16 اکتوبر 2025 - 09:38
’میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے‘، دیوبند میں امیرخان متقی کے شاندار استقبال پر ردعمل

جاوید اختر نے کہا کہ "دنیا کے سب سے خطرناک دہشت گرد گروپ کے رکن کو عزت دینے کا واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ معاشرہ کی ترجیحی بنیاد کس طرح سے بدل رہی ہے۔"

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || اخبار قومی آواز کے مطابق، معروف ہندوستانی مصنف اور فلم ساز جاوید اخترنے افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے دیوبند میں شاندار استقبال پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ جاوید اختر نے شاندار استقبال کے متعلق کہا کہ ’میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے‘۔ جاوید اختر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا کہ طالبان کے نمائندے کا جس طرح استقبال کیا گیا اور ان کی جو عزت افزائی کی گئی، ان کے لئے وہ انتہائی افسوسناک امر ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے سب سے خطرناک دہشت گرد گروپ کے رکن کو عزت دینے کا واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ معاشرہ کی ترجیحی بنیاد کس طرح سے بدل رہی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>جاوید اختر، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

I hang my head in shame when I see the kind of respect and reception has been given to the representative of the world’s worst terrorists group Taliban by those who beat the pulpit against all kind of terrorists . Shame on Deoband too for giving such a reverent welcome to their â â¦

 

Javed Akhtar (@Javedakhtarjadu) October 13, 2025

 

جاوید اختر نے طالبانی وزیر خارجہ کے ساتھ ساتھ سہارنپور میں واقع دار العلوم دیوبند کو بھی ہدف تنقید بنایا۔ انہوں نے لکھا کہ یہ ادارہ جو ہمیشہ دہشت گردی اور تشدد کے خلاف کھڑے ہونے کی مثال رہا ہے کیسے اپنے اسلامی ہیرو کا شاندار استقبال کر رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ وہ شخص جس نے لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل طور سے پابندی عائد کر دی ہے، اس کی عزت افزائی کی گئی۔

 ’میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے‘، دیوبند میں امیرخان متقی کے شاندار استقبال پر ردعمل

پاکستان کے آج نیوز نے لکھا:

معروف بھارتی شاعر، نغمہ نگار اور سماجی مبصر جاوید اختر نے افغان طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے دورۂ بھارت اور ان کے ’پرتپاک استقبال‘ پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ جاوید اختر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ وہ اس واقعے پر شرمندگی اور افسوس محسوس کرتے ہیں۔

جاوید اختر نے اپنی پوسٹ میں کہا، ’میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کے بدترین دہشت گرد گروہ طالبان کے نمائندے کو وہی لوگ عزت و احترام دے رہے ہیں جو ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف خطبے دیتے ہیں۔‘

انہوں نے دارالعلوم دیوبند پر بھی سخت تنقید کی، جہاں امیر خان متقی کو احترام بھرے انداز میں خوش آمدید کہا گیا۔ جاوید اختر نے کہا، ’دیوبند پر بھی افسوس ہے کہ انہوں نے اس شخص کو ”اسلامی ہیرو“ کے طور پر سراہا جو لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کرنے والوں میں سے ایک ہے۔ میرے ہندوستانی بھائیو اور بہنو! ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟‘

واضح رہے کہ یہ بھارت میں طالبان کے کسی اعلیٰ رہنما کا 2021 میں کابل پر قبضے کے بعد پہلا سرکاری دورہ تھا۔ امیر خان متقی چھ روزہ قیام پر نئی دہلی پہنچے۔ ان کے سفر کی اجازت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طالبان پابندی کمیٹی نے خصوصی استثنا دے کر دی تھی۔

اقوام متحدہ نے متقی کا نام 25 جنوری 2001 کو اپنی پابندی فہرست میں شامل کیا تھا، جس کے تحت ان پر سفری پابندی، اثاثوں کی ضبطی اور اسلحہ خریدنے پر پابندی عائد ہے۔

گذشتہ ہفتے نئی دہلی میں امیر خان متقی کی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کی غیر موجودگی پر شدید تنازع بھی کھڑا ہوا تھا۔ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے اسے ناقابلِ قبول اور خواتین کی توہین قرار دیا، جب کہ متعدد صحافتی تنظیموں نے بھی افغان وزیرِ خارجہ پر تنقید کی۔

بھارتی وزارتِ خارجہ نے وضاحت کی کہ اس پریس کانفرنس کا اہتمام ان کی جانب سے نہیں کیا گیا تھا۔

بعد ازاں، تنازع کے بڑھنے پر امیر خان متقی نے اتوار کو ایک اور پریس کانفرنس منعقد کی، جس میں خواتین صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ، ’خواتین صحافیوں کو باہر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، یہ محض تکنیکی مسئلہ تھا۔ فہرست مختصر وقت میں تیار کی گئی تھی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ، ’کسی کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے، چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین۔‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha