوں ہیں:

1۔ سورہ مائدہ کی آیت 55 (إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ ...) مدینہ میں نازل ہوئی تھی اور اس میں خداوند متعال نے فرمایا تھا کہ میں بھی تمہارا ولی ہوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھی تمہارے ولی ہیں اور وہ مؤمن کامل (علی (علیہ السلام)) بھی تمہارا ولی ہے جو نماز قائم کرتا ہے اور رکوع کی حالت میں زکٰوة بھی دیتا ہے ... الله نے فرمایا میں تمہارا حاکم و سرپرست ہوں اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھی اور علی (علیہ السلام) بھی تمہارے حاکم و سرپرست ہیں لیکن مخالفین نے کہا کہ نہیں "ولی" کا مطلب دوست ہے؛ چلئے ہم نے مان لیا کہ اس "ولی" کے معنی وہی ہیں جو تم کہتے ہو لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ دوستی کا یہ اعلان تو مدینہ میں ہوچکا تھا آیت 55 کے ضمن میں، پھر یہ غدیر کے مقام پر ناقابل برداشت گرمی میں، تھکے ماندے حاجیوں کو تین دن تک لق و دق صحرا میں بٹھا کر یہی اعلان دوباره کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

2- کیا دوستی اور اخوت و برادری کا اعلان 23 سالہ تبلیغ رسالت کے دوران درجنوں بار نہیں ہؤا تھا؟ اگر نہیں ہؤا تھا تو "انماالمؤمنون اخوة"، "مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ؛" اور "لاَ تَتَّخِذُواْ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ" اور ان جیسی متعدد آیات قرآنی اور اسی مضمون پر کثیر تعداد میں مروی حدیثوں کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟

3۔ اگر مان لیا جائے کہ آخری حج کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو آپ کی حیات طیبہ کے آخری اور حساس ایام میں مکہ سے مدینہ تشریف لاتے ہوئے، حکم ہؤا کہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) امت مسلمہ کے ساتھ "علی کی دوستی" کا اعلان کر ہی دیں تو حجاج کو نہایت شدید گرمی میں روکنا کیوں پڑا! تین دن تک پڑاؤ ڈالنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ لوگوں کو دوستی کے اس معمولی سے اعلان کے لئے زحمت کیوں دینا پڑی؟ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اونٹ کے پیٹھ سے ہی اللہ کی طرف سے اس مفروض دوستی کا اعلان نہیں کرسکتے تھے؟ کیا آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) غدیر خم سے گذر کر دور ہونے والوں کو واپس بلانے اور پیچھے رہنے والوں کو موقع پر پہنچنے کی ہدایت دینے کے بجائے لوگوں سے نہیں فرما سکتے تھے کہ حاضرین سن لیں اور غائبین کو بھی ابلاغ کریں کہ "میں جس کا دوست ہوں یہ علی (علیہ السلام) بھی اس کے دوست ہیں؟!

4- غدیر خم ایک لق و دق صحرا کا نام ہے جہاں رہن سہن کی سہولیات نہیں تھیں اور کوئی عمارت نہ تھی اور کوئی سایہ بھی نہ تھا، منبر و محراب بھی نہ تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے حکم دیا کہ "اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنائیں اور پھر لوگوں کو جتایا:

"کیا میں تم ہر روز لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ورد نہیں کرتے ہو؟ کیا تم میرے لئے اپنی جانوں پر اپنے سے زیادہ حق کے قائل نہیں ہو؟ اور یہ کہ "میں تمہارے درمیان دو گرانقدر اشیاء چھوڑے جارہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت و اہل بیت (علیہم السلام) ان دونوں کا دامن تھامے رہوگے تو گمراہی سے بچ کر رہو گے اور جان لو کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہونے والے نہیں ہیں جب تک یہ حوض کوثر کے کنارے مجھ سے آ ملیں۔ پھر علی (علیہ السلام) کو بلایا اور اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور اس قدر اونچا اٹھایا کہ راویوں نے کہا ہے کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی سب کو نظر آنے لگی اور پھر فرمایا: من کنت مولاه فهذا علی مولاه"۔

