غدیر معارف کا سمندر ہے جس مں فقہ، تعلیم و تربیت، کلام، اخلاق و تفسیر جمع ہیں۔ افسوس کے اس کے گوہر ابھی تک منکشف نہیں ہوئے ہیں۔ گوکہ غدیر کے با سخاوت ہاتھ کبھی اپنے ساحل نشینوں کے لئے بعض نفیس اور عمدہ دانے بھجوا دیتا ہے۔
اس مقالے میں فقہ غدیر پر بحث مقصود ہے اور اصلی بحث میں داخل ہونے سے قابل چند نکات کی طرف اشارہ لازمی ہے:
فقہ غدیر سے مراد اس دن کے مستحب اعمال ہیں۔ روایات و احادیث میں 36 اعمال اس دن کے لئے بیان کئے گئے ہیں:
٭ اس قدر احکام ایک دن کے لئے وارد ہونا، اس دن کی اہمیت اور حساسیت و عظمت کی دلیل ہے۔ اسلام میں کسی دین کے لئے اتنی روایات و احادیث وارد نہيں ہوئی ہیں۔ عید فطر و عید ضحی اور عرفہ و مباہلہ کے لئے وارد ہونے والے اعمال و آداب کو ملائیں تو بھی عید غدیر کے اعمال و آداب کے برابر نہ ہونگے۔
٭ فقہ غدیر کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس دن وارد ہونے والے اعمال جامع ہیں اور ہر مسئلے کے لئے ایک حکم وارد ہوا ہے؛ جامع اور کمی بیشی سے عاری اعمال؛ عبادات کے ساتھ ساتھ اس دن کے لئے سیاسی اعمال، اجتماعات اور معاشی منصوبے بھی وارد ہوئے ہیں ان اعمال کی وسعت اور افزودگی اس قدر ہے کہ کہا جاسکتا ہے کہ غدیر کی مکمل فقہ کے آئینے میں کمال دین متجلی ہوا ہے۔
٭ غدیر کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس دن کے اعمال کے لئے منفرد فضائل اور ثواب و پاداش کا تعین کیا گیا ہے جن کی مثال کہیں اور نہیں ملتی اور ان اعمال کے فضائل حتی کہ ماہ رمضان کے اعمال کے فضائل سے کہیں زيادہ ہیں۔ مرحوم حاج میرزا جواد ملکی تبریزی کہتے ہیں: جو فضیلت روز غدیر کے لئے وارد ہوئی ہے وہ ماہ مبارک رمضان کی فضیلت سے کہیں زيادہ ہے"۔ (1) اعمال غدیر کے ضمن میں بعض فضائل کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔
٭ روز غدیر کے لئے اتنے سارے اعمال ـ جن کی فضیلت غیر معمولی ہے ـ روز غدیر کے لئے کیوں قرار دیئے گئے ہیں؟ امام صادق (علیہ السلام) اس سوال کا جوا دیتے ہوئے فرماتے ہیں: "اعظاماً ليومك"، یعنی اس لئے کہ تم اس دن کی تعظیم کرو اور اس کو عظمت کے ساتھ مناؤ۔ (2) امام صادق (علیہ السلام) کے اس ارشاد سے دو حقیقیں سامنے آتی ہیں: ایک یہ کہ یوم غدیر کی تعظیم و تکریم ہونی چاہئے اور دوسری بات یہ کہ روز غدیر کی تکریم و تعظیم خاص اعمال انجام دے کر انجام پاتی ہے۔
افطار دینا
روز غدیر کے اعمال میں مؤمنین کو افطار دینا (افطار کرانا) بہت اعلی درجے کا عمل ہے۔ روایات کے مطابق اس عمل میں ثواب عظیم مضمر ہے۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"۔۔۔ ومن فطر مؤمنا في ليلته فكأنما فطر فئاما وفئاما يعدها بيده عشرة "۔ فنهض ناهض فقال: يا أمير المؤمنين وما الفئام ؟ قال: " مائة ألف نبي وصديق وشهيد۔۔۔"۔ (3)
جو کوئی کسی روزہ دار مؤمن کو روز غدیر کے روزے کا افطار کرائے وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے دس فئاموں کو ـ افطار کرایا ہو۔ پس ایک شخص اٹھا اور عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! فئام کیا ہے؟ فرمایا: ایک لاکھ انبیاء اور صدیقین و شہداء"۔
اسی طرح کی ایک روایت حضرت امام صادق علیہ السلام سے بھی نقل ہوئی ہے۔ (4) بعض روایات کے مطابق امام رضا علیہ السلام نے غدیر کے دن لوگوں کے ایک گروہ کو افطار کے لئے روک لیا۔ (5)
مواخات یا بھائی بھائی ہونا
مواخات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی عملی سنت ہے۔ آپ نے ہجرت مدینہ کے بعد مہاجرین اور انصار کو اکٹھا کرکے ان کے درمیان مواخات اور بھائی چارے کا انعقاد کیا اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو اپنا بھائی قرار دیا (6)
روز غدیر روز ولایت اور روز ولایت روز مواخات ہے؛ ولایت اور مواخات کے درمیان گہرا رشتہ پایا جاتا ہے اور ان کے درمیان وصل کی کڑی ایمان ہے؛ کیونکہ ایک طرف سے ایمان ولایت کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے اور دوسری طرف سے اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں: "انما المؤمنون اخوة"۔ (7) مؤمنین آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اسی بنا پر اخوت کا عقد باندھنا، عید غدیر کے آداب میں شمار ہوتا ہے۔ مواخات کی کیفیت یہ ہے کہ دو میں سے ایک فرد اپنا دایاں ہاتھ دوسرے بھائی کے ہاتھ پر رکھتا ہے اور اور صیغہ مواخات پڑھتا ہے جو کچھ یوں ہے:
"آخَيْتُكَ فِي الله وَصافَيْتُكَ فِي الله وَصافَحْتُكَ فِي الله وَعاهَدْتُ الله وَمَلائِكَتَهُ وكُتُبَهُ وَرُسُلَهُ وَأنْبِيائَهُ وَالأئِمَّةَ المَعْصُومِينَ عَلَيْهِمُ السَّلامُ عَلَى أَنِّي إنْ كُنْتُ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ وَالشَّفاعَةِ وَأُذِنَ لِي بِأنْ أدْخُلَ الجَنَّةَ لا أدْخُلُها إِلاّ وَأَنْتَ مَعِي؛
