اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، فرانس کے صدر امانوئل مکرون نے کہا ہے کہ یوکرین کو روس کے خلاف جنگ میں ’’تسلیم‘‘ ہونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ایسی امن تجویز قابل قبول ہے جو کییف کو غیرمحفوظ اور روس کو مزید پیش قدمی کا موقع فراہم کرے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق مکرون نے فرانسیسی ریڈیو آر ٹی ایل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امن ضرور چاہیے، مگر ایسا امن نہیں جو دراصل سرنڈر ہو اور یوکرین کو ناقابلِ برداشت پوزیشن میں دھکیل دے۔ ان کے بقول ایسی صلح روس کو یورپ کے دیگر ممالک تک پیش قدمی کا راستہ بھی دکھا سکتی ہے۔
فرانسیسی صدر نے بتایا کہ امریکہ کی جانب سے پیش کیا گیا نیا امن منصوبہ، جو جنگ کے خاتمے کے لیے سامنے لایا گیا ہے، درست سمت میں قدم ہے۔ تاہم اس کے کئی حصوں پر مزید بات چیت اور بہتری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس منصوبے کی شرائط پر حتمی فیصلہ صرف یوکرینی عوام اور قیادت ہی کر سکتی ہے۔
مکرون نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ یوکرین کی طرف سے یہ طے کرے کہ وہ کون سی علاقائی رعایت دینے کو تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ منصوبے میں کئی نکات ایسے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ روس کے لیے کیا قابلِ قبول ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس ۲۸ نکاتی منصوبے کی ابتدائی شکل روسی مطالبات سے قریب تھی، جس میں یوکرین پر دباؤ ڈالا گیا تھا کہ وہ کچھ علاقے چھوڑ دے، اپنی فوجی صلاحیت کم کرے اور نیٹو میں شمولیت سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہو جائے۔ بعد ازاں اس مسودے میں تبدیلیاں کی گئیں تاکہ یوکرین کی خودمختاری محفوظ رہے۔
منصوبے میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ یورپ میں منجمد روسی اثاثوں کو جنگ کے بعد یوکرین کی تعمیر نو کے منصوبوں میں استعمال کیا جائے۔ تاہم مکرون نے کہا کہ ان اثاثوں کے استعمال کا فیصلہ یورپی ممالک خود کریں گے۔
فرانس کے صدر نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ آیا روس واقعی پائیدار امن کے لیے تیار بھی ہے یا نہیں، ایسا امن جس کے بعد چند ماہ یا چند برس میں دوبارہ یوکرین پر حملہ نہ کیا جائے۔
برطانوی روزنامے فنانشل ٹائمز نے حال ہی میں اطلاع دی تھی کہ امریکی وزیرِ فوج ابوظبی میں یوکرینی عسکری انٹیلیجنس چیف اور ایک روسی وفد کے ساتھ مذاکرات کے لیے پہنچے ہیں، جو واشنگٹن کی نئی ثالثی کوششوں کا حصہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ کی جانب سے سامنے آنے والے اس نئی امن تجویز نے واشنگٹن، کییف اور یورپ میں کئی حلقوں کو حیران کر دیا ہے اور یہ اندیشے پیدا کیے ہیں کہ کہیں امریکی انتظامیہ یوکرین پر ایسے معاہدے کے لیے دباؤ تو نہیں ڈال رہی جو روس کے حق میں بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔
اسی دوران یورپی رہنما بھی متحرک ہو گئے ہیں اور انہوں نے ایک ترمیم شدہ مسودہ پیش کیا ہے جو وائٹ ہاؤس کی تجویز میں موجود کئی کلیدی نکات کو چیلنج کرتا ہے، جنہیں وہ یورپ کی مجموعی سلامتی کے لیے تشویش ناک سمجھتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