بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا - کے مطابق: صہیونی وزیر اعظم کے دفتر نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ بنیامین نیتن یاہو نے سرکاری طور پر صومالی لینڈ کو بطور 'آزاد ریاست' تسلیم کیا ہے؛ ایک ایسا اقدام جس پر صومالیہ، ترکیہ، مصر، ایران اور جبوتی کی طرف سے منفی ردعمل سامنے آیا ہے اور جسے صومالیہ کی ارضی یکجہتی اور علاقائی سالمیت کے لئے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
اسی سلسلے میں، عمانی مصنف اور سیاسی تجزیہ کار زاہر المحروقی نے ابنا نیوز ایجنسی کے ساتھ انٹرویو میں اس اقدام کو ممالک کے داخلی معاملات میں واضح مداخلت قرار دیا اور کہا کہ "نام نہاد صومالی لینڈ کو تسلیم کرنا نہ تو امن اور استحکام میں معاون ہے اور نہ ہی بحرانوں کے حل میں مددگار، بلکہ یہ عرب دنیا اور براعظم افریقہ میں نئے اختلافات کی لہر کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے۔
انھوں نے کسی بھی تقسیم کی صریح مخالفت پر زور دیا اور کہا: "ممالک کی تقسیم کمزور ریاستوں کے قیام کا باعث بنتی ہے اور بیرونی اداکاروں کی مداخلت کے لئے ماحول بناتی ہے۔"
المحروقی کا کہنا تھا: "یہ اقدام ایک خطرناک مثال قائم کر سکتا ہے اور یہاں تک کہ اسرائیل کی طرف سے جنوبی یمن کو تسلیم کرنے جیسے اقدامات کا باعث بھی بن سکتا ہے۔"
واضح رہے کہ صہیونی ریاست کے حلیف متحدہ عرب امارات نے پہلے ہی جنوبی یمن کو ایک علیحدہ ریاست بنانے کی کوششوں میں زبردست اضافہ کیا ہے۔
عمانی تجزیہ کار نے ان رپورٹس کی طرف بھی اشارہ کیا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے پر مبنی صہیونی ریاست کا اقدام، اس خطے میں غزہ کے عوام کی آبادکاری کے منصوبے سے منسلک ہے اور خبردار کیا: "اگر یہ رپورٹس درست ثابت ہوتی ہیں، تو ایسا منصوبہ فلسطینیوں کے حقوق کی واضح پامالی اور غزہ سے آبادی کے انخلا اور جبری نقل مکانی کی کوشش کی ایک مثال ہوگا؛ ایک ایسا اقدام جو قرن افریقہ کے ممالک کے استحکام کو بھی شدید خطرے میں ڈال سکتا ہے۔"
المحروقی نے اختتام پر صومالیہ کی حکومت اور بین الاقوامی برادری کے ایک حصے کی طرف سے اس فیصلے کی مخالفت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "صہیونی ریاست صرف کچھ عرب ممالک کی خاموش منظوری کے ساتھ ہی ایسے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے قابل بن سکتی ہے اور ان ممالک کو مستقبل قریب میں اپنی قومی سیکورٹی کے حوالے سے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