اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، بنگلادش کی نیشنل سٹیزنز پارٹی (NCP) کے جنوبی ونگ کے سینئر آرگنائزر حسنات عبداللہ نے بھارتی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ برسوں سے ایک منصوبہ بند مہم کے تحت بنگلادش کے مسلمانوں کو “جنگجو” اور “دہشت گرد” کے طور پر بدنام کیا جا رہا ہے، اور جو بھی اس بیانیے کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے دبایا جاتا ہے، حتیٰ کہ قتل تک کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے یہ بات بدھ کی شام مشرقی بنگلادش کے ضلع کومیلا کے علاقے اللہ آباد کے گاؤں فولتُلی میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران کہی۔ حسنات عبداللہ نے کہا کہ اس ظلم و جبر کی مخالفت کرنے والے کئی افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ انہوں نے کہا، “ہمارے بھائی ہادی بھی اسی سلسلے کی بھینٹ چڑھے، اور اب خود ہمارا نام بھی نشانے پر ہے۔”
بنگلادشی سیاسی رہنما نے سابق حکومت اور دہلی کے درمیان تعلقات پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کی حکمران جماعت کے بھارت کے ساتھ تعلقات “میاں بیوی جیسے” تھے۔ ان کے بقول بھارت نے بنگلادش کے تشدد پسند اور جرائم پیشہ عناصر کو بغیر ویزا اور پاسپورٹ پناہ دی، انہیں تربیت اور مالی مدد فراہم کی، اور بعد میں انہیں ملک میں بدامنی پھیلانے کے لیے واپس بھیجا گیا۔
حسنات عبداللہ نے بھارتی سرحدی فورسز کے رویے پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بھارتی اہلکار بنگلادشی شہریوں پر فائرنگ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ آئندہ بھارت کے ساتھ تعلقات انصاف کی بنیاد پر ہونے چاہئیں، نہ کہ اندھی وابستگی پر۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام اقدامات مسلمانوں کے خلاف کھلا ظلم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔
انہوں نے اپنی تقریر میں بھارتی ڈراموں اور فلموں کے ذریعے ہونے والی “ثقافتی یلغار” کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اس کا مقصد بنگلادش کو ذہنی اور ثقافتی طور پر بھارت کا محتاج بنائے رکھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب خود انحصاری کا وقت آ چکا ہے اور اس جدوجہد میں نوجوان نسل کو آگے آنا ہوگا۔
آخر میں حسنات عبداللہ نے نئی نسل کی “دیانت داری” کو سراہتے ہوئے کہا کہ اگر عوام باخبر اور باشعور ہوں تو طاقت کے ایوانوں کو بھی اصلاح پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ اس اجتماع میں نیشنل سٹیزنز پارٹی کے متعدد مقامی رہنما بھی موجود تھے۔
آپ کا تبصرہ