میں تمہارا بھائی بنا اللہ کی راہ میں، اور تیرا مخلص دوست بنا راہ خدا میں، اور تمہارے ساتھ مصافحہ کیا اللہ کی راہ میں، اور اللہ اور اس کے فرشتوں، کتابوں اور اس کے انبیاء اور رسول اور ائمہ معصومین (سلام اللہ علیہم اجمعین) کے ساتھ، اس بات پر اگر میں جنتی ہؤا، اور شفاعت کا اہل ہؤا اور مجھے جنت میں داخلے کی اجازت ملی تو تمہاری معیت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہونگا"۔
"ثُمَّ يَقُولُ أَخُوهُ المُؤْمِنُ: قَبِلْتُ. ثُمَّ يَقُولُ: أسْقَطْتُ عَنْكَ جَمِيعَ حُقُوقِ الاُخُوَّةِ مَا خَلا الشَّفاعَةَ وَالدُّعَاءَ وَالزِّيَارَةَ؛
بعدازاں اس کا مؤمن بھائی کہتا ہے: "قَبِلتُ"، یعنی میں نے قبول کیا اور پھر کہتا ہے:
میں نے شفاعت، دعا اور زیارت کے سوا، بھائی چارے کے باقی تمام حقوق تم سے اٹھا لئے۔ (8)
تبریک و تہنیت
تبریک و تہنیت ہر عید کے نمایاں ترین آداب میں سے ہے۔ اسلم میں بھی تبریک اور تہنیت کی سنت عید غدیر میں خصوصی اہمیت پاتی ہے۔ رسول اللہ(ص) اس دن مبارکباد کہنے پر زور دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:
"هنئوني هنئوني؛
مجھ سے تہنیت کہو مجھے مبارکباد دو"۔ (9)
امام صادق (علیہ السلام) نے اس روز تبریک و تہنیت کی یوں تعلیم دی ہے:
"الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَكْرَمَنَا بِهَذَا الْيَوْمِ وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُوفِينَ بِعَهْدِهِ إِلَيْنَا وَمِيثَاقِهِ الَّذِي وَاثَقَنَا بِهِ مِنْ وِلاَيَةِ وُلاَةِ أَمْرِهِ وَالْقُوَّامِ بِقِسْطِهِ وَلَمْ يَجْعَلْنَا مِنَ الْجَاحِدِينَ وَالْمُكَذِّبِينَ بِيَوْمِ الدِّين؛ (10)
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اس دن کے ذریعے ہمیں عزت و کرامت بخشی اور ہمیں مؤمنین اور ان افراد میں قرار دیا جنہوں نے اس کے والیان امر اور عدل و قسط قائم کرنے والوں [یعنی ائمہ معصومین (علیہم السلام)] کی نسبت عہد و میثاق پر عمل کیا ہے۔ اور ہمیں قیامت کے منکرین اور اس کے جھٹلانے والوں میں قرار نہیں دیا"۔
امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا:
"وَهُوَ يَوْمُ التَّهْنِيَةِ يُهَنِّی بَعْضُكُمْ بَعْضاً؛
یہ تہنیت کہنے اور مبارک باد دینے کا دن ہے؛ چنانچہ تم ایک دوسرے کو مبارک باد دو"۔ (11)
امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: اس دن جب ایک دوسرے سے ملتے ہو تو کہہ دو:
"الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّکِینَ بِوِلاَیَهِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ (عَلَیْهِ السَّلاَمُ) ؛ ساری تعریفیں اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں ولایت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے تمسک کرنے (اور ولایت علی (علیہ السلام) کا دامن تھامنے) والوں کے زمرے میں قرار دیا ہے"۔ (12)
تبسم (مسکراہٹ)
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:
"وَهُوَ يَوْمُ التَّبَسُّمِ فِي وُجُوهِ النَّاسِ مِنْ أَهْلِ الْإِيمَانِ فَمَنْ تَبَسَّمَ فِی وَجْهِ أَخِيهِ يَوْمَ الْغَدِيرِ نَظَرَ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِالرَّحْمَةِ وَ قَضَى لَهُ أَلْفَ حَاجَةٍ وَ بَنَى لَهُ قَصْراً فِی الْجَنَّةِ مِنْ دُرَّةٍ بَيْضَاءَ وَ نَضَّرَ وَجْهَهُ؛
غدیر کا دن مؤمنین کی مسکراہٹوں کا دن ہے پس جو اس دن اپنے مؤمن بھائی کا چہرہ دیکھ کر مسکرائے گا، خداوند متعال قیامت کے دن، اس پر نظر رحمت ڈالتا ہے، اس کی ایک ہزار حاجتیں بر لاتا ہے اور اس کے لئے جنت میں سفید موتیوں کا محل تعمیر کرتا ہے اور اس کے چہرے کو خوبصورت اور تر و تازہ کر دیتا ہے"۔ (13)
زندگی میں بہتری، صورت حال بدل دینا اور جشن منانا
عید غدیر کو زندگی کا چہرہ بدل جاتا ہے چنانچہ سب زندگی کا روزمرہ معمول بدلنے کی کوشش کریں اور زندگی کو فیاضآنہ اور نشاط انگیز روشوں سے آراستہ کریں تا کہ سب عید کا میٹھا ذائقہ چکھ لیں اور اس کی دل انگیز اور روح پرور خوشبو محسوس کریں۔ یقیناً زندگی کی بہتری میں معاشی بہتری سرفہرست ہے۔
امام رضا(ع) نے فرمایا:
"هو اليوم الذى يزيد الله فى مال من عبدالله وسع على عياله ونفسه واخوانه۔۔۔"۔
غدیر کا دن وہ دن ہے جب خداوند متعال اس بندے کے مال میں اضافہ کرتا ہے جو اپنے آپ، اپنے اہل و عیال اور اپنے بھائیوں کے لئے دل کھول کر خرچ کرے"۔ (14)
امام رضا (ع) نے عید غدیر کے دن اپنے اقرباء اور اطرافیوں کی حالت بدل دی اور ان کی زندگی کو تازہ صورت عطا کی۔ (15)
حمد و ثناء
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: ایک سنت یہ ہے کہ مؤمن غدیر کے دن سو مرتبہ کہے:
"الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ كَمَالَ دِينِهِ وَ تَمَامَ نِعْمَتِهِ بِوِلاَيَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ"۔
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے امیرالمؤمنین علي بن ابی طالب (علیہما السلام) کی ولایت سے دین کو کامل اور نعمت کو تمام فرمایا"۔ (16)
دعا
معصومین(ع) نے اپنے پیروکاروں کو غدیر کے روز دعا کی تلقین فرمائی ہے۔
اس دن کی مخصوص دعائیں درج ذیل ہیں:
