1 جون 2025 - 04:25
"میکرون کے مشکوک رومال سے زیلینسکی کے اُلٹی پتلون تک: مغرب میں سیاسی اشرافیہ کے زوال کی نئی سطح، + تصاویر اور ویڈیوز

"یہ معاملہ صرف پتلون اور رومال تک محدود نہیں۔ یہ ایک وسیع پیمانے پر اخلاقی زوال ہے، ایک ایسے اشرافیہ کا انہدام جو اپنے عوام سے اتنا دور ہو چکا ہے کہ گویا کسی متوازی کائنات میں رہتا ہے۔"

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

گذشتہ دو تین ہفتوں کے دوران، مغرب کے کچھ اعلیٰ سطحی سیاستدانوں کی مشکوک اور عجیب حرکات نے میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس پر گرم بحثوں کو جنم دیا ہے۔ 

اخباری اور تجزیاتی ویب سائٹ **"ساؤتھ فرنٹ"** نے اپنی ایک رپورٹ میں ان حرکات کے دو نمایاں واقعات کو اجاگر کیا ہے: 

1. یورپی یونین کے رہنماؤں کے اجلاس میں **کوکین کے استعمال کی ممکنہ نشاندہی کرنے والے ایک رومال اور ناک سے کوکین کھانے والے چمچے** کی موجودگی۔ 

2. یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کا الٹا پتلون پہننا 

رپورٹ میں ان واقعات کو مغربی سیاسی اشرافیہ کے "اخلاقی انحطاط اور زوال" کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ 

یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ رپورٹ اس سے پہلے شائع ہوئی جب فرانس کی خاتون اول "بریجیٹ میکرون کے صدر امانویل میکرون پر جسمانی حملے" کی عجیب ویڈیو منظر عام پر آئی، جو خود بھی مغربی رہنماؤں کی حالیہ عجیب و غریب حرکات کا ایک اور ثبوت ہے۔ 

"پہلی نسل کے خانہ بدوش صحرا سے آتے ہیں، شہر فتح کرتے ہیں اور مقامی اشرافیہ کو ختم کر دیتے ہیں۔ دوسری نسل سرحدوں کو وسعت دیتی ہے اور ایک سلطنت قائم کرتی ہے۔ تیسری نسل صنوبر کے درخت لگاتی ہے، فن و ثقافت کو فروغ دیتی ہے۔ چوتھی نسل ان لوگوں کے ہاتھوں تباہ ہو جاتی ہے جو ایک بار پھر صحرا سے آتے ہیں۔" (ابن خلدون، عظیم عرب مورخ اور ماہر عمرانیات، 14ویں صدی عیسوی)

گذشتہ ہفتے، جب مغربی دنیا کی قیادت بین الاقوامی سطح پر اپنی بحالی کا تاثر دینے کی کوشش کر رہی تھی، اس نے دو مضحکہ خیز اور بے معنی لمحات پیش کئے۔

پہلا منظر: فرانس کے صدر ایمانویل میکرون، برطانیہ کے وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر، اور جرمنی کے چانسلر اولاف شولز (رپورٹ میں غلطی سے فردریش مرتس کا نام درج تھا) ایک ریل گاڑی میں سوار ہوئے، جہاں میڈیا کے کیمرے انہیں گھیرے ہوئے تھے۔ ظاہری طور پر یہ ایک سفارتی ملاقات کے لئے تیار ہونے کا منظر تھا — لیکن یورپی اتحاد پر بات چیت کرنے کے بجائے، وہ ایک انتہائی مشکوک لمحے میں گھر گئے۔ میکرون کی میز پر نمودار ہونے والا وہ پراسرار سفید رومال آخر تھا کیا؟

اور پھر ولادیمیر زیلنسکی! یوکرین کے صدر نے جدید قیادت (Modern leadership) کا ایک "حیرت انگیز" مظاہرہ کرتے ہوئے ایک سرکاری اجلاس میں الٹی پتلون پہن لی!

چاہے یہ اتفاقی ہو یا فیشن کا نیا ٹرینڈ، فی الحال تو کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ جس دنیا میں رہنماؤں پر میڈیا کی مسلسل نظر رہتی ہو، وہاں لباس کے ضابطوں کی  یہ خاص خلاف ورزی کسی سینئر سیاستدان کے لئے، اس سے زیادہ شرمناک صورت حال میں، نہیں پیش نہیں آ سکتی تھی۔ دنیا نے عجیب و غریب چیزیں دیکھی ہیں، مگر اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں: مغربی قیادت واقعی اپنے کھوکھلے، بے معنی اور بیہودہ دور میں داخل ہو چکی ہے۔