یاد رہے کہ حدیث ثقلین بھی غدیر کے مقام پر زبان نبوی سے صادر ہوئی اور اس کے منابع و مآخذ اور غیر شیعہ کتب سے اس کے ثبوت دیکھنے کے لئے حدیث و تفسیر کی کتب سے رجوع فرمائیں۔

اب اگر فرض کیا جائے کہ مولا سے مراد دوست ہے تو اتنے اہتمام کی اور اتنی زیادہ زحمت و مشقت کی ضرورت ہی کیا تھی؟

5۔ اگر اللہ کے حکم کا حکم امت سے علی (علیہ السلام) کی دوستی کا اعلان کرانا تھا تو سخت لب و لہجے کی ضرورت کیوں پڑی؟ کہ گر آپ نے ایسا نہ کیا تو ...

6۔ اگر ہدف دوستی کا اعلان تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بڑا خیمہ لگوا کر مسلمانوں سے علی (علیہ السلام) کے ساتھ بیعت کرنے کا فرمان کیوں جاری کیا؟ اور لوگوں سے کیوں فرمایا کہ "آؤ اور مجھے علی کی ولایت اور دین کے مکمل ہونے پر مبارک باد دو"؟ کیا مسلمانوں سے علی (علیہ السلام) کی دوستی کے اعلان کے لئے علی (علیہ السلام) کی بیعت کرنا اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو مبارک دینا عجیب نہیں ہے؟ اور یہ ولایت واقعی امامت و خلافت کے سوا کچھ اور ہوسکتی ہے؟

7. غدیر کی دن جب ولایت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا اعلان ہؤا تو الله تعالیٰ نے دین اسلام سے کفار کی نا امیدی، الله سے ڈرنے اور کفار سے نہ ڈرنے کا حکم دیتے ہوئے اور اکمال دین و اتمام نعمت اور ایک بار پھر دین اسلام کو ہمارے لئے پسند فرمانے کا اعلان کرتے ہوئے آیت بھیجی: "الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ ديناً (مائده - 3)" = آج کافر لوگ تمہارے دین کی طرف سے نااُمیدہو گئے ہیں تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین کوکامل کر دیااور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کر لیا۔

سوال یہ ہے کہ اگر ولایت سے مراد دوستی تھی تو:

یہ کیسی دوستی تھی جس کے اعلان کے ساتھ ہی کفار دین اسلام کو نقصان پہنچانے سے ناامید ہوگئے؟

یہ کیسی دوستی تھی جس کا اعلان ہونے کے بعد خاص طور مسلمانوں کو صرف خدا سے ڈرنا اور کفار سے نہیں ڈرنا چاہئے؟

یہ کیسی دوستی تھی جس کے اعلان کے ساتھ ہی الله نے اپنے دین کے مکمل ہونے کا اعلان کیا؟

یہ کیسی دوستی تھی جس کا اعلان ہوتے ہی الله نے مسلمانوں پر اپنی نعمتِ اسلام تمام اور کامل کرنے کا اعلان کیا؟

یہ کیسی دوستی تھی جس کے بعد الله تعالی نے اسلام کے مکمل ہونے کے بعد ایک بار پھر اعلان کیا کہ "میں نے تمہارے لئے یہ اسلام ـ جو آج مکمل ہوگیا ہے ـ پسند کیا؟ جبکہ اس سے قبل بھی اللہ تعالی نے اعلان فرمایا تھا کہ "إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ؛ بلاشبہ حقیقی دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے"۔ (آل عمران - 19)

سوال نمبر 8 آخر میں ملاحظہ فرمائیں

اور ہاں اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے کہ قرآنی آیات کی تأویل بالرائے ـ بالخصوص اگر وہ قرآن و حدیث سے مغایرت رکھتی ہو ـ حرام اور باعث عذاب و عِقاب ہے اور اہل بیت (صلی اللہ علیہ و آلہ) قرآن کے قرین ہیں [بطور خاص حدیث ثقلین کی رو سے]،  اور قرآن سے جدا ہونے والے نہیں ہیں چنانچہ آیات کے معانی و مفاہیم میں تبدیلی در حقیقت آیات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں ایسی آیات کا حوالہ دیا جا رہا ہے جو خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آیات الہی کا مذاق اڑانے اور مذاق اڑانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں؛ ان آیات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا  صرف ان کا ترجمہ پیش کیا ہے۔ ان کی تلاوت کی جائے اور ان میں غور و تدبر کیا جائے، اور یوم الحساب، اپنی نجات کے بارے میں ضرور سوچا جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جس کو دین سمجھ رہے ہیں وہ دین نہ ہو! یا ہم جن عقائد کو اسلامی عقائد سمجھ رہے ہیں وہ اسلام سے دور کا تعلق بھی نہ رکھتے ہوں؛ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم الله کی آیات کا مذاق اڑانے اور الله پر بدگمانی کرنے والوں میں شمار ہوجائیں!!

الله کی آیتون پر بدگمانی نه کرنا؛ شک نه کرنا؛ الله کی آیتوں کا مذاق مت اڑانا:

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

٭ "وَلاَ تَتَّخِذُوَاْ آيَاتِ اللہ هُزُوًا وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللہ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ وَاتَّقُواْ اللہ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ؛ اور اللہ کے احکام کو مذاق نہ بناؤ اور یاد کرو اللہ کا احسان جو تم پر ہے اور اس نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری ہے۔ اس کے ذریعے سے تمہیں نصیحت کرتا ہے اور اللہ کے غضب سے بچو اور سمجھے رہو کہ بلاشبہ اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے"۔ (البقرہ، 231)

٭ "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاء وَاتَّقُواْ اللہ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ٭ وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَعْقِلُونَ؛ اے ایمان لانے والو ! اس جماعت میں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب عطا ہوئی ہے، ان لوگوں کو جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل سمجھ رکھا ہے اور کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ کے غضب سے بچو اگر تم ایمان رکھتے ہو * اور جب تم نماز کے لیے اذان دیتے ہو تو وہ اسے مذاق اور کھیل کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے"۔ (المائدہ، 57 و 58) یہ دو آیتیں آیت ولایت (آیت نمبر 55) کے بعد آئی ہیں۔

٭ "وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَيُجَادِلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَمَا أُنذِرُوا هُزُوًا؛ اور ہم نہیں بھیجتے پیغمبروں کو سوا خوش خبری دینے والے اور (عذاب سے) ڈرانے والے کے اور جو کافر ہیں وہ غلط دلائل سے بحث کرتے ہیں تاکہ ان سے حق کو شکست دیں اور انہوں نے مذاق بنا لیا میری آیتوں کو اور جو انہیں ڈرایا گیا"۔ (الکہف، 56)

٭ "ذَلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا؛ "یہ ان کی سزا ہے دوزخ، اس وجہ سے کہ انھوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے پیغمبروں کا مذاق اڑایا۔ (الکہف، 106)

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَيُجَادِلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَمَا أُنذِرُوا هُزُواً؛ اور ہم نہیں بھیجتے پیغمبروں کو سوا اس کے وہ خوش خبری دینے والے اور (عذاب سے) ڈرانے والے ہیں اور جو کافر ہیں وہ غلط دلائل سے جدل کرتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے حق کو شکست دیں اور انہوں نے میری آیتوں کو اور ـ اور جو انہیں ڈرایا گیا ـ مذاق بنا لیا"۔ (الکہف، 56)

* "أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْناً؛ یہ وہ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کی بارگاہ میں حاضری کا انکار کیا تو ان کے اعمال اکارت گئے۔ اب ہم روز قیامت ان کے لئے کسی قدر و قیمت کے قائل نہیں ہونگے"۔ (الکہف، 105)

