اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |
ویڈیو کی تفصیل:
چینل I12 کا نامہ نگار (نیر دفوری): اس وقت اسرائیل میں، دیکھتا اور سنتا ہوں کہ صرف ایک شخص ہے جو فیصلہ کرتا ہے ہمارا راستہ کیا ہے۔ بنیامین نیتن یاہو اگر چاہے تو سمجھوتہ ہوتا ہے اور اگر چاہے تو ہمیں پہلے سے بڑی جنگ کی سمت جانا پڑتا ہے۔
سوال: کیا آپ کے خیال میں حکومت [اور کابینہ] م؛ں نیتن یاہو کے فیصلوں کے بارے میں کوئی بحث نہیں ہوتی؟
جواب: میرا خیال نہیں ہے، یعنی آخر کار نیتن یاہو ہی تعین کرتا ہے
دوسرا تجزیہ کار (صہیونی فوج کے آپریشنز سرکل کا سابق سربراہ یسرائیل زیف): غزہ میں اسرائیل کا ہدف کیا ہے؟ اسرائیل غزہ کی جنگ سے کیا چاہتا ہے؟ ہم ڈیڑھ سال سے "مطلق فتح" کا انتظار کر رہے ہیں، اس وقت سے، جب کہا جاتا تھا کہ "مکمل فتح" تک صرف ایک قدم باقی ہے، لیکن اب تک اس جنگ کی واضح تعریف پیش نہیں کی گئی ہے؛ اسی لئے جو کچھ میں سمجھ سکتا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ اسرائیل کا اصل ہدف غزہ پر قبضہ کرنا اور اس کا انتظام سنبھالنا ہے۔ اور یہ وہی چیز ہے کہ اسموٹرچ نے بھی دوٹوک القاظ میں بیان کی ہے۔
مجھے وضاحت کرنے دیں۔
پہلی بات یعنی پچیس لاکھ فلسطینیوں کا کنٹرول سنبھالنا، جس کے اخراجات ہمیں برداشت کرنا پڑیں گے۔ غلط فہمی میں دوچار نہ ہوں، کوئی بھی قبضے کے اخراجات ہمیں ادا نہیں کرے گا۔
دوسری بات، یعنی تمام [صہیونی] قیدیوں کو موت کا حکم سنانا، ہمیں یہ بھی کہنا چاہئے، یہ حقیقت ہے ان باتوں کے برعکس جو کہی جا رہی ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ غزہ میں ہمیں برسوں تک 10 ہزار سے زائد فوجی تعینات رکھنا پڑیں گے۔
تیسرا تجزیہ کار (چینل I12 کا تجزیر کار امنون آبراموویچ): ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ قیدیوں کے لئے کیا کرنا چاہئے، لیکن ثالثین کہتے ہیں کہ اسرائیل کی قیدیوں سے کوئی دلـچسپی نہیں ہے۔
ہم نیتن یاہو کی بات کر رہے ہیں، جو دوسروں کو اپنے حال پر چھوڑنے کا ماہر ہے، اور آخر کار اس کو اس شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینا پڑے گی۔
سوال: اسرائیل غزہ میں کیا چاہتا ہے؟ یہ کاروائی ایک ہدف کے حصول میں کس حد تک مؤثر ہو سکتی ہے؟ بنیادی طور پر، ہدف کیا ہے؟
چوتھا تجزیہ کار (نیویارک ٹائمز اور یدیعوت آحارونوت کا نامہ نگار رونن برگمین): سیاسی حکام کہتے ہیں کہ انہوں نے فوج کی سفارشات مان لی ہیں اسی لئے جنگ کی سمت جا رہے ہیں۔ اور فوج کافی عرصے دو اہداف کے بارے میں بات کر رہی ہے: 1۔ قیدیوں کی رہائی اور 2۔ حماس کی تباہی یا شکست۔ لیکن فوج اچھی طرح جانتی ہے کہ نہ تو قیدیوں کو رہا کروا سکتی ہے اور نہ ہی انہیں رہا کروانا چاہتی ہے۔
دوسرا ہدف یعنی حماس کی مکمل شکست اور غزہ پر قبضہ، تو یہ وہ ہدف نہیں ہے جس کی طرف فوج جانا چاہے۔ کیونکہ اس ہدف کے حصول کے لئے پانچ سال کا عرصہ درکار ہے۔ فوج نے چھوٹی (دفاعی) کابینہ سے کہا ہے کہ "ہم پھر بھی اسی نقطے پر واپس آئیں گے کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ حماس کے ساتھ سمجھوتہ کریں گے اور اپنے قیدیوں کو آزاد کروائیں گے، یا پھر غزہ پر مکمل قبضہ کریں کریں گے، وہاں مارشل لا نافذ کریں گے اور پانچ سال تک وہاں رہیں گے تاکہ تمام سرنگوں کو تلاش کرکے تباہ کر دیں۔ اس صورت میں ہمارے قیدی ہلاک ہوجائیں گے، یہی دو آپشن ہیں جو اس وقت فوج کی میز پر ہیں۔ لیکن فوج ان میں سے کسی آپشن کی طرف نہیں جانا چاہتی، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ دوسرا آپشن ناقابل حصول ہے۔ یہ حقیقت ہے [جنگ جاری رکھنے کے بارے میں]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