1۔ وہ دعا جس کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے:
"اللّهُمَّ انَّكَ دَعَوْتَنا الى سَبِيلِ طاعَتِكَ وَ طاعَةِ نَبِيِّكَ وَ وَصِيهِ وَ عِتْرَتِهِ، (17)
2ـ دعا، جو اس جملے سے شروع ہوتی ہے ہے: دعايى كه در آغاز اين عبارت ديده مىشود: "اَللّهُمَّ اِنّى اَسْئَلُكَ بِحَقِ مُحَمَّدٍ نَبِيِّكَ، وَعَلِىٍ وَلِيِّكَ، وَالشَّاْنِ وَالْقَدْرِ الَّذى خَصَصْتَهُما بِهِ دُونَ خَلْقِكَ ۔۔۔" (18)
3۔ وہ دعا جس کا آغاز "اللهم بنورك اهتديت وبفضلك استغنيت ۔۔۔" (19) سے ہوتا ہے۔
اعزہ و اقربا اور ایمانی بھائیوں سے ملاقات
عید اور ایام سرور کے آداب میں سے ایک، ایک دوسرے سے ملنا اور ملاقات کرنا ہے۔ یہ سنت لوگوں کو زیادہ شاداب اور عید کی یاد کی جڑوں کو ان کے ذہنوں میں مضبوط کر دیتی ہے۔ اسلام نے اسی رسم کو عید غدیر کے لئے مد نظر رکھا ہے اور اس پر زور دیا ہے۔
امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) نے فرمایا:
"مَنْ زارِ فيهِ مُؤْمِنا أَدْخَلَ اللّه ُ قَبْرَهُ سَبْعيِنَ نُورا وَ وَسَّعَ فى قَبْرِهِ وَ يَزُورُ قَبْرَهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ وَيُبَشِّرُونَهُ بِالْجَنَّةِ؛ جو عید غدیر کے دن مؤمن سے ملنے جائے، اللہ تعالیٰ (بعد از موت) ان کی قبر میں ستر روشنیاں داخل کرتا ہے، اور اس کی قبر کو وسیع کر دیتا ہے، اور ہر روز ستر ہزار فرشتے اس کی قبر کی زیارت پر آتے ہیں، جو اس کو جنت کی بشارت دیتے ہیں"۔ (20)
بہت مناسب ہے کہ اللہ کی سب سے بڑی عید اور عید اللہ الاکبر ہے، کی اس سنت حسنہ پر عمل کیا جائے، تاکہ یوم غدیر کے احیاء کے ساتھ ساتھ مؤمنین کے درمیان الفت و مودت کے رشتے بھی مستحکم ہو جائیں۔
عید غدیر کا روزہ، مستحبِّ مؤکّد ہے اور اس کا اجر و ثواب منفرد ہے۔
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:
"إِذَا أَخْلَصَ الْمُخْلِصُ فِي صَوْمِهِ لَقَصُرَتْ إِلَيْهِ أَيَّامُ الدُّنيَا عَن كِفايَةٍ ومَن أَسْعَفَ أخاهُ مُبتَدِئاً وبَرَّهُ رَاغِباً فَلَهُ كَأَجْرِ مَنْ صَامَ هَذَا اَلْيَوْمَ وَقَامَ لَيْلَتَهُ؛
اگر ایک مخلص بندہ اس یوم [عید غدیر] کے کا روزہ اخلاص کے ساتھ رکھ لے، تو دنیا کے ایام اس کی برابری کرنے سے قاصر ہونگے؛ (یعنی اگر انسان اس دنیا کی ابتداء سے انتہا تک زندہ رہے اور ہر روز رکھے، تو ان تمام روزوں کا ثواب اس ایک روزے سے کم ہوگا)۔ اور جو اس دن اپنے [ایمانی] بھائی کی مدد میں [دوسروں پر] سبقت لے، تو گویا کہ اس نے اس دن کو روزہ رکھا ہے اور اس کی رات قیام و عبادت میں گذاری ہے"۔ (21)
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حقیقی جانشین حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:
وَصَوْمُ هَذَا الْيَوْمِ مِمَّا نَدَبَ اللَّهُ إِلَيْهِ وَجَعَلَ الْجَزَاءَ الْعَظِيمَ كَفَالَةً عَنْهُ.الْعَظِيمَ كَفَالَةً عَنْهُ حَتَّى لَوْ تَعَبَّدَ لَهُ عَبْدٌ مِنَ الْعَبِيدِ فِي التَّشْبِيهِ مِنِ ابْتِدَاءِ الدُّنْيَا إِلَى تَقَضِّيهَا صَائِماً نَهَارُهَا قَائِماً لَيْلُهَا؛
اور اس دن کا روزہ ان امور میں سے ہے جس کی طرف [ہمیں] اللہ نے بلایا ہے، اور اس کے عوض جزائے عظیم کی ضمانت دی ہے؛ یوں کہ اگر بالفرض ایک بندہ ابتدائے خلقت سے دنیا کی [عمر] کے اختتام تک دنوں کو روزہ رکھے اور راتوں کو عبادت میں مصروف رہے؛ (تو اس کو ملنے والا ثواب اس دن کے روزے کی برابری نہیں کر سکے گا)۔ (22)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) غدیر کے روزے کے خواہاں ہیں اور فرماتے ہیں:
"هُوَ يَوْمُ عِبادَةٍ وَصَلوةٍ وَشُكْرٍ لِلّهِ وَحَمْدٍ لَهُ، وَسُرُورٍ لِما مَنَّ اللّهُ بِهِ عَلَيْكُمْ مِنْ وِلايَتِنَا، وَاِنِّى اُحِبُّ لَكُمْ اَنْ تَصُومُوهُ؛
یہ عبادت، اور نماز، اور شکر و سپاس اور حمد و ثناء کا دن ہے؛ اور خوشی منانے کا دن ہے اس نعمت پر جو اللہ نے احسان کرکے تمہیں ہماری ولایت و حکمرانی کی صورت میں عطا کی ہے"۔ (23)
عید اللہ الاکبر کے روزے کی عظمت
"صِيَامُ يَوْمِ غَدِيرِ خُمٍّ يَعْدِلُ صِيَامَ عُمُرِ اَلدُّنْيَا لَوْ عَاشَ إِنْسَانٌ عُمُرَ اَلدُّنْيَا... وَصِيَامُهُ يَعْدِلُ عِنْدَ اَللَّهِ مِائَةَ حِجَّةٍ وَ مِائَةَ عُمْرَةٍ مَبْرُورَاتٍ مُتَقَبَّلاَتٍ وَهْوَ عِيدُ اَللَّهِ اَلْأَكْبَرُ؛
یوم غدیر کا روزہ دنیا کی عمر کے برابر ہے، اگر انسان دنیا کی عمر کے برابر جی لے ۔۔۔ اور اس دن کا روزہ ایک سو مرتبہ حج مقبول اور سو مرتبہ عمرہ مبرورہ کے برابر ہے، اور یہ اللہ کی سب سے بڑی عید ہے"۔ (24)
عید اللہ الاکبر، عید غدیر کے روزے کے بارے میں مروی احادیث بکثرت نقل ہوئی ہیں اور یہاں صرف نمونے کے طور چند حدیثوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔
زیارت امیرالمؤمنین (علیہ السلام)
عید غدیر کا ایک عمل، امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی زیارت ہے جو دو صورتوں میں ممکن ہے:
1۔ نجف میں حاضر ہوکر، حضرت امیر (علیہ السلام) کے حرم میں حاضری دینا
