اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی کمشنر کایا کالاس نے فلسطینی مزاحمت کے ہتھیار ختم کرنے کے معاملے کو عالمی سطح پر امن قائم کرنے کی کوششوں میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا اور کہا کہ زیادہ تر ممالک اس مشن کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں، جو کہ تجویز کردہ استحکام فورس کے تحت ہونا تھی۔
کایا کالاس نے الجزیرہ ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ یورپی یونین دنیا کے کشیدہ علاقوں میں پائیدار امن قائم کرنے کے لیے اعتماد سازی اور بین الاقوامی قوانین کے نفاذ کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ یورپی یونین غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کی حمایت کے ذریعے کام کر رہی ہے اور دو ریاستی حل کے مطالبے پر قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کو بین الاقوامی سطح پر وسیع حمایت حاصل ہوئی، لیکن اس کے نفاذ میں دشواری پیدا ہوئی کیونکہ کوئی فریق حماس کے ہتھیار ختم کرنے کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں۔
کایا کالاس نے کہا کہ یورپی یونین کے نقطہ نظر سے دستیاب آپشن مقامی پولیس کی تربیت ہے تاکہ وہ داخلی سکیورٹی کا کام سنبھالیں، اور بروکسل تربیتی پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے۔
قانون بین الاقوامی کے دوہرے معیار کے حوالے سے، کایا کالاس نے اعتراف کیا کہ اسے شدید تنقید کا سامنا ہے، لیکن یورپی یونین اسے دنیا کے تمام مسائل اور علاقوں میں نافذ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، "یوکرین سے لے کر غزہ، سوڈان اور کانگو تک”۔
ادھرترکیہ کے وزیر خارجہ هاكان فيدان نے کہا کہ حماس کے ہتھیار ختم کرنا غزہ میں موجودہ سیاسی عمل کی ترجیح نہیں ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ "پہلا قدم ہتھیار ختم کرنا نہیں ہو سکتا، بلکہ ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے اور معاملات کو صحیح ترتیب میں رکھنا چاہیے”۔
فيدان نے 2025 کے دوحہ فورم میں کہا کہ انقرہ ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ غزہ میں امن منصوبے کو جلد از جلد عملی شکل دی جائے اور اس خطے میں بڑھتی ہوئی انسانی المیہ کو ختم کیا جائے۔
"اکسیس” نے رپورٹ کیا تھا کہ اسرائیلی اور امریکی نقطہ نظر میں تضاد موجود ہے، جہاں امریکہ ترکیہ کو اس بین الاقوامی فورس میں شامل کرنے کا حامی ہے، لیکن اسرائیل اس تجویز کو مسترد کرتا ہے۔
عرب ٹی وی کے نامہ نگار نے اس وقت واضح کیا کہ امریکہ کا مقصد یہ ہے کہ ترکیہ حماس پر مثبت دباؤ ڈال سکے، جبکہ اسرائیل کے نزدیک غزہ میں ترکیہ کا کوئی عسکری کردار نہیں ہونا چاہیے۔
آپ کا تبصرہ