بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، پروفیسر امید نے جامعہ تہران کے ٹیلی ویژن چینل کو بتایا کہ "نیتن یاہو کے دعوے محض ایک مذاق ہیں، کیونکہ ایران کے قابل تجدید آبی ذخائر بدترین حالات میں بھی 90 ارب کیوبک میٹر ہوتے ہیں، جبکہ مقبوضہ فلسطین میں یہ مقدار صرف 0.7 ارب کیوبک میٹر ہے۔"
انھوں نے موازنہ پیش کرتے ہوئے کہا: "اگر صہیونی ریاست کے پاس 1 لیٹر پانی ہے تو ایران کے پاس یہ مقدار 129 لیٹر ہے۔"
چند روز قبل صہیونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایرانی قوم سے مخاطب ہوکر ـ مسخرہ پن کی انتہا کرتے ہوئے ـ دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایران کو درپیش پانی کے بحران کو حل کر سکتا ہے جس پر دنیا بھر میں اس کا مذاق اڑایا گیا اور کھری کھری سنائی گئی۔
پروفیسر امید نے بتایا کہ "ایران میں اس وقت تقریباً 500 ملین کیوبک میٹر سمندری پانی کو میٹھا بنایا جا رہا ہے، جبکہ مقبوضہ فلسطین میں یہ مقدار 700 ملین کیوبک میٹر ہے۔؛ ایران میں 500 ملین کیوبک میٹر سمندری پانی، ملکی استعمال کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے اور یہ پینے کے لئے استعمال نہیں ہوتا جبکہ صہیونی ریاست کی ضرورت کا 80 فیصد پانی سمندر سے حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اسے قابل استعمال بنایا جاتا ہے، اور اس ریاست کا پینے کا پانی بھی سمندر ہی سے آتا ہے جس میں میگنیشیم نہیں ہے اور مضر صحت ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ "سمندری پانی کو میٹھا بنانے کی صلاحیت محدود ہے اور یہ صرف مخصوص مقاصد کے لئے استعمال ہو سکتا ہے۔ ہمارا مسئلہ درست آبی حکمرانی سے حل ہو سکتا ہے، جس کے لئے ہمیں اپنی کھپت پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ وسیع پیمانے پر زرعی مقاصد کے لئے سمندری پانی کو میٹھا بنانا نہ صرف ہمارے ملک کے لئے بلکہ کسی بھی ملک کے لئے ممکن نہیں ہے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