"يابن ابي نَصْرٍ أَيْنَ مَا كُنْتَ فَاحْضُرْ يَوْمَ الْغَدِيرِ عِنْدَ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السلامُ فَاِنَّ اللَّهَ يَغفِرُ لِكُلِّ مُؤمِنٍ وَمُؤمِنَةٍ وَمُسلِمٍ وَمُسلِمَةٍ ذُنوبَ سِتِّينَ سَنَةً ويُعتِقُ مِنَ النَّارِ ضِعْفَ ما اعتَقَّ في شَهرِ رَمَضانَ وَلَيلَةَ القَدرِ وَلَيلَةَ الفِطْر؛
امام رضا (علیہ السلام) نے احمد بن محمد بنی ابی نصر البزنطی سے مخاطب ہو کر فرمایا: "اے ابو نصر کے بیٹے! جہاں بھی ہو، [نجف میں] امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے پاس پہنچ جاؤ، یقیناً اللہ تعالیٰ ہر مؤمن مرد اور مؤمن عورت، اور ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت کے ساٹھ سال کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس سے دو گنا لوگوں کو دوزخ کی آگ سے آزاد کرتا ہے جتنا کہ وہ رمضان المبارک، لیلۃ القدر اور لیلۃ الفطر میں آزاد کر دیتا ہے"۔ (25)
شیخ عباس قمی (رحمہ اللہ) نے اس دن کے لئے زیارت امین اللہ، زیارت مطلقۂ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سمیت تین زیارتوں سمیت اس دن کے لئے مختلف اعمال نقل کئے ہیں۔ (26)
2۔ دنیا کے کسی بھی گوشے سے زیارت کرنا
اس دن کی عمومی زیارتیں ـ جو حرم علوی کے لئے مختص نہیں ہیں ـ بھی دعاؤں کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں، اور پیروان اہل بیت نیز ولایت و امامت کے عقیدتمند جہاں بھی ہوں ان زیارتوں کو پڑھ سکتے ہیں، اور جو دو زیارتیں بہت مشہور ہیں، ان میں سے ایک تو زیارت امین اللہ (27) ہے اور دوسری امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقولہ زیارت ہے۔ (28)
سجاوٹ اور آراستگی
عیدوں کے موقع پر جسمانی آرائش و زیبائش اور گھر، کوچہ و بازار کی زیب و زینت، معمول کی رسم ہے۔ صرف وہ عید لوگوں کے ذہن و دل میں زندہ رہتی ہے کہ جس وہ اپنی زیبائش کا اہتمام کرے اور در و دیوار کی سجاوٹ کریں۔ چونکہ عید غدیر سب سے بڑی عید ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ لوگ، دوسری عیدوں سے کہیں زیادہ، عید غدیر کے موقع پر خوشی منائیں اور اپنے آپ رہائشی گھر، مکان، گلیوں، کوچوں اور بازاروں کو سجائیں۔ اس عمل کی فضیلت بہت زیادہ ہے؛ اور امام رضا (علیہ السلام) نے عید غدیر کو "یوم الزینۃ" (زینت کا دن) کا عنوان دیا ہے، اور فرمایا ہے:
"... وَاِنّ يَوْمَ الْغَديرِ بَيْنَ الأَضْحى وَالْفِطْر وَالْجُمُعَةِ كَالْقَمَرِ بَيْنَ الكَواكِبِ... وَهُوَ يَوْمُ التَّبَسُّمِ فِى وُجُوهِ النّاسِ مِنْ أَهْلِ الأيمانِ ... وَ هُوَ يَوْمُ الزّينَةِ…؛
اور یقیناً روز غدیر ـ عید الضحیٰ، عید فطر اور جمعہ کے درمیان ـ تاروں کے درمیان چاند کی مانند ہے ۔۔۔ اور یہ اہل ایمان لوگوں سے ملتے وقت تبسم اور مسکراہٹیں بکھیرنے کا دن ہے ۔۔۔ اور یہ زینت اور سج دھج کا دن ہے"۔ (29)
"وَهُوَ يَوْمُ الزِّينَةِ فَمَنْ تَزَيَّنَ لِيَوْمِ الْغَدِيرِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ كُلَّ خَطِيئَةٍ عَمِلَهَا صَغِيرَةً أَوْ كَبِيرَةً وَبَعَثَ اللَّهُ إِلَيْهِ مَلَائِكَةً يَكْتُبُونَ لَهُ الْحَسَنَاتِ وَيَرْفَعُونَ لَهُ الدَّرَجَاتِ إِلَى قَابِلِ مِثْلِ ذَلِكَ الْيَوْمِ فَإِنْ مَاتَ مَاتَ شَهِيداً وَإِنْ عَاشَ عَاشَ سَعِيداً،
یہ زینت کا دن ہے تو جس نے غدیر کے دن زینت اور آرائش و زیبائش کا اہتمام کیا، خدائے متعال اس کی تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے، چاہے وہ گناہ صغیرہ ہو چاہے کبیرہ ہو، اور اللہ تعالی ایسے فرشتے بھیجتا ہے جو اس کے لئے حسنات اور نیکیاں لکھتے ہیں، اس کے مراتب و مدارج بلند کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ یہ حسنات اور نیکیاں اس دن کے برابر ہوجائیں؛ تو وہ اگر مرے تو شہید ہو کر مرا ہے۔
"حَدَّثَنَا اَلْفَيَّاضُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ الطُّوسَى بِطُوسَ سَنَةَ تِسْعٍ وخَمْسِينَ ومِأَتَيْنِ وقَدْ بَلَغَ التّسْعِينَ انَّه شَهِدَ ابا اَلْحَسَنِ عَلِى بْنَ موسى الرِّضا عَلَيْهِمُ السَّلامُ في يَومِ الْغَدِيرِ وبِحَضْرَتِهِ جَمَاعَةٌ مِن خَاصَّتِهِ قَدِ احْتَسَبَهُمْ لِلافْطَارِ وقَدْ قَدَّمَ الى مَنازِلِهِم الطَّعامَ وَالبُرَّ والصِّلاتَ والْكِسْوَةَ حَتَّى الْخَواتِيمَ والنِّعَالَ؛
فیاض بن محمد بن عمر الطوسی (المعروف بہ فیاض طوسی) نے، سنہ 295ھ میں، طوس میں، ہمارے لئے نقل کیا جبکہ وہ 90 سال کے بزرگ تھے، کہ وہ ایک مرتبہ غدیر کے دن حضرت امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے، جبکہ آپ کے کچھ خاص اصحاب آپ کی خدمت میں حاضر تھے، جنہیں آپ نے افطار کے لئے روک رکھا تھا، اور آپ نے ان کے گھروں [میں ان کے اہل و عیال کے لئے] کھانا، گندم، تحائف لباس حتی کہ انگوٹھیاں اور جوتے بھجوائے"۔ (30)
خوشی منانا، اجتماع منعقد کرنا، مبارکباد دینا اور خوش روئی کے ساتھ ملاقات کرنا
.امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) نے اپنے آباءِ طاہرین کی وساطت سے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے ایک روز جمعہ کے دن ـ جو عید غدیر کا دن بھی تھا ـ مسلمانوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
"عُودُوا رَحِمَكُمُ اَللَّهُ بَعْدَ اِنْقِضَاءِ مَجْمَعِكُم بِالتَّوْسِعَةِ عَلَى عِيالِكُم وَبِالبِرِّ بِإخْوانِكُم والشُّكْرِ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى مَا مَنَحَكُمْ وأجْمِعُوا يَجْمَعِ اللَّهُ شَمْلَكُمْ وتَبَارُّوا يَصِلِ اللَّهُ أُلْفَتَكُم وَتَهَانُوا نِعْمَةَ اللَّهِ كَمَا هَنَّاكُمْ بِالثَّوَابِ فِيهِ عَلَى أَضْعَافِ الأَعْيَادِ قَبْلَهُ أو بَعْدَهُ إِلاَّ فِي مِثلِهِ وَالبِرُّ فِيهِ يُثْمِرُ المالَ وَيَزيدُ في العُمُرِ والتَّعَاطُفُ فِيهِ يَقْتَضِي رَحْمَةَ اللَّهِ وعَطْفَهُ وهِيئُوا لِإخْوَانِكُم وعِيَالِكُم عَن فَضلِهِ بِالجُهْدِ مِن وُجُودِكُمْ وبِمَا تَنَالُهُ الْقُدْرَةُ مِنِ اسْتِطَاعَتِكُمْ وأَظْهِرُوا الْبِشْرَ فِيمَا بَيْنَكُمْ والسُّرُورَ فِي مُلاقَاتِكُم؛
خدا کی رحمت ہو تم پر، اس مجلس کے بعد گھر والوں کے ساتھ فراخ دلی، اپنے بھائیوں سے نیکی اور احسان کے ساتھ کرو، پلٹ جاؤ اور اللہ عَزَّ و جَلَّ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں اس عظیم نعمت سے نوازا ہے، اور ہم فکر اور متفق القول ہوجاؤ، خدا تمہیں متحد اور ہم آہنگ فرمائے؛ ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور احسان کرو، اللہ تمہارے درمیان الفتوں میں اضافہ کرے؛ ایک دوسرے کو اللہ کی اس نعمت پر کو مبارک باد دو، جیسا کہ اللہ نے ـ اس عید کے نیک اعمال کا اجر و ثواب اس سے پہلے اور اس کے بعد کی عیدوں سے کئی گنا زیادہ قرار دے کر - تمہیں مبارک دی ہے؛ اور اس فضیلت کو صرف اسی دن سے مختص کر دیا ہے؛ اور اس دن کی نیکیاں تمہارے مال کو پر فائدہ اور پر ثمر بناتی ہیں، اور تمہاری عمر کو طولانی کر دیتی ہیں؛ اور اس دن تمہاری باہمی مہربانیاں، تم پر خدا کی رحمت اور مہربانی کا باعث ہیں۔ اور اپنے بھائیوں اور اہل خانہ کو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے [جو ممکن ہو] فراہم کرو، اپنی استطاعت کے مطابق لوگوں کو تحفے تحائف دو؛ جہاں تک ممکن ہو اس کام میں کوشاں رہو، ایک دوسرے سے کشادہ روئی اور سرور و شادمانی کے ساتھ ملو"۔ (31)
اپنی خوشی کو ظاہر و آشکار کر دو
امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے اعمالِ غدیر کے بارے میں ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا:
"ثُمَّ كُلْ واشْرَبْ وأَظْهِرِ السُّرُورَ وأَطْعِمْ اخْوَانَكَ وأَكْثِرْ بِرَّهُمْ؛ اور پھر کھاؤ اور پیو اور سرور و شادمانی کو آشکار کرد اور بھائیوں کو کھانا کھلاؤ اور ان سے بہت نیکی اور احسان کرو"۔ (32)
شكر گزارى
امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: "اور اللہ عَزَّ و جَلَّ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں اس عظیم نعمت سے نوازا ہے"۔ (33)
صدقہ دینا
عید غدیر کے دن صدقہ دینا سنت مؤکدہ ہے. امیر المؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "فَالدِّرْهَمُ فيهِ بِمَأتَي ألفِ دِرْهَمٍ والمَزيدُ مِنَ اللَّهِ عزَّ وَجَلٌ؛ عید غدیر کے دن ایک درہم [صدقے] کی فضیلت دو لاکھ درہم صدقے کے برابر ہے"۔ (34)
محمد و آل محمد (صلی اللہ علیہم اجمعین) پر درود و صلوات کا دن
امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: "وَهُوَ يَومُ السَّبْقَةِ وَيَومُ إكْثَارِ الصَّلاةِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمّدٍ وَيَومِ الرِّضا وَيَومِ عِيدِ أَهلِ بَيتِ مُحَمَّدٍ؛ روز غدیر، نیکیوں اور بھلائیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لینے، محمد و آل محمد (صلوات اللہ علیہم اجمعین) پر بکثریت درود و سلام بھیجنے، ایک دوسرے سے خوشنود ہونے [اور ان کی خطاؤں کو بخشنے] اور اہل بیت محمد (سلام اللہ علیہم اجمعین) کی عید کا دن ہے"۔ اسی طرح کی روایت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے بھی منقول ہے۔ (35)
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر درود اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کا دن
امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
""وَتُكْثِرُ فِيهِ الصَّلَاةَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَهْلِ بَيْتِهِ (عَلَيهِمُ السَّلَامُ) وَ تَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِمَّنْ ظَلَمَهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ (عَلَيهِمُ السَّلَامُ) كَانَتْ تَأْمُرُ الْأَوْصِيَاءَ بِالْيَوْمِ الَّذِي كَانَ يُقَامُ فِيهِ الْوَصِيُّ أَنْ يُتَّخَذَ عِيداً؛
اور کثرت سے محمد اور آل محمد (علیہم السلام) پر درود و صلوات بھیجنا اور اللہ کی طرف بیزار ہونا ان سے جنہوں نے ان کا حق چھین کر ان پر ظلم کیا؛ جیسا کہ انبیاء (علیہم السلام) اپنے اوصیاء کو حکم دیتے تھے کہ اس دن کو عید قرار دیں جن میں وصی کو منصوب و متعین کیا ہے"۔ (36)
