16 مئی 2025 - 02:42
مآخذ: ڈان نیوز
ٹرمپ کا غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ بھارت کے لئے بڑا سفارتی دھچکا تھا

چار روزہ سنگین تنازع کے بعد میزائلز کا تبادلہ رک چکا ہے اور بندوقیں خاموش ہوچکی ہے، ایک ایسا تنازع جو جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی قوتوں کے درمیان مکمل جنگ چِھڑ جانے کا باعث بن سکتا تھا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | امریکہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے بعد پاکستان اور بھارت جنگ کے دہانے سے واپس لوٹ چکے ہیں۔ تصادم بے شک رک چکا ہو لیکن جنگ بندی کے حوالے سے صورت حال بےیقینی کا شکار ہے۔
اب اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ بھارت تناؤ پیدا کرنے والے اہم مسائل پر پاکستان کے ساتھ معنی خیز مذاکرات کرنے پر رضامند ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں بعد 4 روز کی سخت ترین فوجی کشیدگی کا نتیجہ وہ نہیں نکلا جو پاکستان کے کئی شہروں پر بیک وقت میزائل حملے کرنے والی بھارت کی دائیں بازو کی انتہائی قوم پرست حکومت کی خواہش تھی۔ بلاجواز بھارتی جارحیت کا پاکستان کی جانب سے فوری اور بھرپور قوت سے جواب دیا گیا جس کی بھارت کو توقع نہ تھی۔
پاکستان پر حملے کرنے کے چند گھنٹوں بعد ہی بھارت نے اپنی برتری کھو دی تھی کہ جب پاکستان نے شاندار فضائی تصادم میں جدید ترین بھارتی جنگی طیاروں کو مارگرایا جس کی جدید فضائی جنگ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بھارت نے پاکستان کے فضائی اور عسکری اڈوں کو نشانہ بنا کر کشیدگی میں اضافہ کیا۔ پاکستان کے شہروں پر میزائل اور ڈرونز برسائے۔ پاکستانی افواج نے بھی بھارتی کارروائیوں کا زیادہ شدت سے بھرپور جواب دیا۔
چار روزہ سخت کشیدگی دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کو مکمل جنگ کے اتنا قریب لے آئی کہ کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی، اس نے واشنگٹن اور دیگر ممالک کو تشویش میں مبتلا کیا ہے۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ابتدا سے ہی دونوں ممالک کی قیادت سے رابطے میں تھی لیکن جب تصادم نے سنگین رخ اختیار کیا تو سفارتی کوششوں میں تیزی آئی۔
ایک بار پھر دونوں ممالک کے تنازع کو تیسری قوت کی مداخلت سے روکا گیا۔ صدر ٹرمپ دعویٰ کرتے ہیں کہ امریکی مداخلت سے دونوں ممالک کے درمیان جوہری جنگ روکی گئی لیکن بھارت کسی بھی بیرونی دباؤ کے سامنے جھکنے کی مسلسل تردید کررہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تناؤ کم کرنے کے لیے نہ صرف سفارتی ثالثی کی پیش کش کی بلکہ انہوں نے امن کو اقتصادی تعلقات سے منسلک کیا ہے۔ جنگ بندی کو تجارت سے جوڑنے نے دونوں ممالک کو کشیدگی کم کرنے پر مجبور کیا۔
یہ شاید پہلا موقع تھا کہ امریکی انتظامیہ نے امن کی سفارت کاری میں، تجارت کو فائدے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اگرچہ بدترین حالات ٹل گئے ہوں لیکن دنیا کے غیرمستحکم ترین خطوں میں سے ایک میں حقیقی امن کا حصول اب بھی مشکل ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے اپنے فیصلے سے اب بھی پیچھے نہیں ہٹا ہے جسے پاکستان نے اعلانِ جنگ کے طور پر بیان کیا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنی جنگی روش پر برقرار رہتے ہوئے پانی روکنے اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ باہمی مذاکرات نہ کرنے کے اپنے سخت مؤقف پر قائم ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ 2019ء میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور الحاق کے ان کی حکومت کے یک طرفہ فیصلے کے بعد مسئلہ کشمیر حل ہوچکا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ اگر مذاکرات ہوں گے تو وہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر پر ہوں گے۔