* "ذَلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُواً؛ یہ دوزخ ان کی سزا ہے ، اس وجہ سے کہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے پیغمبروں کا مذاق اڑایا"۔ (الکہف، 106)

٭ "وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُم بِذِكْرِ الرَّحْمَنِ هُمْ كَافِرُونَ؛ اور جب کافر لوگ آپ کو دیکھتے ہیں تو بس آپ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ [کہتے ہیں] "کیا یہی وہی ہے جو تمہارے معبودوں کا [بدی کے ساتھ] تذکرہ کیا کرتا ہے؟"اور ان کا عالم یہ ہے کہ وہ خدائے رحمٰن کے ذکر کے منکر ہیں"۔ (الانبیاء 36)

٭ "وَإِذَا رَأَوْكَ إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَذَا الَّذِي بَعَثَ اللہ رَسُولًا؛ اور جب وہ آپ کو دیکھیں گے تو بس آپ کا مذاق اڑائیں گے، کیا یہ وہ ہے جسے اللہ نے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے؟" (الفرقان، 41)

٭ "وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللہ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ * وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّى مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ؛ اور انسانوں میں ایسا شخص بھی ہوتا ہے جو تفریحی باتوں کا خریدار ہے تاکہ [لوگوں کو] اللہ کے راستے سے بغیر واقفیت کے، بھٹکائے اور اس کا مذاق اڑائے؛ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے * اور جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پیش ہوتی ہیں تو وہ منہ موڑتا ہے تکبر سے کام لیتا ہؤا، جیسے کہ اس نے سنا ہی نہیں، جیسے کہ اس کے کانوں میں گرانی ہے تو اسے خوشخبری دو دو ذلت آمیز عذاب کی"۔

٭ "وَيْلٌ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ * يَسْمَعُ آيَاتِ اللہ تُتْلَى عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ * وَإِذَا عَلِمَ مِنْ آيَاتِنَا شَيْئًا اتَّخَذَهَا هُزُوًا أُوْلَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ؛ وائے [اور ہلاکت] ہو ہر گنہگار جھوٹے کے لئے * جو سنتا ہے آیات الٰہی کو کہ وہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں، پھر وہ تکبر سے کام لیتا ہؤا ہٹ دھرمی کرتا ہے جیسے کہ انہیں اس نے سنا ہی نہیں تو اسے خوشخبری دیجئے دردناک عذاب کی * اور جب ہماری نشانیوں میں سے کسی کا اسے علم ہوتا ہے تو اسے مذاق کا ذریعہ بنا لیتا ہے یہ وہ ہیں کہ ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے"۔

٭ "وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا عَمِلُوا وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُون * وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَذَا وَمَأْوَاكُمْ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ * ذَلِكُم بِأَنَّكُمُ اتَّخَذْتُمْ آيَاتِ اللہ هُزُوًا وَغَرَّتْكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فَالْيَوْمَ لَا يُخْرَجُونَ مِنْهَا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ؛ اور ان کے سامنے آئیں برائیاں اس کی جو انہوں نے کیا تھا اور گھیر لیا انہیں اس نے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے * اور کہا گیا کہ آج ہم تمہیں بھلاوے میں ڈالتے ہیں جس طرح تم نے بھلایا تھا اپنے اس دن کے سامنے آنے کو اور تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے اور تمہارے کوئی مددگار نہیں ہیں * اس لیے کہ تم نے آیات الٰہی کا مذاق اڑایا اور تمہیں دنیوی زندگی نے فریب میں مبتلا کیا تو اب آج وہ یہاں سے نکل نہیں سکتے اور نہ ان سے رضاجوئی کا مطالبہ ہو سکتا ہے"۔ (الجاثیہ 33 تا 35)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غدیر کا واقعہ ان آیات شریفہ کے نزول پر مکمل ہؤا:

"سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ * لِّلْكَافِرينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ * مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ؛ ایک طلب کرنے والے نے طلب کیا اس عذاب کو جو ہونے ہی والا ہے * کافروں کے لئے، اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ہے * اللہ کی طرف سے جو بلندی کے زینوں کا مالک ہے"۔ (المعارج - آیات 1 تا 3)

ان آیات کریمہ کی شان نزول کا مطالعہ کرکے بڑی صراحت کے ساتھ اس حقیقت کا ادراک کیا جاسکتا ہے کہ یہ حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولایت و خلافت کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں۔

مرحوم علامہ عبدالحسین امینی (رضوان اللہ علیہ) نے ان آیات کے نزول کے اسباب کو اہل سنت کے مشہور و معروف علماء کی کتب سے نقل کیا ہے۔ وہ اہل سنت کے ان ہی علماء کے حوالے سے لکھتے ہیں: غدیر خم میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولایت و خلافت بلا فصل کا اعلان ہؤا تو "جابر بن النضر بن الحارث بن کلدہ العبدری" نامی شخص کو بهی یہ اعلان اچها نہ لگا اور اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے سامنے آکر گستاخی کی انتہا کرتے ہوئے کہا: تو نے ہمیں توحید خداوندی اور اپنی رسالت اور نماز و روزہ و حج و زکوٰة قبول کرنے کی دعوت دی تو ہم نے یہ سب قبول کیا اور اب تو نے ہماری اتنی ساری اطاعت پر اکتفا نہ کیا اور اپنے چچازاد بهائی کو ہم پر برتری عطا کی اور کہا کہ "میں جس کا مولا ہوں علی بهی اس کے مولا ہیں"؛ بتا کہ یہ بات خود تیری طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے؟

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: اللہ کی قسم! یہ سب اللہ ہی کی جانب سے ہے۔

جابر بن نضر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا جواب سننے کے بعد اپنے سازو سامان کی طرف لوٹنے لگا اور جاتے ہوئے کہہ رہا تھا: "پروردگارا! اگر تیرے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بات درست ہے تو آسمان سے ایک پتھر بھیج یا عذاب نازل فرما! (بعض مفسرین نے کہا ہے کہ خدا سے عذاب مانگنے والے شخص کا نام حرث

ابھی جابر بن نضر اپنے سازو سامان تک نہیں پہنچ پایا تھا کہ ایک پتھر آسمان سے نازل ہوکر اس کے سر کو لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہو کر مرگیا۔ (علامہ عبدالحسین امينى – کتاب "الغدير" - جلد1 صفحہ 239 تا 246.

علامہ امینی نے یہ واقعہ نقل کرنے والے انتیس علماء کے حوالے کچھ یوں بیان کئے ہیں:

1۔ الحافظ أبو عبید الہروی- تفسیر "غریب القرآن" ج 4 ص223۔

2- أبو بکر النقاش الموصلی البغدادی المتوفى 351 - تفسیر " شفاء الصدور "۔

3- أبو إسحاق الثعلبی النیسابوری المتوفى 427 / 37، تفسیر"الکشف والبیان"۔

4- الحاکم أبو القاسم الحسکانی - کتاب - "دعاۃ الہداۃ إلى أداء حق الموالاۃ"۔

5- أبو بکر یحیى القرطبی المتوفى 567 - تفسیر سورۃ المعارج۔

6- شمس الدین أبو المظفر یوسف بن حسام الدین، المعروف بہ سبط ابن الجوزی الحنفی المتوفى 654، "تذکرۃ الخصاص" ص 19۔ انھوں نے اللہ سے عذاب مانگنے والے شخص کا نام "حرث بن نعمان الفہری" نقل کیا ہے۔ علامہ امینی نے لکھا ہے کہ اس شخص کا باپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حکم پر امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے ہاتھوں ہلاک ہؤا تھا۔