کھانا کھلانا
مختلف عیدوں اور ماہ مبارک رمضان نیز سال کے بارہ مہینوں میں کھانا کھلانا اور خیرات دینا مستحسن عمل ہے، لیکن روایات سے ظاہر ہے کہ عید غدیر کی شب اور روز کو کھانا کھلانا اور افطار کرانا، بہت ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ امام صادق (علیہ السلام) نے عید غدیر کو یوم الاطعام قرار دیا (37) اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ہے اور فرمایا ہے: "وَاَطعِم إِخوَانَكَ؛ "عید غدیر کے دن اپنے [ایمانی] بھائیوں کو کھانا کھلاؤ"۔ (38)
امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) نے فرمایا:
"مَنْ أَطْعَمَ مُؤْمِناً کَانَ کَمَنْ أَطْعَمَ جَمِیعَ الْأَنْبِیَاءِ وَالصِّدِّیقِینَ؛
"جو اس دن ایک مؤمن کو کھانا کھلائے گویا کہ اس نے تمام انبیاء اور صدیقین کو کھانا کھلایا ہے"۔ (39)
اس دن کھانا کھلانے کی عظمت اور ثواب اس قدر ہے کہ امام صادق (علیہ السلام) نے اس کو یوم الاطعام یا کھانے کھلانے کا دن قرار دیا ہے۔ (40)
عبادت کا دن
"هُوَ اَلْيَوْمُ اَلَّذِي يَزِيدُ اَللَّهُ فِي مَالِ مَنْ عَبَدَ فِيهِ؛ عید غدیر وہ دن ہے کہ الہ عبادت کرنے والے کے مال و ثروت میں اضافہ فرماتا ہے"۔ (41)
سب سے بڑی عید کے دن نیک اعمال کی فضیلت
حسن بن راشد سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا:
"قِيلَ لِأَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيهِ السَّلَامُ لِلْمُؤْمِنِينَ مِنَ اَلْأَعْيَادِ غَيْرُ اَلْعِيدَيْنِ وَاَلْجُمُعَةِ قَالَ نَعَمْ لَهُمْ مَا هُوَ أَعْظَمُ مِنْ هَذَا يَوْمٌ أُقِيمَ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيهِ السَّلَامُ فَعَقَدَ لَهُ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآله اَلْوَلاَيَةَ فِي أَعْنَاقِ اَلرِّجَالِ وَاَلنِّسَاءِ بِغَدِيرِ خُمٍّ فَقُلْتُ وَأَيُّ يَوْمٍ ذَاكَ قَالَ اَلْأَيَّامُ تَخْتَلِفُ ثُمَّ قَالَ يَوْمُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ مِنْ ذِي اَلْحِجَّةِ قَالَ ثُمَّ قَالَ وَاَلْعَمَلُ فِيهِ يَعْدِلُ اَلْعَمَلَ فِي ثَمَانِينَ شَهْراً وَيَنْبَغِي أَنْ يُكْثَرَ فِيهِ ذِكْرُ اَللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَاَلصَّلاَةُ عَلَى اَلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآله وَيُوَسِّعَ اَلرَّجُلُ فِيهِ عَلَى عِيَالِهِ؛
امام صادق (علیہ السلام) سے عرض کیا گیا: کیا مؤمنین کے لئے عین فطر، عید الضحی اور جمعہ کے سوا بھی کوئی عید ہے؟ فرمایا: ہاں! ان کے لئے ایک عید ہے جو تمام عیدوں سے عظیم تر ہے؛ یہ وہ دن ہے جس میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کو متعین و منصوب کیا گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے غدیر خم کے مقام پر امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولایت کو مردوں اور خواتین کی گردنوں پر رکھ دیا۔ تو میں [جسن بن راشد] نے عرض کیا: وہ کون سا دن ہے؟ فرمایا: ایام یکے بعد از دیگرے آتے ہیں، اور بعدازاں فرمایا: وہ 18 ذوالحجہ کا دن ہے۔ حسن بن راشد کہتے ہیں: اور پھر امام نے فرمایا: اس دن کا عمل 80 مہینوں کے اعمال کے برابر ہے اور ضروری ہے کہ اس دن اللہ عَزَ وَ جَلَّ کا ذکر بکثرت کیا جائے، اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر کثرت درود و سلام بھیجائے جائے، اور مرد اپنے گھر والوں کی روزی کو فراخ اور وسیع کر دے [اور اہل خانہ کو کھانا، لباس اور تحائف دےج۔ (42)
غسل کرنا، بہترین لباس پہننا اور خوشبو لگانا
بعض روایات کے مطابق امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے غدیر کے دن خوشبو لگانے کی ہدایت فرمائی ہے۔ شیخ مفید "المقنعہ" میں فرماتے ہیں:
"فَإِذَا ارْتَفَعَ النَّهَارُ مِنَ الْيَوْمِ الثَّامِنَ عَشَرَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ فَاغْتَسِلْ فِيهِ كَغُسلِكَ لِلْعِيدَيْنِ والْجُمُعَةِ وَالْبَسْ أطْهَرَ ثِيَابِك وَامْسَسْ شَيْئاً مِنَ الطِّيبِ إِنْ قَدَرْتَ عَلَيْه؛ اٹھارہ ذوالحجہ کا دن چڑھ جائے تو غسل کرو جس طرح کہ عید فطر، عید الضحی اور جمعہ کے دن غسل کرتے ہو، اپنا بہترین لباس زیب تن کرو، اور ممکن ہو تو کچھ عطر (خوشبو) لگا دو"۔ (43)
بعض علمائے اسلام اس دن کے غسل کے استحباب (سنت ہونے) پر اجماع کے قائل ہیں (44) اور زیادہ تر علماء اس کو مستحبِ مؤکّد (یا سنت مؤکدہ) سمجھتے ہیں (45) اور بہتر ہے کہ یہ غسل عید غدیر کے دن کے آغاز پر انجام دیا جائے۔ (46)
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"وجب ۔۔۔ أن يلبس المؤمن انظف ثيابه وافخرها"۔
روز غدیر لازم ہے کہ مؤمن پاکیزہ ترین اور عمدہ ترین لباس پہنے"۔ (47)
مرحوم میرزا آقا جواد تبریزی اس عمل کو روز عید ضحیٰ کے مؤکد مستحبات میں شمار کرتے تھے۔ (48)
مؤمنین کی حاجت برآری
واقْضِ حَوَائِجَ إِخْوَانِك إِعْظَاماً لِيَومِكَ وخِلافاً عَلَى مَنْ أَظْهَرَ فيهِ الإِغْتِمَامَ وَالحُزْنَ، ضَاعَفَ اللَّهُ حُزَنَهُ وغَمَّهُ؛