"ایک بڑا مسئلہ": مغربی اشرافیہ کا تیزی سے زوال 

یقیناً، یہ واقعات خبروں کی شہ سرخیوں کے لئے پرکشش تھے، لیکن اس میں اس سے کہیں زیادہ گہری بات چھپی ہوئی ہے۔ ہم درحقیقت مغربی اشرافیہ کے دھیمی چال (Slow motion) سے جاری زوال کے عینی شاہد ہیں؛ اور معاملہ صرف پتلون یا رومال تک محدود نہیں۔ 

یہ ایک وسیع پیمانے پر اخلاقی انہدام ہے، ایک ایسے طبقے کا زوال ہے جو اپنے عوام سے اس قدر کٹ چکا ہے کہ گویا کسی متوازی کائنات میں رہ رہا ہو۔ یہ رہنما محض سیاسی غلطیاں نہیں کر رہے ہیں؛ بلکہ اخلاقیات کے نظاماتی کٹاؤ کی زندہ مثال ہیں۔ آیئے اس حقیقت کا سامنا کریں: ان واقعات کو دیکھتے ہوئے صاف ظاہر ہے کہ مغربی قیادت کا طبقہ نہ صرف عوام سے اپنا رابطہ کھو چکا ہے، بلکہ اپنی اپنی خرابیوں کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا۔ 

"اشرافیہ کے مسلسل زوال" کے اس رجحان کو، جیسا کہ نیویارک ٹائمز کے کالم نگار روس ڈاؤتھٹ نے بیان کیا ہے، اس تبدیلی کو مزید واضح کرتا ہے۔ مغربی سیاسی طبقہ آہستہ آہستہ ٹیکنوکریٹ منتظمین کی ایک ایسی جماعت میں تبدیل ہو چکا ہے جو اب ان لوگوں سے کوئی رابطہ نہیں رکھتا جنہیں وہ خدمت فراہم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

یہ صورت حال فرانس میں خاص طور پر واضح ہے، جہاں حالیہ رہنما، جیسے میکرون، اپنے عوام کے عملی تجربات سے یکسر کٹے ہوئے ہیں۔ میکرون خاص طور پر فرانس کے پہلے صدر ہیں جنہوں نے کبھی فوجی خدمات انجام نہیں دیں؛ وہ آخری فرانسیسی رہنما ہیں جو حقیقی فوجی تصادم کا تجربہ رکھتے تھے وہ ژاک شیراک تھے، جنہوں نے 1950 کی دہائی میں الجزائر میں خدمات انجام دیں۔ تاریخ یا فوجی تجربے سے یہ حقیقی منقطع ہونا ان اہم عوامل میں سے ایک ہے جو ایک وسیع تر فکری اور اخلاقی بحران کی عکاسی کرتے ہوئے قیادت کے زوال کا باعث بن رہا ہے۔

قیادت کا بحران: سیاسی اشرافیہ اور تاریخ کی موت

مغربی اشرافیہ کا زوال صرف لباس کی غلطیوں یا سفارتی غلطیوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ہم ایک ایسے عالمی نظام میں فکری قوت اور اخلاقی ذمہ داری کی مکمل شکست و ریخت کے بارے میں بات کر رہے ہیں جہاں فکری قوت اور اخلاقی ذمہ داری کا مکمل زوال ہو چکا ہے، جو فوری منافع اور قلیل مدتی فوائد کے پیچھے بھاگتا بھاگتا پاگل ہو چکا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو دہائیوں سے مسلسل پھیلتا جا رہا ہے، اور اس کی جڑیں اس حقیقت میں پیوست ہیں جس کی رو سے سیاستدان "مینیجرز" بنے ہوئے ہیں، اور شہری "صارفین" بن چکے ہیں۔

اشرافیہ کا عوامی خدمت سے پیچھے ہٹ کر عالمی حکمرانی کے دائرے میں چلے جانے کے نتیجے میں ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے جہاں رائے عامہ کے رخ کا تعین کثیر القومی کمپنیوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ہاتھ میں ہے۔ درحقیقت، ہم روایتی ریاست کی بطور ایک ایسے ادارے کے جو بنیادی طور پر عوام کی خدمت کے لئے تھا، نظاماتی طور پر تباہی کے گواہ ہیں۔ اس کے برعکس، ریاست اب عالمی اشرافیہ کی بلند پروازوں کا محض ایک اور آلہ بنتی جا رہی ہے، جہاں قائدین اپنے عوام کی ضروریات پوری کرنے کے بجائے عالمگیریت اور مالیاتی بازاروں پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم روایتی حکومت ـ جو ذاتی طورپر عوام کی خدمت کے لئے تھی ـ کی منظم تباہی کے عینی گواہ ہیں۔ اب یہ حکومت عالمی اشرافیہ کے عزائم کے لئے ایک نیا آلہ کار بن چکی ہے، جس کے راہنما اپنی زیادہ تر توجہ عالمگیریت اور مالیاتی منڈیوں پر مرکوز کئے ہوئے ہیں، اور عوام ضروریات کی تکمیل کی ذمہ داری کو بھول چکے ہیں۔