7- الشیخ إبراہیم بن عبد اللہ الیمنی الوصابی الشافعی، کتاب - "الاکتفاء فی فضل الأربعۃ الخلفاء" - حدیث الثعلبی المذکور ص 240۔

8- شیخ الاسلام الحموینی المتوفى 722؛ "فراید السمطین " باب الثالث عشر۔

9- الشیخ محمد الزرندی الحنفی دو کتابیں "معارج الوصول " اور "درر السمطین "۔

10- شہاب الدین أحمد دولت آبادی المتوفى 849، کتاب - "ہدایۃ السعداء" - "الجلوۃ الثانیۃ من الہدایۃ الثامنۃ"۔

11- نور الدین ابن الصباغ المالکی المکی المتوفى 855۔ کتاب "الفصول المہمۃ" ص 26۔

12- السید نور الدین الحسنی السمہودی الشافعی المتوفى 911 - کتاب "جواہر العقدین"۔

13- أبو السعود العمادی المتوفى 982، - "تفسیر العمادی" ج 8 ص 292۔

14- شمس الدین الشربینی القاہری الشافعی المتوفى 977 - تفسیر "السراج المنیر" 4 ص 364۔

15- السید جمال الدین الشیرازی المتوفى 1000، - کتاب "الأربعین فی مناقب أمیر المؤمنین (علیہ السلام)" - الحدیث الثالث عشر۔

16- الشیخ زید الدین المناوی الشافعی المتوفى 1031 - کتاب "فیض القدیر فی شرح الجامع الصغیر" 6 ص 218 - شرح حدیث الولایۃ۔

17- السید ابن العیدروس الحسینی الیمنی المتوفى 1041 - کتاب "العقد النبوی والسر المصطفوی"۔

18- الشیخ أحمد بن باکثیر المکی الشافعی المتوفى 1047 - کتاب "وسیلۃ المآل فی عد مناقب الآل"۔

19- الشیخ عبد الرحمن الصفوری، - کتاب "النزہۃ" ج 2 ص 242 حدیث القرطبی۔

20- الشیخ برہان الدین علی الحلبی الشافعی المتوفى 1044 - کتاب "السیرۃ الحلبیۃ" 3 ص 302۔

21- السید محمود بن محمد القادری المدنی، - کتاب "الصراط السوی فی مناقب النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ)"۔

22- شمس الدین الحفنی الشافعی المتوفى 1181 - کتاب "شرح الجامع الصغیر للسیوطی" 2 ص 387۔

23- الشیخ محمد صدر العالم سبط الشیخ أبی الرضا - کتاب "معارج العلى فی مناقب المرتضى (علیہ السلام)"۔

24- الشیخ محمد محبوب العالم - کتاب "تفسیر شاہی"۔

25- أبو عبد اللہ الزرقانی المالکی المتوفى 1122 - کتاب "شرح المواہب اللدنیۃ" 7 ص 13۔

26- الشیخ أحمد بن عبد القادر الحفظی الشافعی - کتاب "ذخیرۃ المآل فی شرح عقد جواہر اللآل"۔

27- السید محمد بن إسماعیل الیمانی المتوفى 1182 - کتاب "الروضۃ الندیۃ فی شرح التحفۃ العلویۃ"۔

28- السید مؤمن الشبلنجی الشافعی المدنی "نور الأبصار فی مناقب آل بیت النبی المختار (صلی اللہ علیہ و آلہ) ص 78۔

29- الأستاذ الشیخ محمد عبدۃ المصری المتوفى 1323 - کتاب "تفسیر المنار" ج 6 ص 464 عن الثعلبی۔ اس کے بعد انھوں نے اس باب میں ابن تیمیہ کے دعوے کی تردید کی ہے اور آپ بھی پڑھیں گے تو جدید دور کے امام المنکرین و التکفیریین اور وہابی و سلفی اسلام کے اصلی بانی "ابن تیمیہ" کے کلام کے بطلان سے واقف ہوجائیں گے۔

.......

سورۃالمعارج کی پہلی آیات کی روشنی میں سوال نمبر 8 اور اس کے ضمنی سوالات یہاں ملاحظہ فرمائیں:

سورۃالمعارج کی پہلی تین آیات کے سبب نزول کو مدنظر رکھ کر کچھ مزید سوالات اٹھتے ہیں جنہیں بیان کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے:

- اگر من کنت مولاہ فهذا علی مولاه میں مولا سے مراد دوست ہے تو جابر بن نضر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ کیوں کہا کہ "تو نے اب اپنے چچا زاد بھائی کو ہم پر برتری دی؟" کیا دوست دوستوں پر برتری رکھتا ہے، یا پهر حاکم ہے جو محکومین پر برتری رکھتا ہے؟

- کیا یہ علی (علیہ السلام) کی دوستی کا اعلان تھا جو جابر کو اتنا گراں گذرا تھا یا پھر ولایت و خلافت کا اعلان تھا جو کسی بھی منکر یا دشمن یا مخالف کو گراں گذر سکتا تھا اور گراں گذر سکتا ہے؟ جیسا کہ یہ اعلان بہت سوں گراں گذرا اور اس وقت بھی بہت سوں کو گراں گذر سکتا ہے۔

- کیا صرف جابر بن نضر ہی تھا جس نے انکار ولایت کیا یا دوسرے بھی اس کے ساتھ اس انکار میں شریک تھے؟؟؟

- جابر بن نضر کو ولایت علی (علیہ السلام) گراں گذری تو اس نے اللہ سے عذاب کی التجا کی اور اس پر عذاب نازل ہؤا؛ تو جن لوگوں نے ولایت علی (علیہ السلام) کا عملاً انکار کیا اور بیعت کرکے توڑ دی کیا ان لوگوں کا اخروی مقام جابر بن نضر سے بہتر ہوگا؟؟؟

- اللہ کا عذاب بھی تو اس کی ایک آیت و علامت ہے؛ تو کیا اس نشانی کو دیکھ کر بھی عبرت حاصل نہ کرنے والے اور ولایت کو جھٹلا کر اور اس کا درجہ ولایت و خلافت سے گھٹا کر دوستی میں بدلنے ـ اور دوستی کا اقرار کرکے دشمنی کرنے والے ـ اس عظیم آیت کو جھٹلانے والوں کے زمرے میں شمار نہیں ہونگے؟ اور پھر ولایت کو جھٹلانے والوں کا دامن پکڑ کر ولایت کے تاجدار کو مؤخر و مفضول سمجھنا اور حتیٰ کہ اس پورے واقعے کو جھٹلانا اور علی و آل علی (علیہم السلام) کے دشمنوں سے دوستی کے پینگے بڑھانا اور اہل بیت (علیہم السلام) اور ان کے دوستوں سے دشمنی کرنا، نقص ایمان کا سبب نہیں ہوگا؟

........

اس مضمون کا آغاز آیت قرآنی سے ہؤا تھا اور اس کا اختتام بھی قرآن کی نورانی آیات سے کرتے ہیں جہاں جھٹلانے والوں سے خدا کی ناامیدی کا اعلان ہوتا ہے:

ارشاد ربانی ہے: "وَإِن تُكَذِّبُوا فَقَدْ كَذَّبَ أُمَمٌ مِّن قَبْلِكُمْ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ" اور اگر تم جھٹلاؤ تو تمہارے پہلے بہت سی قوموں نے جھٹلایا اور نہیں ہے پیغمبر کے ذمے مگر کھلی ہوئی تبلیغ۔ (العنكبوت - 18)

"وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ (یس - 17) - اور ہمارے ذمے نہیں ہے مگر صاف صاف پہنچادینا"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: فرحت حسین مہدوی

واضح رہے کہ یہ تحریر کئی سال قبل ابنا پر شائع کی گئی تھی لیکن کچھ فنی خرابیوں کی وجہ سے مکمل طور پر محفوظ نہیں رہ سکی تھی، چنانچہ اسے اصلاح کے ساتھ اسے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110