، اور اپنے بھائیوں کی حاجتوں کو بر لاؤ، اس دن کی تعظیم و احترام کی خاطر، اور اس لئے کہ تم نے مخالفت کی ہو ان کی جو اس دن غم حزن کا اظہار کرتے ہیں؛ اللہ تعالی ان کے حزن اور غم میں دو گنا کر دے" [آمین]۔ (49)
مدد کرنا
کمزوروں اور ناداروں کی مدد کرنا ہر حال میں مستحسن ہے، اور غدیر کا خصوصی پیغام بھی یہی ہے؛ وہ پیغام جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے فرمان کے مطابق حاضرین پر واجب ہے کہ غائبین تک پہنچا دیں، اور ہر زمانے کے لوگوں پر فرض ہے کہ اگلے زمانے کے لوگوں تک پہنچا دیں۔
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:
" "وإِذَا تَلاقَيْتُمْ فَتَصَافَحُوا بِالتَّسْلِيمِ وتَهَابُوا النِّعْمَةَ فِي هَذَا الْيَوْمِ وَلْيُبْلِغِ الْحَاضِرُ الغَائِبَ وَالشَّاهِدُ الْبَايِنَ وَلْيُعِدِ الغَنِيُّ الفَقيرَ وَالْقَوِيُّ عَلَى الضَّعِيفِ؛ أَمَرَنِي رَسُولُ اَللَّهِ صلَّى الله عليه وآله وَسَلَّمَ بِذَلِكَ؛ اور جب تم ایک دوسرے کے سامنے آؤ تو مصافحہ کرو سلام کے ساتھ، اور ایک دوسرے کے تحفے تحائف دے دو، اور [میرے سامعین اور] حاضر ہیں اور سن رہے ہیں وہ پہنچا دیں ان کو غیر حاضر ہیں اور نہیں سن رہے ہیں، اور صاحبان مال و ثروت (امراء) ناداروں اور مسکینوں کا حال پوچھیں اور اور جو قوی اور طاقتور ہیں وہ کمزوروں اور ضعیفوں کی احوال پرسی کریں، [اور ان کی مدد کریں]، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مجھے اس کا حکم دیا ہے"۔ (50)
غدیر کی نمازیں
1۔ شب غدیر کی نماز
یہ نماز بارہ رکعتوں پر مشتمل ہے، ہر دو رکعتوں کے بعد ایک تشہد ہے اور بارہویں رکعت کے تشہد کو بعد سلام دیا جاتا ہے۔ تو شخص ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد توحید [یا اخلاص یعنی سورہ قل هو الله احد...) دس مرتبہ اور آیت الکرسی ایک مرتبہ، پڑھ لے۔ آخری رکعت میں سورہ حمد اور سورہ توحید ـ دونوں ـ سات مرتبہ پڑھ لے؛ اور قنوت میں اس ذکر کو دس مرتبہ دہرائے:
"لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيْتُ وَيُمِيْتُ وَيُحْيِي وَهُوَ حَيُّ لايَمُوتُ بِيَدِهِ الخَيْرُ وَهُوَ عَلى كُلِّ شَيٍ قَدِيرٌ".
آخری دو سجدوں میں یہ ذکر دس مرتبہ دہرائے:
"سُبْحَانَ ذِي اَلْمَنِّ وَ اَلنِّعَمِ سُبْحَانَ ذي الفضل والطول سُبْحَانَ ذي العز والكرم أَسْأَلُكَ بِمَعَاقِدِ اَلْعِزِّ مِنْ عَرْشِكَ وَ مُنْتَهَى اَلرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِكَ وَبِالإسْمِ الأعْظَمِ وَكَلِمَاتِكَ التَّامَّةِ أنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ رَسُولِكَ وَأَهْلِ بَيْتِهِ الطَّيِّبِينَ الطّاهِرينَ وَأنْ تَفْعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا" (اور کذا و کذا کی جگہ اپنی حاجتیں مانگ لے) اور پھر کہہ دے "اِنَّكَ سَمِيعٌ مُجِيبٌ"۔ (51)
2۔ یوم غدیر کی نماز
ظہر سے آدھا گھنٹہ پہلے دو رکعت نماز مستحب ہے، ہر رکعت میں دو حمد کے بعد سورہ توحید 10 مرتبہ، سورہ قدر (انا انزلناہ في لیلۃ القدر) 10 مرتبہ، اور آیۃ الکرسی (فیہا خالدون) تک، 10 مرتبہ۔ (52)
3۔ مسجد غدیر کی نماز
"يُسْتَحَبُّ الصَّلاةُ فِي مَسْجِدِ الغَديرِ؛ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ أقَامَ فِيهِ أمِيرَالمُؤمِنينَ عَلَيهِ السَّلَامُ، وَهُوَ مَوْضِعٌ أظْهَرَ اللّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ الْحَقَّ؛
مسجد غدیر میں نماز پڑھنا مستحب ہے؛ کیونکہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اسی مقام پر امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو بطور امام اور ولی و مولا کے طور پر منصوب و متعین فرمایا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں اللہ تعالی نے حق کو آشکار کر دیا"۔ (53)
بھائیوں کی مدد کے لئے قرض لینا
امیرالمؤمنین (علیہ السلام نے فرمایا
"وَمَنِ اسْتَدَانَ لِإِخْوَانِهِ وَأَعَانَهُمْ فَأَنَا الضَّامِنُ علَى اللَّهِ إن بَقَّاهُ قَضاهُ وإن قَبَضَهُ حَمَلَهُ عَنهُ؛
جو قرض لے اس لئے کہ [مؤمن] بھائیوں کی مدد کرے، میں خدا کی طرف سے ضمانت دیتا ہو کہ اگر خدا نے اسے زندہ رکھا تو وہ قرض ادا کر ہی لے گا، اور اگر اس کو زندہ نہیں رکھا اور اپنے پاس پلا لیا تو اس قرض کا ذمہ اس سے اٹھا لے جائے گا"۔ (54)
اس روایت میں دو نکتے بہت اہم ہیں جن سے ثابت ہے کہ یوم الغدیر ایک خاص دن ہے اور اس دن دوسروں کی مدد کرنا، بہت زیادہ اہم عمل ہے۔
الف: قرض لینا شریعت کے لحاظ سے بہت پسندیدہ عمل نہیں ہیں لیکن دوسروں کی مدد کے لئے قرض لینا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔
ب۔ اسلام نے حق الناس یا حق العباد کو بہت اہم گردانا ہے لیکن اس روایت میں ہے کہ اگر مؤمن بھائیوں کی مدد کے لئے کوئی قرض بھی لے اور دنیا سے اٹھ جائے تو خدائے متعال اس کو قرض دینے والا کے حق سے بریّ الذمہ کر دے گا۔
........................
