بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || عبرانی زبان کے اخبار "معاریو" کے جمعے کے روز شائع ہونے والے تازہ ترین سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کے خلاف 22 ماہ سے جاری جنگ کے نتیجے میں 66٪ اسرائیلی آبادکاروں نے اپنے ذاتی معاشی نقصان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
خلاصہ
1۔ اقتصادی اور سماجی خدشات:
• 66٪ اسرائیلی شہری اپنی ذاتی معاشی زندگی پر 22 ماہ تک جاری جنگ کے منفی اثرات سے پریشان ہیں۔
• 69٪ آبادکاروں نے اسرائیل کے سماجی اتحاد کے کمزور پڑنے کے شدید خطرے پر فکرمندی ظاہری کی ہے۔
2۔ سروے کی تفصیلات:
• عبرانی اخبار معاریو کے جمعرات کے ایڈیشن میں شائع ہونے والا یہ سروے لازار انسٹی ٹیوٹ نے 502 یہودی اور عرب شہریوں پر 13-14 اگست کو کیا، جس میں 4.4٪ کی غلطی کا امکان ہے۔
3۔ جنگی منصوبوں پر اختلافات:
• اسرائیلی فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان غزہ کے "اگلے مرحلے" پر شدید تنازعہ پایا جاتا ہے۔
• فوج نے 80,000 سے 100,000 تک ریزرو فوجیوں کو بلانے اور غزہ شہر کے مکمل قبضے کی منصوبہ بندی کی ہے، جس میں زیتون کے علاقے پر حملہ بھی شامل ہے۔
4۔ مزاحمت اور احتجاج:
• اسرائیلی قیدیوں کے خاندان اور فوجی اہلکاروں کے رشتہ داروں نے اتوار کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے، جس میں یونیورسٹیاں اور کاروباری ادارے بند ہوں گے۔
• اس وقت 50 اسرائیلی قیدی غزہ میں ہیں (جن میں سے 20 زندہ ہیں)، جبکہ اسرائیلی جیلوں میں 10,800 سے زائد فلسطینی اسیر تشدد، بھوک اور طبی امداد سے محرومی کا شکار ہیں۔
5۔ انسانی بحران کے اعدادوشمار (7 اکتوبر 2023 سے اب تک):
• 61,776 فلسطینی شہید (زیادہ تر خواتین اور بچے)
• 154,906 زخمی (زیادہ تر خواتین اور بچے)
• 9,000 افراد لاپتہ
• 239 فلسطینیوں کی بھوک سے شہادت (جن میں 106 بچے شامل ہیں)
6۔ بین الاقوامی ردعمل:
• اسرائیل نے امریکی حمایت سے غزہ میں نسل کشی، بھوک اور جبری طور پر بے گھر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جس پر اقوام متحدہ اور ICJ کے احکامات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
7۔ تاریخی تناظر:
• اسرائیل نے 1967 سے 2005 تک (38 سال تک) غزہ پر قبضہ کیا ہوا تھا، اور اب 18 سال سے محاصرے میں جکڑے ہوئے 2.4 ملین فلسطینیوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
نتیجہ:
یہ سروے ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل کی جنگ نہ صرف فلسطینیوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے، بلکہ خود اسرائیلی معاشرے کو معاشی عدم استحکام، سماجی تقسیم اور نفسیاتی دباؤ کی صورت میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
نکتہ:
صہیونیت نے فلسطین کو یہودیوں کا محفوظ گڑھ بنانے کا خواب دیکھ کر اس ملک پر قبضہ کیا اور اس زمانے سے اب تک یہودی آبادکاروں کو تحفظ دینے کے نام پر فلسطینیوں کا امن غارت کر دیا؛ لیکن صورت حال یہ ہے کہ آج یہودی فلسطین کو اپنے لئے غیر محفوظ ترین علاقہ سمجھتے ہیں اور انہیں اپنے مستقبل کا شدید خوف ہے، جبکہ نیتن یاہو انہیں مزید خطرات سے دوچار کرنے پر تلا ہؤا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