14 جنوری 2025 - 08:53
شام میں عوامی بے چینی! / ری-انوینٹڈ دہشت گرد حاملہ خواتین تک کو قتل کر رہے ہیں! + تصویر

علوی اکثریتی علاقوں سے بھی جھڑپوں کی خبریں بھی سینسر کا حصار توڑ کر ذرائع ابلاغ تک پہنچ رہی ہیں، اور مجموعی طور پر حالات وہ نہیں ہیں جن کی الجولانی اور اس کے حامیوں کو توقع تھی، بے چینی بڑھ رہی ہے اور عوامی اٹھان نیز شام کے مختلف علاقوں پر قابض ہونے والی اسرائیلی ریاست کے خلاف مقاومت اور مزاحمت کی ابتدائی نشانیاں بالکل عیاں ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

امریکی-صہیونی دشمن اور اس کے کاسہ لیسوں نے شام پر مسلط کردہ 8 سالہ صہیونی-امریکی-ترکی-عربی فتنے کے دوران اپنے تجربات سے فائدہ اٹھایا، ادراکی جنگ کے ذریعے افواہوں کو حقائق کے طور پر پیش کیا اور مصنوعی ذہانت سے کام لے کر محور مقاومت (یا محاذ مزاحمت) کے حوصلے کمزور کرنے کے لئے کوشاں رہا۔ جس وقت تکفیری شام میں سرگرم عمل تھے، تو انھوں نے ایک بار، ایک گولی بھی شام کے کچھ علاقوں پر قابض امریکیوں کی طرف نہیں پھینکی اور حالانکہ شام غاصب "یہودی-اسرائیلی" ریاست کا پڑوسی تھا، انھوں نے ایک بار ایک گولی بھی، یہودیوں کی طرف نہیں چلائی؛ اور اب جبکہ تکفیریوں نے شام کے اقتدار تک بھی قبضہ کر لیا ہے اور اسرائیل نے نے شام کے تمام فوجی، دفاعی، سائنسی اور معاشی ڈھانچوں کو تباہ کر دیا ہے اور شام کا کافی علاقہ [جو غزہ سے کہیں بڑے رقبے پر مشتمل ہے] غصب کر لیا ہے، لیکن تکفیریوں نے نہ صرف کوئی دفاعی اقدام نہیں کیا ہے بلکہ صہیونیوں کو حق بجانب قرار دے رہے ہیں۔

سنہ 2011ع‍ میں کافی لوگ شام میں بشار الاسد کے خلاف ہوگئے اور ان کی حکومت گرانے کی کوشش کی لیکن یہ اٹھان قومی اجماع بننے میں ناکام رہا اور عوام نے اس اٹھان کا ساتھ نہیں دیا؛ حالانکہ بشار الاسد حکومت 2024ع‍ کے مقابلے میں کافی کمزور تھی، اور 2024ع‍ میں حکومت کافی طاقتور تھی لیکن بہت جلد سرنگوں ہو گئی، کیوں؟

حقیقت یہ ہے کہ دشمن ایک لمحے کے لئے بھی غافل نہیں ہؤا، اس نے معرکے کو سنجیدہ لیا، منصوبہ بندی کی اور آپریشن رومز میں بیٹھ کر پروگرام بنائے۔

دشمن نے اس معرکے میں فریب کے اوزار سے بھرپور فائدہ اٹھایا، نرم طاقت کا استعمال کیا، مصنوعی ذہانت سے فائدہ اٹھایا شام کے فوجی مراکز میں افواہ اڑائی کہ پس پردہ بات چیت ہو رہی ہے! شامی فوج سوشل میڈیا کے ذریعے باور کرایا گیا کہ مقاومتی تحریکوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ انھوں نے اس بار ذہنوں کو تباہ کر دیا، اور گولہ بارود استعمال کئے بغیر، ایسی نئی روشوں سے کام لیا جن کی القاعدہ کی شامی شاخ یا ترکی سے وابستہ اویغوروں اور ازبکوں یا چیچنوں کی ذہنی صلاحیتوں سے توقع نہیں رکھی جا سکتی تھی بلکہ اس بار پوری مغربی اور صہیونی صلاحیتوں کو ترکی کی لگائی ہوئی بساط پر ایک ساتھ رکھا گیا اور کسی شامی یا غیر شامی کو ذبح کئے بغیر، نئی چال ڈھال اپنائی اور عوام کو اپنے ساتھ ملایا گوکہ لگتا ہے کہ یہ دھوکہ دہی صرف بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے تک کے لئے تھا اور اگلے دنوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس وقت بشار حکومت نہیں ہے اور لوگوں کی توقعات مختلف ہیں جن سے عہدہ برآ ہونا اپڈیٹڈ اور ری پروڈیوسڈ اور ری انوینٹڈ جولانی اور "ہیئت تحریر الشام" بننے والی جبہۃ النصرہ کے لئے ممکن نہیں ہے، ایسا کیونکر ممکن ہوگا جبکہ یہ لوگ ایک قوم کے تحفظ، ایک سرزمین کی حفاظت اور انسانوں کے دفاع کے کم اور گلے کاٹنے، کلیجے چبانے اور انسانی جانیں لینے کے زیادہ ماہر ہیں۔ 

