ایک صہیونی میڈیا آؤٹ لیٹ نے اطلاع دی ہے کہ قاہرہ 1979 کے امن معاہدے پر نظرثانی کر رہا ہے؛ جو صہیونی تجزیہ کاروں کے مطابق، خطے میں سلامتی کا توازن بدل سکتا ہے اور تل ابیب کے حساب و کتاب کو درہم برہم کر سکتا ہے۔
آخر میں، اس معاہدے کو توانائی معاہدوں میں علاقائی تاریخ کے سب سے بڑے معاہدوں میں سے ایک کے طور پر ریکارڈ کیا جا سکتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ ایک مثال ہے کہ گیس کا ایک معاہدہ بیک وقت ایک اقتصادی فائدہ، سیاسی اثر رسوخ کا ایک ذریعہ اور ایک لامتناہی تنازع کا منبع بھی بن سکتا ہے۔
نئے امریکی ڈرون یونٹ کی تعیناتی نے ایک بار پھر "شہید 136" پر توجہ مرکوز کر دی ہے۔ ایک کم قیمت اور انتہائی کارآمد ایرانی ڈرون جس کی میدان جنگ میں کارکردگی نے دنیا بھر کی فوجوں کو اس کی تقلید کرنے پر مجبور کیا ہے اور حالیہ برسوں میں یہ سب سے زیادہ مؤثر فوجی ٹیکنالوجی کا مظہر بن گیا ہے۔
مصر کی انٹیلی جنس چیف نے قاہرہ میں ایک اجلاس کے دوران اسرائیل کے غزہ کی محدود تعمیر نو کے منصوبے کو مسترد کر دیا اور اس بات پر زور دیا کہ مصر شرم الشیخ کے مذاکرات میں حاصل ہونے والے معاہدات کے پابند ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ 12 روزہ جنگ میں امریکہ اور صہیونی ریاست کے سامنے ایران کی ڈٹ جانے اور ان دونوں حکومتوں پر کاری ضرب لگانے کے ساتھ ساتھ جنگ کے بعد کے دور میں تیاری برقرار رکھنے اور مضبوط بنانے نے عالمی سطح پر اسلامی نظام کی پوزیشن کو مستحکم کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی ٹرائیکا کے رہنما، امریکہ کے حکم اور دباؤ پر، "اسنیپ بیک" (Snapback) کے ذریعے ملک کے اقتصادی اور سماجی سکون اور استحکام کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ایران کے عوام میں اتحاد اور یکجہتی کی ناکامی کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اپنے خیال میں وہ ایران کے عوام کے ہتھیار ڈالنے کی راہ ہموار کر سکیں۔ لیکن یہ آرزو بھی قبر میں لے کر جائیں گے۔
شرم الشیخ میں ٹرمپ کی توہین آمیز رویوں سے عیاں ہؤا کہ ان کے سامنے جھکنے اور کرنش بجا لانے کا نتیجہ ذلت اور خفت کے سوا کچھ نہیں ہے اور مزاحمت و مقاومت ہی عزت و سربلندی کا تحفہ لاتی ہے۔