حوالہ جات
1۔ المراقبات، ميرزا جواد آقا تبريزى، ص217-218۔
2۔ بحارالانوار، علامہ محمد باقر مجلسی، ج95، ص302۔
3۔ المراقبات، ميرزا جواد آقا تبريزى، ص256۔ مصباح المتہجد، شیخ طوسی، ص752، مناقب آل أبي طالب، ابن شہر آشوب، ج3، ص43؛ مصباح الزائر، سيد ابن طاؤس، الفصل 7، بحارالانوار، ج94، ص118۔
4۔ التہذيب، شيخ طوسى، ج3، ص143۔
5۔ الغدير، علامہ امينى، ج1، ص287۔
6۔ "عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخَى بَيْنَ أَصْحَابِهِ، ... فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ قَدْ آخَيْتَ بَيْنَ أَصْحَابِكَ فَمَنْ أَخِي؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا تَرْضَى يَا عَلِيُّ أَنْ أَكُونَ أَخَاكَ؟» قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَكَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَلْدًا شُجَاعًا، فَقَالَ عَلِيٌّ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ»
عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مدینہ پہنچنے کے بعد اپنے اصحاب کے درمیان مواخات کا اہتمام کیا تو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے اپنے اصحاب کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا، تو میرا بھائی کون ہے؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: کیا تم خوش نہیں ہو کہ میں آپ کا بھائی بنوں؟ ـ عبداللہ بن عمر نے کہا: اور علی (علیہ السلام) بہت طاقتور، باہمت اور صابر و جری تھے، اور عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: «تم میرے بھائی ہو دنیا میں بھی اور قیامت میں بھی»"۔
(المستدرک علی الصحیحین، محمد عبداللہ حاکم نیسابوری (مطبوعہ، بیروت 1990ع)، ج3، ص16؛ یہ حدیث سنن ترمذی سمیت متعدد سنی کتب حدیث میں اور تقریبا تمام شیعہ کتب میں بھی نقل ہوئی ہے)۔
7۔ سورہ حجرات، آيت 10۔
8۔ مستدرک الوسائل، محدث نورى، ج1، ص456۔
9۔ بحارالانوار، مجلسى، ج95، ص322۔
10۔ الغدير، علامہ امینی، ص274۔
11۔ بحارالانوار، ج95، ص303۔
12۔ وہی ماخذ، ص 262۔
13۔ اقبال الاعمال، سید بن طاؤس، ج2، ص261۔
14۔ إقبال الأعمال؛ سيد بن طاؤس، ج2، ص261؛ المراقبات، ملکی تبریزی، ص260۔
15۔ اقبال الاعمال، ص261۔
16۔ وہی ماخذ؛ مفاتیح الجنان، 18 ذوالحجہ کے اعمال۔
17۔ الغدير،علامہ امینی، ج1، ص287۔
18۔ بحارالانوار، ج95، ص321۔
19۔ اقبال الاعمال، سید ابن طاؤس، (مطبوعہ قم 1415ھ) ج2، ص238۔ المراقبات، ملکی تبریزی، ص255۔
20۔ بحارالانوار، ج95، ص319؛ مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی، 18 ذوالحجہ کے اعمال۔
21۔ دیکھئے: بحارالانوار، ج95، ص318۔
22۔ اقبال الاعمال، ج2، ص262؛ المراقبات، ملکی تبریزی، ص257۔
23۔ مصباح المتہجد، شیخ محمد بن حسن الطوسی، ص758۔
24۔ مصباح المتہجد، شیخ الطوسی، ص757-758۔
25۔ وسائل الشيعہ، شیخ محمد بن حسن حُرّ عاملی، ج7، ص328۔
26۔ اقبال الاعمال، سید بن طاؤس، ج2، ص282۔ ۔
27۔ تہذیب الاحکام، شیخ الطوسی، ج6، ص24۔
28۔ مفاتيح الجنان، شیخ عباس قمی، ص276، 18 ذوالحجہ کے اعمال۔ زیارت مطلقہ کے لئے رجوع کریں: ص352۔
29۔ مفاتیح الجنان، زیارت امین اللہ، ص350.
30۔ اقبال الاعمال، ج2، ص254۔
31۔ اقبال الأعمال، سید بن طاؤس، ج2، ص261.
32۔ وسائل الشیعہ، (مطبوعہ مؤسسۃ آل البیت(ع)، 1414ھ)، ج10، ص444؛ عوالم العلوم و المعارف، الشیخ عبداللہ البحرانی الاصفہانی، ج2، ص221؛ المراقبات، آیت اللہ میرزا جواد تبریزی، ص257۔
33۔ اقبال الاعمال، سید بن طاؤس، ج2، ص259؛ مصباح المتہجد، شیخ الطوسی، ص757؛ الغدیر، علامہ عبدالحسین امینی، ج1، ص284 (جملوں کی ترتیب اور الفاظ میں کچھ اختلاف کے ساتھ)۔
34۔ اقبال الاعمال، سید بن طاؤس، ج2، ص282۔
35۔ اقبال الاعمال، 259۔
36۔ من لا یحضرہ الفقیہ، شیخ صدوق، ج2، ص90؛ اقبال الاعمال، ج2، ص259؛ الغدير، علامہ امینی، ج1، ص 284؛ المراقبات، علامہ جواد ملکی تبریری، ص255۔
37۔ بحارالانوار، مجلسى، ج95، ص322۔
38۔ بحار الانوار، ج95، ص323
39۔ اقبال الأعمال، ج2، ص261؛ مصباح المتہجد، شیخ طوسي، ص752؛ مناقب آل أبي طالب لابن شہر آشوب ج3 ص 43، مصباح الزائر للسيد ابن طاؤوس الفصل 7؛ بحارالانوار، ج94، ص118؛ المراقبات، ملکی تبریزی، ص262۔
40۔ المراقبات، ص256۔
41۔ بحارالانوار، ج95، ص 322۔
42۔ وہی ماخذ، ص302۔
43۔ علامہ مجلسى، زاد المعاد - مفتاح الجنان، ص204؛ بحارالانوار، ج95، ص301۔
44۔ وسائل الشیعہ (مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)، ج7، ص325۔
45۔ المقنعہ، شیخ مفید، ص304-305؛ المراقبات، ملکی تبریزی، ص258۔
46۔ المراقبات، ملکی تبریزی، ص260۔
47۔ تحرير الوسيلہ، امام خمينى، ج1، ص98۔
48۔ بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج95، ص302۔
49۔ بحارالانوار، مجلسى، ج95، ص301۔
50۔ اقبال الاعمال، سید بن طاؤس، ج2، ص282؛ المراقبات، ملکی تبریزی، ص256۔
51۔ اقبال الاعمال، ج2، ص238؛ المراقبات، ملکی تبریزی، ص260۔
52۔ دیکھئے: بلد الامین کفعمی، مصباح التہجد شیخ طوسی، زاد المعاد علامہ مجلسی اور مفاتیح الجنان شیخ عباس قمی اعمال روز غدیر۔
53۔ الکافی، الکلینی، ج4، ص567، ح3؛ تہذیب الأحکام، شیخ طوسی، ج6، ص19، ح42؛ من لا یحضرہ الفقیہ، شیخ صدوق، ج2، ص559، ح3142۔
54۔ اقبال الاعمال، ج2، ص260؛ وسائل الشیعہ، ج7، (مطبوعہ بیروت)، ج7، ص327۔
۔۔۔۔۔۔۔
تکمیل متن و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔
110