2۔ ایران، ترکیہ اور روس کے معاہدے کے مطابق، طے یہ تھا کہ ترکیہ دہشت گردوں کو ادلب میں محدود کرکے رکھے گا، شام مرکزی حکومت کا انتظام سنبھالے رکھے اور ایران محور مقاومت کی نگرانی کرے لیکن ترکیہ نے محور مقاومت کو دھوکہ دیا، دہشت گردوں کو تربیت دی اور ہر قسم کا ہتھیار اور سازو سامان فراہم کیا۔ قطر نے ابلاغیاتی میدان میں دہشت گردوں کی مدد کی اور آج ترکیہ اور شامی کردوں کے جنگ شروع ہوچکی ہے اور امریکہ اور ترکیہ جو، شام کی حکومت گرانے کے لئے تعاون کرتے رہے تھے، آج آمنے سامنے ہیں کیونکہ امریکہ کردوں کی سرپرستی کر رہا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیل اورالجولانی کا ہنی مون بھی اختتام پذیر ہو جائے اور ایک نیا محاذ شام کے اندر اسرائیل کے خلاف کھل جائے۔

دشمن کا اصل ہتھیار آج بھی ترکیبی جنگ ہے اور اس سلسلے میں اپنے پرانے تجربوں سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور یہ مسئلہ مقاومت کے لئے زیادہ برا نہیں ہے کیونکہ محور مقاومت بھی دشمن کے اس ہتھیار سے واقف ہے؛ چنانچہ امت کے ہمدردوں کو اسی ہتھیار سے فائدہ اٹھا کر دشمن کے ہتھیار کو ناکام بنانا پڑے گا۔

اس وقت شام کی صورت حال شدید سینسر کا شکار ہے بہت سے حقائق کو چھپایا جا رہا ہے اور عرب ذرائع ابلاغ بھی ـ جو بشار حکومت کے دوران کسی محلے میں کسی کو چھینک بھی آتی تو اسے کوریج دیتے تھے اور کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا شبہہ ظاہر کرتے تھے، اس سینسر کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور جو کچھ شام میں ہو رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کی مثال ذیل کا ایک X پیغام ہے:

ایک شامی صارف نے X پر لکھا:

"میں نے مارچ 2011 سے شروع ہونے والی جھڑپوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا

میں نے ان تمام ویڈیو کلپس کو دیکھا جو اسد حکومت کے دوران فوجی اہلکاروں کی خلاف ورزیوں کی عکاسی کرتے تھے، ان خلاف ورزیوں کو دیکھا جو فوج نے مخالف عسکریت پسندوں کے خلاف انجام دیں اور ان کو بھی جو انھوں نے عام شہریوں کے خلاف کیا۔

میں حقیقت تک پہنچنے کے لئے اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ سچ بولوں اور حق کو نمایاں کروں:

جو جارحیتیں آج الجولانی کے عناصر سابق حکومت کے ارکان، عام شہریوں اور اقلیتوں کے خلاف سرانجام دے رہے ہیں، اور میں دیکھ رہا ہوں، یہ سب میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

جو خلاف ورزیاں، قتل عام، ذبح کرنا اور گلے کاٹنے اور تشدد کے واقعات تحریر الشام کے گماشتوں نے صرف دو ہفتوں کے دوران شہر حمص میں رقم کئے ہیں، حقیقتا ایک المیہ ہے۔

گذشتہ 14 سال کے دوران شام میں یہ سب کچھ کبھی بھی نہيں ہؤا تھا۔

حمص سے وائرل ہونے والے ویڈیو کلپس بہت المناک ہیں۔

وہ بچوں اور حتی کہ حاملہ خواتین پر بھی رحم نہیں کرتے۔

وہ ماؤں کے پیٹ میں بچوں کو بھی قتل کر دیتے ہیں [خوارج کی طرح]، صرف اس لئے کہ اس کی ماں علوی فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔

حمص کو بچاؤ

حمص کو انتہائی خاموشی میں ذبح کیا جا رہا ہے"۔

مندرجہ بالا پیغام ہزاروں میں سے ایک ہے۔ کبھی کبھی علوی اکثریتی علاقوں سے بھی جھڑپوں کی خبریں بھی سینسر کا حصار توڑ کر ذرائع ابلاغ تک پہنچ رہی ہیں، اور مجموعی طور پر حالات وہ نہیں ہیں جن کی الجولانی اور اس کے حامیوں کو توقع تھی، بے چینی بڑھ رہی ہے اور عوامی اٹھان نیز شام کے مختلف علاقوں پر قابض ہونے والی اسرائیلی ریاست کے خلاف مقاومت اور مزاحمت کی ابتدائی نشانیاں بالکل عیاں ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

اس تحریر میں حمیدرضا الماسی نامی صحافی کی تحریر سے استفادہ کیا گیا ہے۔

بقلم: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔

110