اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، عراق میں حزبالله لبنان اور یمن کی انصارالله تحریک کا نام سرکاری طور پر دہشت گرد تنظیموں کی ابتدائی فہرست میں شامل کیے جانے اور پھر فوری طور پر ہٹائے جانے نے ملک بھر میں شدید عوامی ردعمل کو جنم دے دیا ہے۔ اسی فیصلے کے خلاف بغداد اور بصرہ میں سینکڑوں گاڑیوں پر مشتمل بڑے پیمانے کی کار ریلیاں نکالی گئیں جن میں شرکاء نے دونوں مزاحمتی گروہوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا۔
بغداد میں ریلی کا آغاز علاقہ الکاظمیہ سے ہوا، جو پل صرافیہ سے گزر کر کرادہ اور پھر میدان التحریر کی سمت بڑھی۔ گاڑیوں پر حزبالله اور انصارالله کے بڑے بڑے پرچم لہرائے جا رہے تھے، جبکہ لاؤڈ اسپیکروں پر ’یا نصرالله‘‘ اور انصارالله کا معروف ترانہ ’’سارع للجهاد‘‘ بجایا جا رہا تھا۔
بصرہ میں ریلی الاشار علاقے سے شروع ہوئی اور الجزائر اسٹریٹ سے گزرتی ہوئی کورنیش تک پہنچی۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے پورے جلوس کے دوران صرف نگرانی کی اور ہجوم کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں نوجوان موٹرسائیکلوں اور آف روڈ گاڑیوں پر حزبالله اور انصارالله کے جھنڈے لہراتے اور نعرے لگاتے نظر آئے، جبکہ ایک نمایاں نعرہ تھا: ’’حزبالله اور الحوثی ہماری سرخ لکیر ہیں۔
عراقی کارکنان نے سوشل میڈیا پر #المقاومة_خط_احمر اور #لا_للتصنیف_الامریکی جیسے ہیش ٹیگز کے ساتھ مسلسل لائیو تصاویر و ویڈیوز شیئر کیں، جس سے احتجاجی لہر مزید تیز ہوئی۔
اس واقعے پر عراقی مزاحمتی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی سخت ردعمل دیا۔ عصائب اہل الحق کے سیکرٹری جنرل شیخ قیس الخزعلی نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ محض ’’انتظامی غلطی‘‘ نہیں بلکہ ناکام ہونے والا ’’سیاسی منصوبہ‘‘ تھا، اور عوام نے میدان میں آ کر واضح کر دیا کہ مزاحمت اُن کی سرخ لکیر ہے۔ النجباء تحریک نے چیف ایگزیکٹیو سے باضابطہ معافی اور ذمہ دار افسران کی برطرفی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
کتائب حزبالله عراق نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ حکومت اگر سمجھتی ہے کہ ایک وضاحتی بیان سے یہ معاملہ دب جائے گا تو وہ ’’بھاری غلط فہمی‘‘ میں مبتلا ہے، کیونکہ شہداء کے خون کا احترام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مزاحمتی گروہوں کا نام داعش جیسے عناصر کے ساتھ رکھا جائے۔
دوسری جانب حکومتی ترجمان باسم العوادی نے وضاحت کی کہ ’الوقائع العراقیہ‘ کے نئے سرکاری شمارے میں ترمیم شدہ فہرست شائع ہو چکی ہے اور کسی بھی مزاحمتی یا سیاسی گروہ کا نام اس میں شامل نہیں۔ ان کے مطابق یہ معاملہ محض ’’فنی غلطی‘‘ تھا اور اس میں کوئی سیاسی مقصد شامل نہیں تھا۔
تاہم عراقی عوام کی جانب سے جاری کیے گئے سرکاری گزٹ کے دو تقابلی نسخوں کی تصاویر میں واضح دکھائی دیتا ہے کہ ابتدائی فہرست میں انصارالله اور حزبالله کے نام موجود تھے، جو کہ عوامی دباؤ کے بعد ہی حذف کیے گئے۔ احتجاجی ریلیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ وقتی نہیں بلکہ ملک کی داخلی سیاست میں ایک بڑے بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
آپ کا تبصرہ