یوکرین کا بحران: سیاسی اشرافیہ اپنی جڑوں سے کٹ چکے ہیں

یوکرین کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جہاں سیاسی طبقے کا اخلاقی زوال انتہائی پستی اور بیہودگی تک پہنچ چکا ہے۔ 1991 کے بعد سے، یوکرینی اشرافیہ اپنی اسلاوی جڑوں کو ترک کرکے مغرب میں ضم ہونے کے خام خیالات کے پیچھے بھاگتے ہوئے ایک المناک مذاق بن چکی ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ "Kiev" - جو کبھی عظیم روسی سلطنت کا دارالحکومت تھا - اب زیلنسکی ٹیم اور ان کے مغربی حمایتیوں کی کوششوں سے ""Kyiv" کہلانے لگا ہے۔ نام کی یہ تجارتی تبدیلی سیاسی چال بازی اور رمزیت (Symbolism)  کے ذریعے تاریخ اور شناخت کو مسخ کرنے، گہرے ثقافتی تعلقات اور مشترکہ ورثے کو نظر انداز کرنے کی ایک اور مثال ہے۔

یوکرینی سیاسی اشرافیہ دو دنیاؤں کے درمیان پھنس چکے ہیں: ایک گروہ ایک نئی خزریہ یہودی ریاست قائم کرنے کا خبط رکھتا ہے؛ اور دوسرا گروہ آرتھوڈوکس عیسائی سرزمین پر ایک یورپی ہم جنس پرست ریخ (Reich) بنانے کے درپے ہے۔

یہ متضاد ایجنڈے ایک اخلاقی اور سیاسی بحران کو جنم دے چکے ہیں؛ جہاں یوکرینی اشرافیہ خود نہیں جانتے کہ کس رخ پر چلیں: کیا انہیں یورپی طرز کا کثیرالثقافتی راستہ اپنانا چاہئے؟ یا پھر اس کو UPA (دوسری جنگ عظیم کی انتہاپسند یوکرینی نازی ملیشیا) کے طرز پر ایک فوجی چھاؤنی بننا چاہئے؟ یا پھر اپنے اسلاوی ورثے اور روایات کو اپنانا چاہئے جو کبھی ان کی قوم کی عظمت کا باعث تھیں؟

یہ عملی طور پر "منفی انتخاب" کی بہترین مثال ہے: بہترین اور قابل ترین لوگ نظر انداز کئے گئے، موقع پرست عناصر اقتدار میں آ گئے، نتیجہ یہ ہؤا کہ ایک منتشر، کمزور اور مبہم اشرافیہ کی صورت میں سامنے آیا ہے، جو یوکرین کے مستقبل کا کوئی مربوط نظریہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔

نتائج: اشرافیہ کا زوال، ایک عالمی بحران

دن کے اختتام پر، جو کچھ ہم مغرب اور یوکرین جیسے ممالک میں دیکھ رہے ہیں وہ اخلاقی اور فکری قیادت کا مکمل زوال ہے۔ خواہ وہ میکرون کا مشکوک رومال ہو یا زیلنسکی کی الٹی پتلون، یہ واقعات درحقیقت ایک گہرے بحران کی ظاہری علامتیں ہیں - ایسا بحران جو کئی نسلوں سے پروان چڑھ کر یہاں تک پہنچا ہے۔

آج کی اشرافیہ اپنے عوام اور ثقافت سے کٹ چکی ہے، اور وہ نظام جن پر یہ حکمرانی کرتی ہے، وہ بھی تباہی اور شکست و ریخت کے دہانے پر ہیں۔ یہ اخلاقی تنزلی کوئی ایسی چیز نہیں جو معمولی اصلاحات سے ٹھیک ہو جائے۔ اس کی بحالی کے لئے ان اقدار سے دوبارہ رابطہ جوڑنا پڑے گا جو کبھی ان معاشروں کو طاقتور بنایا کرتے تھے۔

مغرب صرف قیادت کی سطح پر ایک حقیقی انقلاب کے ذریعے ہی موجودہ بحران سے نکلنے کی امید کر سکتا ہے۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ اشرافیہ کے زوال کا یہ چکر بار بار دہرایا جا چکا ہے، اور اگر فوری اقدام نہ کیا گیا تو مغربی تہذیب کا حتمی انجام، بھی مکمل تنزلی اور شکست و ریخت، ہی ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha