اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | بظاہر لگتا ہے کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے کیونکہ بدھ کی شام وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب میں کہا کہ بھارت کو اپنے مذموم اقدامات کے ’نتائج بھگتنا ہوں گے‘۔ اس سے قبل قومی اسمبلی میں سیاسی یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا جبکہ دن کا آغاز قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے ہوا جس کے اعلامیے میں نئی دہلی کے اقدامات کو ’جنگی کارروائی‘ کے طور پر بیان کیا گیا۔
پاکستان کے خلاف نفرت آمیز جارحیت نے دونوں ہمسایوں کو مزید تنازعات میں دھکیل دیا ہے اور جب تک تنازع اور کشمیر کے بنیادی مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے حل نہیں نکال لیا جاتا، دونوں ممالک تنازعات کی دلدل سے نکل نہیں پائیں گے۔ پاکستان نے اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی کا سخت جواب دیا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے بھارت کے 5 جنگی طیاروں کو مار گرایا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ نئی دہلی پیغام سمجھ گیا ہو اور ایسی مزید ہتک آمیز کوتاہیاں نہ دہرائی جائیں۔
آزاد کشمیر کے مقامات کے علاوہ پنجاب کے کچھ مقامات کو بھی بھارت نے نشانہ بنایا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی آئی ایس پی آر) کے مطابق بھارت کے نام نہاد ’آپریشن سندور‘ میں 31 پاکستانی شہید ہوئے۔ بھارت کی اس جارحانہ کارروائی کے نتیجے میں شہادتیں زیادہ ہوتیں لیکن دراندازوں کو بروقت جواب دیا گیا۔
بھارتی فوج کا یہ دعویٰ کہ یہ حملے ’جنگ کو بھڑکانے کی نوعیت کے نہیں‘ تھے، انتہائی گمراہ کُن ہے۔ کسی ملک کی سرحدوں کی پامالی، اس کے شہروں اور قصبوں کو نشانہ بناتے ہوئے اس کے شہریوں کو شہید کرنا نہ صرف اشتعال انگیز بلکہ جنگی اقدام ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی ریاست کے مطابق اگر صرف ’دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘ کو نشانہ بنایا گیا تو شہری آبادی اور نیلم-جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ پر حملے کے لیے نئی دہلی کے پاس کیا وضاحت ہے؟
بہرحال گذشتہ ہفتوں کے واقعات نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ مسئلہ کشمیر عالمی مسئلہ ہے۔ اگرچہ بھارت اس فرضی دنیا میں رہ رہا ہے کہ جس میں مسئلہ کشمیر ’حل‘ ہوچکا ہے لیکن پاکستان، کشمیریوں اور عالمی برادری کو یہ ادراک ہے کہ یہ خطہ متنازع ہے۔ پاکستان اور بھارت کشمیر کے مسئلے پر متعدد جنگیں لڑ چکے ہیں اور اب وہ اسی مسئلے پر ایک اور جنگ کے دہانے پر ہیں۔
لہٰذا جنوبی ایشیا میں طویل مدتی امن کے قیام کے لیے دونوں ریاستوں کو ایک دوسرے سے صاف گو اور معنی خیز بات چیت کرنا ہوگی۔ یہ شاید بی جے پی کی ہندو قوم پرست حکومت کے لیے کڑوا گھونٹ ہوگا جو کہ ’اکھنڈ بھارت‘ کا خواب دیکھتی ہے۔ لیکن یہ اس کا اپنا ہی نقصان ہوگا اگر وہ اپنے نظریاتی تصورات کو نہ چھوڑے اور پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا حل نہ نکالے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو متبادل دائمی دشمنی ہوگی۔
آنے والے دنوں میں عالمی برادری کو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کروانے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا جبکہ دونوں اطراف کے میڈیا اور سول سوسائٹیز کو جنگ کے شعلوں کو بھڑکانے سے گریز کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110

اداریہ: ’مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر دونوں ممالک تنازعات کی دلدل سے نہیں نکل پائیں گے‘
آپ کا تبصرہ