جس امر نے بھارتی وزیر اعظم کو سب سے زیادہ مشتعل کیا وہ یہ ہے کہ حالیہ محاذ آرائی نے اقوامِ عالم کو ایک بار پھر مسئلہ کشمیر پر متوجہ کیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی کشمیر اور دیگر مسائل پر ثالثی کی پیش کش نے مودی کو مشتعل کیا ہے جوکہ جنگ بندی معاہدے کے بعد ان کے پہلے خطاب میں عیاں تھا۔ مودی حکومت نے بھارت کے اس دیرینہ مؤقف کو برقرار رکھا ہے کہ وہ بین الاقوامی ثالثی کو قبول نہیں کرے گا جسے بھارت نے دونوں ممالک کا معاملہ قرار دیا ہے۔
کشمیر کے متنازع علاقے میں کسی بھی دہشتگردی کے بدلے میں مودی نے اپنے فوجی کمانڈرز کو سرحد پار کارروائی کا مکمل اختیار دیا جوکہ پریشان کُن ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت فوجی کارروائی کرنے کی حدود کو مزید کم کررہا ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ مودی حکومت نے حالیہ تصادم اور 2019ء میں پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کرکے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔
بھارت کا تنازعے کو جوہری نہج تک نہ پہنچنے دینے کے نظریے کا پاکستان نے دونوں مواقع پر بھرپور کارروائی سے جواب دیا ہے جس نے ظاہر کیا کہ پاکستان کے پاس بھارت کی فوجی جارحیت کو روکنے کی بھرپور روایتی جنگی صلاحیت ہے۔ بھارتی جنگی طیارے گرانے نے جدید ٹیکنالوجی کی فضائی جنگ میں پاکستان کی برتری کو ظاہر کیا ہے۔ 2019ء میں بھی پاک فضائیہ نے بھارتی طیارہ مار گرایا تھا اور پائلٹ کو حراست میں لیا تھا۔
لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ کشیدگی میں جو کچھ ہوا اس نے بھارت کی روایتی جنگ میں برتری کے دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔ پہلگام میں 2 درجن سے زائد افراد کے قتل کے بعد مودی حکومت نے دوجہتی نقطہ نظر اختیار کرکے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ فوجی کارروائیوں کے دائرہ کار کو پاکستان کے مرکزی شہروں تک وسعت دیتے ہوئے، نئی دہلی نے اسلام آباد کو بین الاقوامی سطح پر بھی تنہا کرنے کی کوشش کی۔
2019ء کے برعکس اس بار فوجی کارروائی کے لیے اسے واشنگٹن اور دیگر مغربی اتحادیوں کی حمایت نہ مل سکی۔ ٹرمپ نے تنازع میں غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ کیا جوکہ مودی حکومت کے لیے بڑا سفارتی دھچکا تھا کیونکہ بھارت خود کو امریکہ کا اہم اسٹریٹجک اتحادی سمجھتا ہے۔ اس سے پاکستان کو ’سزا دینے‘ کی بھارتی حکمت عملی ناکام ہوگئی۔
دوسری جانب چین کی سفارتی حمایت اور اس کے فوجی تعاون نے عسکری طاقت کا مقابلہ کرنے میں پاکستان کے مورال میں کافی اضافہ کیا۔ پاک فضائیہ نے چین کے جدید میزائل کی مدد سے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ اس نے بھارت کو مضبوط جغرافیائی سیاسی پیغام دیا۔
تاہم جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے پر افواج کی کامیابی کا جشن منانے کی پاکستان کے پاس وجہ موجود ہے لیکن یہ جیت کا اعلان کرنے کا وقت نہیں ہے۔ یہ غور و فکر کرنے کا وقت ہے۔ اس تنازع نے ہماری کمزوریوں کو آشکار کیا ہے۔ کشیدگی کے دوران ہماری سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ آیا آئی ایم ایف قرض کی اگلی قسط منظور کرے گا یا نہیں۔ کمزور معیشت کے ساتھ ملک کی سالمیت اور خودمختاری کا کامیابی سے دفاع انتہائی مشکل ہے۔
جنگ بندی کے بعد اب ہمارے ملک کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنی معیشت پر توجہ مرکوز کرے۔ اسی طرح ملک میں سیاسی استحکام بحال کرنا بھی ضروری ہے۔ قوم اگر سیاسی طور پر تقسیم کا شکار ہوگی تو اس سے ملک انتہائی کمزور ہوگا۔ تاہم جنگ کے دہانے سے واپس آتے ہوئے ہمیں ابھی بہت سے اسباق سیکھنے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha